نمائندگان اور ہم


یہ تو یاد ہے کہ جب (ماضی میں) سرکار نے چینی کی قیمت تین گنا بڑھائی، تو حشر برپا ہوگیا۔ بمشکل ضرورتیں پوری کرنے والے سراپا احتجاج ہوئے۔ حسب معمول، ان سے معاشی طور بہتر طبقے نے ان کی نمائندگی کے لئے اپنی تمام سہولتیں بالائے تاک رکھ کر سرکار پر دباو ڈالا اور آخرکار سرکار نے ’بڑھائی‘ گئی قیمت میں پورے پچاس فیصد کی کمی کا اعلان کیا۔ نمائندگی والا طبقہ پڑھا لکھا (سمجھ دار سمجھ لیں) بھی تھا لہٰذا دیگر طبقے کو ماننا ہی پڑا کہ فیصلہ ان کے حق میں ہے۔ فیصلوں میں طوالت تو عام ہے سو اس دوران اپنے آپ کو حالات کے مطابق ڈھال بھی تو لیا نا انہوں نے۔ اس طرح بنیادی قیمت کا تعین ایک طرح سے سب کی رضامندی سے ہی ہوا اور آگے اضافہ اسی بنیادی قیمت کے حساب سے ہوتا گیا۔ کچھ عرصے بعد کسی کو یاد بھی نہ رہا، کہ کیا کھویا کیا پایا….

یہی حکمت عملی مجھے تمام مسائل کے حل میں، بدستور نظر آتی ہے اور یہ غیر اعلانیہ حکمت عملی یقیناً اس طبقے کی طرف سے بنائی گئی ہے، جو پڑھا لکھا ہے، سمجھ دار ہے اور سب سے بڑھ کر اس کے پاس اپنی تمام تر سہولتوں کے باوجود، دیگر کی نمائندگی کے لئے وقت بھی میسر ہے۔ ہمارا اور ان کا مقابلہ غیر مناسب ہے۔ ہمیں بہتر معاشی حالت بنانے اور قائم رکھنے کی تگ ودو سے بہت مشکل سے ٹی وی دیکھنے یا پھر سوشل میڈیا کے لئے وقت میسر ہوتا ہے جبکہ نمائندگی کرنے والا طبقہ چوبیس گھنٹے آن لائن گزارتا ہے۔ مشکل سے کوئی وقت نکال پاتے ہوں گے،بیچارے دفتری کاموں، ملاقاتوں یا کسی بھی ایسے کام میں جو دیگر کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لئے، اپنے لئے نہیں۔ بال بچوں کو بھی بادل نخواستہ اپنے ہی جیسے کسی کام میںہاتھ بٹانے پر مامور کردیتے ہیں۔ اس پر بھی اقربا پروری کی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کو۔

سیاسی نمائندگی کے لئے سب سے ضروری ہے وقت اور وہ بھی ایسا کہ جیسا ہم جیسے معاش کی تلاش میں گزار دیتے ہیں۔ پھر اس کے حتی الامکان درست استعمال اور پھر سرکار کو وہ اسناد فراہم کرنے میں جس سے ظاہر ہو کہ سب کچھ مروجہ جائز دائرہ کار میں ہوا، تو بہتر معاشی حالت بھی۔ ہاں البتہ اگر کسی کے پاس وقت ہے لیکن بہتر معاشی حیثیت نہیں تو وہ بھی اس وقت کی بدولت مل جائے گی اگر وہ نمائندگی کرنے کے لئے تیار ہے۔ بس کچھ ایسے فن کا مظاہرہ کرنا پڑے گا جو دور حاضر کے نمائندگان کو ان کی ادا بھا جائے۔ تو کلی طور وقت ہی تو ہے جو درکار ہے۔ اسی لئے ہم جیسے بے کار ہیں۔

اب اسی طبقے نے، انصاف فراہم کرنے کے لئے، قاضی کا نہیں بلکہ ایک لشکرکا انتخاب کیا ہے۔ ہاں پشیمانی کا اظہار بھی کیا ہے۔ دکھی بھی بہت ہیں اور ہمیں مطلع بھی کر دیا ہے کہ یہ حل نہیں۔ لیکن ایک مرتبہ پھر کڑوی گولی کھانا ہی ہمارے مقدر میں ہے۔ ورنہ (خدا نخواستہ) اپنے وجود کو ہی خطرات لاحق ہوں گے اور پھر اگر ہم نہ ہوں گے تو وہ نمائندگی کس کی کریں گے! ان کی شناخت کا حل تو کوئی نہ کوئی عرب / کھرب نکال ہی لے گا، مسئلہ توہمارا ہے۔ ہمارے وجود کا۔ جس کادکھ ان نمائندگان کو کھائے جا رہا ہے۔

بصد احترام، ایک خاکہ اور بھی تو ہے، جس کے ذریعے ہم پائیدار اور غیر متزلزل ترقی کی نوید سن سکتے ہیں۔

پارلیمنٹ یہ ترمیم کر دے کہ، تمام اداروں کو از سر نو تعمیر کی اشد ضرورت ہے لہٰذا تمام ادارے، بشمول ملک کی مکمل باگ ڈور ایک وقت مقررہ کے لئے فوج کے سپرد کی جارہی ہے۔ فوج آئینی طور پر اس وقت مقررہ کے اندر ان اداروں کی پائیدار تشکیل کو مکمل کرے گی۔ ملکی قوانین اور بین الاقوامی معیارات اور اہداف کے مطابق اپنے کام کی تکمیل کے بعد اقتدار نئے نظام کے نتیجے میں منتخب شدہ حکومت کے حوالے کر دیا جائے گا۔

جب فوجی عدالتوں کی کڑوی گولی ہر دو سال بعد کھانی ہے اور وقتاً فوقتاً آپریشنز بھی کرنے ہیں تو ایک ہی بار، مکمل تشخیص اور پھر مکمل علاج تک ہسپتال میں ہی رہنے میں کیا حرج ہے!

اس دوران، نمائندگان اپنی آئندہ نسلوں کو تیار کریں اور ہماری خاطر فقط اپنی سہولتوں تک ہی محدود رہیں۔ ہم نہ سہی ہماری اگلی نسلوں کے لئے تو وہ ملک میسر ہو، جس کے نمائندگان نے ہمیں خواب دکھائے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).