بھٹو کیوں زندہ ہے؟… میری دادی کی زبانی


ہم لوگ سکھر اور خیر پور کے درمیان واقع ایک گاؤں کے رہنے والے ہیں۔

یہ تقریباً 46 برس پہلے ہمارے گھرانے پر گزرنے والا ایک حقیقی واقعہ ہے۔ میں نے اسے اپنی دادی اماں کی زبانی سنا قوم کی امانت جان کر آپ تک پہنچا رہا ہوں۔

بات کچھ اس طرح ہے کہ ہمارا خاندان اپنے گاؤں میں ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا تھا۔ ایک رات چور ہمارے گھر میں گھس آئے۔ مالک مکان کے رکھوالے کتوں نے چوروں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ سارا گھر جاگ اٹھا۔ چوروں کے ساتھ ہاتھا پائی شروع ہو گئی۔  چوروں کو اپنے جان کے لالے پڑ گئے۔ اسی اثنا میں دھینگا مشتی کے دوران ایک چور کی موت واقع ہو گئی۔ ملزمان میں میرے والد مرحوم کو بھی شامل کیا گیا۔ ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے ماچس کی تیلی جلا کے چور کی شناخت کرنا چاہی تھی۔

چور کا تعلق ہمارے علاقے کے نامی گرامی قبیلے سے تھا. ہمارے خاندان کو ہر وقت ان کی طرف سے انتقامی کارروائی کا ڈر رہتا تھا۔ اور ایک دن وہ ہی ہوا۔ مقتول کے قبیلے نے ہمارے گاؤں پہ دھاوا بول دیا۔ اس حملے کے نتیجے میں میرے چچا اور ان کا سسر (جو کہ میری دادی کا سگا بھائی تھا) کی موت واقع ہو گئی۔ اس حملے میں میری دادی شدید زخمی ہوئیں. میری دادی اس کیس میں فریادی بنی اور عدالت میں بھرپور طریقے سے کیس لڑنے کا فیصلہ کیا۔

خاندان پر بھرپور دباؤ آئیا مگر میری دادی ٹس سے مس نہ ہوئیں. پولیس اور علاقے کے معززین کیس کو خراب کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ اس دوران ایک دن بھٹو صاحب خيرپور کے دورے پہ آئے۔ خيرپور کے مشہور ممتاز گرائونڈ میں بھٹو صاحب کا جلسہ تھا. میری دادی ایک عرضی لکھوا کے جلسہ گاہ میں پہنچ گئیں. لوگوں کی بھیڑ تھی اور پولیس والوں کی دھکم پیل تھی. میری دادی اس ہجوم میں عرضی اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑے ہوئے بھٹو صاحب تک پہنچنا چاہتی تھے۔

اس اثنا مین بھٹو صاحب کی آمد کا شور اٹھا۔ وہ میرے دادی کے سامنے سے گزر کر جلسہ گاہ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ دادی نے آگے بڑھنے کی کوشش کی مگر پولیس والے نے انہیں پیچھے دھکیل دیا. بھٹو صاحب کو ایک بزرگ عورت کا اٹھتا ہوا ہاتھ نظر آیا جس کے ہاتھ میں کاغذ تھا. بھٹو صاحب نے گاڑی روک کر پوچھا کہ کیا معاملہ ہے۔ میری دادی کو آگے بلایا۔ ان کے ہاتھ سے وہ عرضی لی اور آگے بڑھ گئے۔

 کچھ دنوں بعد بھٹو صاحب کے احکامات پہنچے. پولیس سیدھی ہو گئی. نتیجتاً ملزمان کو سزائیں ہوئیں. حقیقت پہ مبنی اس کہانی کا مطلب یہ ہے کہ بھٹو صاحب میں ہزار خامیاں ہوں گی مگر عوام کے دکھ درد سننے اور ان  کا مداوا کرنے کی خوبی ہی تھی جس کی وجہ سے اپنے موت کے 40 سال بعد بھی بھٹو لوگوں کی دلوں میں زندہ ہے.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).