تصویر کا ایک ہی رخ ہوتا ہے


اگر میں ایسا کہہ رہا ہوں تو خدانخواستہ کسی نشے کے زیر اثر نہیں ہوں۔ ایسا میں اپنے گرد و پیش حالات کے حوالے سے سمجھنے بھی لگا ہوں۔ ایک لطیفہ ان حالات کی عکاسی کرسکتا ہے۔ آپ نے سنا ہوگا؛ مروت میں مجھ سے پھر سن لیں۔

کسی بد قسمت کی ایک آنکھ حادثاتی طور پر ضائع ہوگئی۔ کچھ عرصہ امراض چشم کے ہسپتال میں گزار کے باہر نکلا تو گھر جاتے ہوئے بھی حیران تھا لیکن بولا نہیں۔ شام کو بیوی کے ساتھ اسی بازار سے گزر ہوا توچپ نہ رہ سکا۔ بیوی سے کہنے لگا ”نیک بخت۔ یہ صبح ایک طرف کا اور شام کو دوسری طرف کا بازار کھولنے کا چلن کب سے ہوا؟ میں ہسپتال گیا تب تو ایسا نہیں تھا۔“

وہ چیز جسے عوامی زبان میں ٹی وی اور ایک خاص حوالے سے ”ایڈیٹس باکس“ کہا جاتا ہے، میرے گھر میں بھی ”بی وی“ سے زیادہ نظر آتا ہے۔ وہ ایک وقت میں غریب خانے کے ایک ہی گوشے کو اپنی موجودی سے سرشار کر سکتی ہے۔ ٹی وی کی جلوہ نمائی سے صرف ایک ہی جگہ محفوظ ہے، جس کا مہذب نام فی زمانہ واش روم ہے۔ اس کے باوجود یہ سچ ہے کہ میری آنکھوں نے اس کی متحرک رنگین تصاویر کو دیکھا ضرور ہے؛ سمجھا کبھی نہیں اور نہ اس کی کوشش ہی کی۔ وجہ بتانے کی ضرورت نہیں، بلا وجہ نام اپنا احمقوں میں کون لکھواتا ہے۔ پھر بھی فراغت اور بیڈ روم کی خلوت میں بیوی اخلاقاً، جی ہاں صرف اخلاقا ًپوچھتی ہے کہ کون سا پروگرام دیکھیں گے؟ تو اچھی طرح جانتے ہوئے کہ لگے گا تو وہی ساس بہوچینل، میں اخلاقا ًبات مذاق میں ٹال دیتا ہوں کہ بھئی جس میں کچھ اچھی صورتیں نظر آئیں اور وہ مجھے ”ٹھرکی“ کے خطاب سے نواز کے وہی چینل لگاتی ہے جو ناگزیر ہے۔

میں کچھ بہک گیا اب اسے عادت بد کہیے کہ کبھی میں وہ چینل لگا لیتا ہوں جو اپنے دعوے کے مطابق کائنات کے پل پل کی خبر سب سے پہلے دیتا ہے۔ ایک بار ایسا ہوا، باہر موسم ابر آلود تھا اور مجھے علم تھا کہ بارش کا یہ سلسلہ ملک کے طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والی بات تھی کہ ایک گھنٹا گزر گیا اور مجھے احساس نہیں ہوا۔ خبرنامہ دہرایا جانے لگا تو میں نے ٹی وی بند کیا اورسوچنے لگا کہ خبر نامے میں خبر کیا تھی؟ پہلے مجھے یکے بعد دیگرے متعدد شہروں میں بارش اور سردی کے مناظر دکھا گئے؛ ثابت کیا گیا کہ لوگ “انجوائے” کر رہے ہیں۔ جتنا میں جانتا ہوں اتنا سب جانتے ہیں کہ پہاڑی علاقوں میں بارش اور برف باری کے موسم میں کیا قیامت آتی ہے جب انسان کیا قافلے برف میں دفن ہوجاتے ہیں، بیمار کو صرف موت ملتی ہے اور مرنے والے کو برف کی قبر؛ لکڑی جلانے کا تیل گیس عنقا ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ آٹا نہیں پہنچتا اور اس قلت کو زرپرست کیسے دگنی چوگنی قیمت وصول کر کے خوش نصیبی میں ڈھالتے ہیں لیکن “خبر” یہ ہے کہ وہ خوشی سے رقصاں ہیں۔

اس کے بعد ملک بھر میں ہونے حادثات کے خونی مناظر، خستہ و شکستہ لاشیں، اعزا کی سینہ کوبی، پھرعزت کے نام پر ہونے والے قتل اور ان کا احوال واقعی۔ پھر جرائم کی تفصیل ،مجرموں کی تصاویر، ’قانون نافذ کرنے والے اداروں‘ کے فخر سے چوڑے سینے اور دمکتے چہرے۔ اشتہار جیسے کسی ایک سیاسی کلائنٹ جماعت کے بیان مخالف پارٹی اور چینل کی شان میں ’سنگ الزام بھی تیر دشنام بھی۔ کرپشن کرکٹ اور کراچی کا رونا۔‘ اینڈ اف کورس درمیان میں زہر سے تریاق تک کے جلوہ ریز اور زرخیز اشتہارات۔ خبرنامہ ختم ہوا۔

ایک بار پھر میں نے سوچا کہ یا مظہرا لعجائب، اس میں کون سی خبر ایسی تھی جس کی صحیح جگہ زرد صحافت کا نمونہ شام کا کوئی چیتھڑا اخبار نہ تھا؟ کیا کوئی بات کسی خلائی رابطے سے ساری دنیا کو دکھائی اور بتائی جانے والی تھی؟ کرہ ارض پر جو ڈھائی تین سو ممالک ہیں، جہاں کہیں رات ہے کہیں دن، وہاں کچھ بھی نہیں ہوا؟ یہ جو سپر پاورز امریکا، روس، چین سے اپنی او آئی سی تک، کسی نے کچھ بھی نہیں کیا؟ نہ دوستی نہ دشمنی، زمین آسمان سے سمندروں اور وسعت افلاک کہیں کوئی بھی واقعہ اس قابل پیش نہیں آیا کہ ایک گھنٹے کے خبرنامے میں ذکر کے لائق ٹھہرتا؟ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سوا خبر کہیں نہیں ہوتی؟

ظاہر ہے ایسا نہیں لیکن ہمیں ساری دنیا کو ایک آنکھ سے دیکھنا سکھا دیا گیا ہے، جس کے لیے دوسری طرف کچھ بھی نہیں، خبروں کا ایک بازار کھلا ہوا ہے۔ بہت کم عرصے میں اس ملک کی غالب اکثریت کو جو خیر سے ان پڑھ بھی نہیں۔ فیشن کے نئے برانڈز اور پیڑا کے نئے ’آوٹ لیٹ‘ ٹیلر سوئفٹ کے نئے البم یا نیو پورن فلمز اور سیلفی کے ’لیٹسٹ اپلی کیشن‘ والے فون، سب کے بارے میں اپ ڈیٹ رکھتے ہے۔ ان کو ’خبر‘ سے بے خبر کردیا گیا ہے۔ ان کو ’زندگی نہ ملے گی دوبارہ‘ کا فلسفہ دے کر صرف اپنے لیے اور آج کے دن کے لیے جینے کی راہ پر گام زن کردیا گیا ہے، چنانچہ حصول مقصد کے لیے پیسا ہی اہم ہے۔ باقی سب تاریخ، علم و آگہی، اخلاقیات، خاندانی اقدار، ادب اورفنون لطیفہ؛ سب فضول بے معنی لاحاصل۔ ان کی درسی کتب سے بھی سب خارج کردیا گیا ہے۔ وہ نہیں جانتے پاکستان کیوں بنا یا کیوں ٹوٹا تھا اور جاننا بھی نہیں چاہتے۔ یہ جاننا البتہ ضروری ہے کہ دقیانوسی بڈھوں نے جو سائٹس بلاک کر رکھی ہیں، ان کو کیسے ان بلاک کیا جائے۔ مذہبی روایات سے بغاوت کیسے کی جائے۔ انسان اگر حیوان ہے (ناطق سہی) مگر فیملی کے کیا معنی؟ مرد عورت کے درمیان تو حیوانی رشتہ فطری اور منطقی ہے۔

ایک طے شدہ مقصد اور پالیسی کے تحت آپ تک صرف ضروری Relevant information جائے گی اور یہ کام کتابیں کریں گی یا میڈیا۔ اس طرح روبوٹ پیدا ہوں گے جو اپنی سوچ نہیں رکھتے۔ Artificial Intelligence کے مالک ہوتے ہیں۔ اب جو تعلیمی پالیسی نافذ ہورہی ہے، یہی مقصد رکھتی ہے۔ آپ کسی بھی کلاس کی درسی کتب کو اٹھا کے دیکھ لیں۔ ان مضامین کو دیکھ لیں جو پڑھے اور پڑھائے جارہے ہیں۔ تہذیبی اور تاریخی یا ادبی علوم ختم ہوئے نہیں تو تیزی سے روبہ زوال ہیں اور یہ مہذب دہشت گردی کی وہ قسم ہے جو ترقی یافتہ ممالک نے شروع کی ہے۔ جس کا حوالہ کل بھی تھا۔ ایسی ہی پالیسی لارڈمیکالے نے بنائی تھی۔اب صنعتی اورمعاشی سپر پاورز کو مشینوں کے ساتھ جن روبوٹس کی ضرورت ہے وہ ہم پس ماندہ کہلانے والے ممالک فراہم کریں گے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا دور داستان ماضی ہوا۔ اب ہم کیپٹل اکانومی کے غلام ہوں گے۔ہماری ٹرانسپورٹ، تعمیراتی کام، صفائی ستھرائی، ذرائع روزگار سب یہی سپر پاورز کنٹرول کریں گی جو غلام ملک سے صرف کارکن چاہتے ہیں۔ تعلیم یافتہ، دانش ور، فن کار، مفکر اور سوچنے والے نہیں۔ ہمیں باخبری اور علم کی کیا ضرورت ہے۔

احمد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد اقبال

احمد اقبال 45 سال سے کہانیاں لکھ رہے ہیں موروثی طور شاعر بھی ہیں مزاحیہ کہانیوں کا ایک مجموعہ شائع ہو کے قبولیت عامہ کی سند حاصل کر چکا ہے سرگزشت زیر ترتیب ہے. معاشیات میں ایم اے کیا مگر سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ملکی تاریخ کے چشم دید گواہ بھی ہیں.

ahmad-iqbal has 32 posts and counting.See all posts by ahmad-iqbal