لبرل فاشسٹ بمقابلہ مذہبی شدت پسند


”ایک طرف لبرل فاشسٹ ہیں جو اپنی رائے ہم پر ٹھونسنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف مذہبی انتہا پسند ہیں جو اپنا حکم ہم پر لاگو کرنا چاہتے ہیں۔“

یہ جملہ بیرسٹر محمد ظفراللہ خان کا ہے جو پاکستانی وزیراعظم کے معاونِ خصوصی ہیں۔ ظفر اللہ خان صاحب کا جملہ پڑھ کر مجھے سقراط کا وہ جملہ یاد آیا جو انہوں نے زندگی کے آخری لمحات میں اپنے شاگرد کے گوش گزار کیا تھا۔ سید سبط حسن اپنی کتاب ’نوید فکر‘ میں لکھتے ہیں کہ سقراط نے زہر کا پیالہ پینے کے بعد اپنے شاگرد کریٹو کو کہا ’کریٹو! یاد رکھو کہ لفظوں کا غلط استعمال سب سے بڑا گناہ ہے۔‘ اگر سقراط کی بات کو مان لیا جائے توہمارے وطن عزیز میں یہ گناہ حد سے زیادہ سرزد ہورہا ہے۔ جب نادان لوگ لفظوں کا غلط استعمال کرتے ہیں تو بات قابل فہم ہے لیکن جب پڑھے لکھے اور عاقل لوگ کچھ مخصوص الفاظ کا مسلسل غلط استعمال کرنے لگتے ہیں تو معاشرے میں ان الفاظ کے خلاف تعصب پروان چڑھتا ہے۔ پاکستان میں ’لبرل‘ اور’سیکولر‘ جیسے الفاظ کے ساتھ کچھ ایساسلوک کیا گیا ہے کہ اب’لبرل‘ اور’سیکولر‘ گالیاں تصور کئے جاتے ہیں۔ سیکولر اور سیکولر ازم کے بارے میں کسی اور بلاگ میں تفصیل سے لکھنے کی کوشش کروں گا۔ فی الحال بحث کو لبرل ازم اور اس سے جڑی چند غلط فہمیوں تک محدود رکھتے ہیں۔

پاکستانی میڈیا میں ’لبرل فاشسٹ‘ کی اصطلاح کو عام کرنے کا سہرا حامد میر صاحب کے سر جاتا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ سب سے پہلے انہوں نے مشرف کے اندازِ حکمرانی کو دیکھ کر یہ اصطلاح استعمال کی تھی۔ حال ہی میں حامد میر صاحب نے ’ہم سب‘ پر شائع ہونے والے اپنے کالم ’اچھے لبرل اور برے لبرل‘ میں امریکی مصنف جونا گولڈبرگ کی کتاب ’لبرل فاشزم‘ کا حوالہ دے کر پاکستانی ترقی پسندوں کو مذہبی انتہا پسندوں کے برابر میں کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی اور اب بیرسٹر صاحب نے بھی یہی کارنامہ سر انجام دیا ہے۔امریکی صحافی مائیکل ٹوماسکی نے ’لبرل فاشزم‘ پڑھنے کے بعد کہا تھا کہ گولڈ برگ صاحب فاشزم کے بارے میں شاید علم رکھتے ہو ںلیکن انہیں لبرل ازم کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتہ۔

مائیکل ٹوماسکی کا جملہ حامد میر صاحب پر بھی صادق آتا ہے کیونکہ وہ بھی مشرف جیسے آمر کو ایک لبرل سمجھنے کی غلطی کرتے ہیں جیسا کہ گولڈ برگ صاحب نے ہٹلر جیسے آمر کو لبرل کا خطاب دیکر دراصل لبرلز کو بدنام کرنے کی کوشش کی تھی۔

عمران خان صاحب تو ان سب سے دو ہاتھ آگے نکل گئے اور لبرلز کو پاکستانی معاشرے کا گند قرار دے دیا۔ کوئی بھی ایسا شخص جو لبرل ازم کی الف، ب سے واقف ہے اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ لبرل ازم اور فاشزم دو متضاد نظریات ہیں۔ لبرل ازم تو مساوات اور آزادی کی بات کرتا ہے جبکہ فاشزم کی بنیاد ہی کٹرپن ہے۔ لبرل ازم میں اجتماعی بہتری اور فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ انسانوں کی انفرادی آزادی پر بات کی جاتی ہے اور ہر کسی کو مذہبی آزادی کا حق حاصل ہوتا ہے جبکہ فاشزم میں ایک آمرِ مطلق اجتماعی مفاد کے نام پر اپنا نظریہ دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔لبرل ازم میں تو رائے کی آزادی پر یقین رکھا جاتا ہے اور ہر اس چیز پر بحث و تنقید کی اجازت ہوتی ہیں جس سے سماجی زندگی متاثر ہوتی ہے، دوسری جانب فاشزم میں ایک ہی رائے پر انحصار کیا جاتا ہے اور تنقید کی گنجائش ہی نہیں رکھی جاتی۔

یہ بات حیران کن ہے کہ ہٹلر جیسے آمر کو لبرل کہا جارہا ہے جس نے مذہبی اور نسلی بنیاد پر تقریباً ساٹھ لاکھ یہودیوں کا قتل عام کیا، جو کہ لبرل ازم کے سراسر منافی ہے۔ لبرل ازم کے ساتھ اس سے بڑی ناانصافی کیا ہوسکتی ہے کہ مشرف جیسا آمر لبرل قرار پائے جس نے ایک جمہوری ملک کے آئین کو پامال کیا۔
اب اس بات کی طرف آتے ہیں کہ کیا پاکستانی لبرلز اور مذہبی شدت پسند دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں؟ کیا دونوں گروہ ملک اور عوام کیلئے خطرہ ہیں؟ اس سوال کاجواب جاننے کیلئے دیکھنا ہوگا کہ ملک کو سب سے زیادہ نقصان کس کی وجہ سے پہنچا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دہشت گردی کی وجہ سے اب تک پاکستان میں ستر ہزار لوگ مارے جاچکے ہیں اور اس سے بھی بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو ان واقعات میں زخمی ہوئے ہیں اور جن کی زندگیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ ہر ذی شعور پاکستانی کو پتہ ہے کہ ان واقعات میں مذہبی انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والے دہشت گرد ملوث ہیں نہ کہ وہ لوگ جو لبرل سوچ رکھتے ہیں۔

پاکستان میں فرقہ واریت اور عدم برداشت کو بڑھاوا دینے والوں کا جب بھی ذکر ہوتا ہے تو فوجی ڈکٹیٹر ضیا الحق کا نام سر فہرست ہوتا ہے۔ ضیا الحق کی ان تمام پالیسیوں کی حمایت مذہبی انتہا پسندوں نے کی جبکہ لبرل طبقوں نے ہمیشہ ضیا الحق کی مخالفت کی جس کی وجہ سے انہیں سرعام کوڑے مارے گئے اور جیلوں میں بند کردیا گیا۔

افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے والوں کا تعلق بھی لبرل حلقوں سے نہیں بلکہ مذہبی حلقوں سے تھا جنہوں نے جہاد کے نام پر امریکی اشیرباد سے بے گناہ لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔

پاکستان میں رہنے والے اقلیتوں کے خلاف نسلی امتیاز رکھنے اور انہیں دوسرے درجے کا شہری سمجھنے والے افراد بھی مذہبی انتہا پسند ہیں۔ دوسری جانب پاکستانی لبرلز ہمیشہ سے پاکستان میں رہنے والے ہر فرد کو مساوی حقوق دینے کی بات کرتے رہے ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کرنے والے پاکستانی فوجیوں کو شہید کہنے سے انکار کرنے والے لبرل نہیں بلکہ مذہبی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔

ملزموں کو بغیر کسی ٹرائل کے مجرم قرار دینے اور کھلے عام ان کا سر قلم کرنے اور ماورائے عدالت غائب اور قتل کرنے کی حمایت بھی مذہبی انتہا پسند کرتے ہیں جبکہ لبرل حلقوں نے عدالتی نظام کو بہتر بنانے کی بات کی ہے اور قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے والوں کی مخالفت کی ہے۔

پاکستان میں لبرل حلقوں نے کبھی بھی دھونس دھمکی اور تشدد سے اپنی بات منوانے کی کوشش نہیں کی اور ہمیشہ جمہوری طریقوں اور آئین کی حدود میں رہتے ہوئے اپنے احتجاج ریکارڈ کروائے ہیں جبکہ مذہبی انتہا پسندوں نے کئی بار ملک کے مختلف شہروں بشمول دارالحکومت کو کئی روز تک بند کرکے اپنا حکم منوانے کی کوشش کی ہے اور ریاست کو کھلم کھلا چیلنج کیا ہے۔

اگلی بار جب حامد میر یا کوئی اور صاحب پاکستانی لبرل کا موازنہ طالبان سے کریں تو انہیں یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان میں جہاں کہیں بھی ظلم ہوا ہے اس کے خلاف پاکستانی لبرلز نے اپنی آواز بلند کی ہے حتیٰ کہ حامد میر صاحب پر بھی جب قاتلانہ حملہ ہوا تھا تو یہی لبرلز تھے جنہوں نے صحافتی برادری کے ساتھ مل کر اس حملے کے خلاف احتجاج کیا تھا اور ان کے ادارے کی حمایت کی تھی ورنہ مذہبی حلقے تو حامد میر صاحب کے ادارے پر توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگا کر اسے بند کرنے کے درپے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).