کیا نورین لغاری نے واقعی داعش میں شمولیت اختیار کی ہے؟


انیس سالہ نورین جبار لغاری لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل سائنس جامشورو میں دوسرے سال کی طالبہ ہے۔ دس فروری 2017 کو وہ حسب معمول یونیورسٹی آئیں، کلاسز بھی اٹینڈ کیئے مگر گھر واپس نہیں پہنچیں ۔ معاملا ایک آدھا دن پولیس اور نورین کے وارثوں میں دبا رہا اور پولیس اپنے طور پر تلاش کرتی رہی۔

بات شاید برداشت سےآگے نکل گئی کہ نورین کے والد ، سندھ یونیورسٹی جامشورو کے ایم اے قاضی انسٹیٹوٹ آف کیمیسٹری میں مقرر پروفیسر ڈاکٹر عبدالجبار لغاری نے میڈیا میں آ کے اپنی بیٹی کی گمشدگی ظاہر کر دی۔

میڈیکل کی سالِ دوئم کی طالبہ کی گمشدگی کی خبر سندھ بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تو پولیس نے اپنی تفتیش کے بعد حاصل ہونے والی خبر منظر عام پر لاتے ہوئے سب کو حیران کر دیا۔

ایس ایس پی حیدرآباد عرفان بلوچ نے میڈیا کو بتایا کہ نورین لغاری نے اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا ( آئی ایس آئی ایس) المشہور ّ داعش ّ میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔

اس خبر کے ثبوت کے طور پر پولیس نے نورین لغاری کی سوشل میڈیا پر جہادی خیالات والی پوسٹنگس کو پیش کیا اور ساتھ ہی ڈائیوو بس ٹرمینل حیدرآباد کی سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی گئی جس میں ایک پردہ پوش لڑکی کو لاھور جانے والی بس میں سوار ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے اور کہا گیا کہ یہی نورین ہے۔ ثبوت کے طور پر نورین لغاری کے نام کی بس ٹکٹ بھی پیش کی گئی۔

مگر نورین کے والد ڈاکٹر عبدالجبار لغاری نے پریس کانفرنس کرکے پولیس کی اس تفتیش کو یکسر مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ میری بیٹی شدت پسند نہیں۔ اس کو اغوا کیا گیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی بیٹی سندھ سے باہر نہیں گئی۔

 یہ معاملہ جتنا حساس ہے اتنا ہی سنگین بھی ہے۔ اگر پولیس کی بات مانی جائے کہ نورین داعش میں شامل ہونے کے لیئے گئی ہے تو یہ بات اس کی اغوا ہونے والی بات سے زیادہ خطرناک ہے اور یہ داعش کے سندھ میں گھس آنے کی خبر بنتی ہے۔

یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر پولیس کی یہ بات سچ مان لی جائے کہ بس میں سوار ہونے والی پردہ پوش لڑکی نورین لغاری ہی ہے تو اس کے لاھور یا کسی دوسرے شہر میں ڈائیوو بس سے اترنے کی وڈیو ریکارڈنگ کیوں دستیاب نہیں جب کہ ڈائیوو کمپنی کا ہر اسٹیشن پر سی سی ٹی وی کیمرہ نصب ہے۔

صورت حال کا جائزہ لینے والے اہل دانش کا کہنا ہے کہ داعش میں جانے والے، کم از کم اپنی منزل پر پہنچنے کے بعد اپنے گھر والوں کو یہ پیغام ضرور دیتے ہوں گے کہ مجھے بھول جائیں۔ میں اپنی منزل پر ہوں۔

نورین کی پراسرار گمشدگی ابھی تک معمہ بنی ہوئی ہے۔ نورین کے گھر میں ماتم کی فضا اور سوگ کی سی کیفیت ہے۔ اس کی چھوٹی بہن نے خوف کی وجہ سے پڑھائی چھوڑ دی ہے۔ میڈیا اور سول سوسائٹی میں نورین کی بازیابی کے لیئے اکا دکا آوازیں اٹھ رہی ہیں مگر تقریبا دو مہینے ہونے کو ہیں کہ پولیس اور دیگر ریاستی اداروں کی طرف سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آ رہی تھی کہ اچانک کل چار اپریل 2017 کو آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ نے نورین لغاری کے گھر فون کر کے تسلی دی ہے اور ان کو بتایا ہے کہ نورین کیس میں پیش رفت ہوئی ہے اورجلد کامیابی ہوگی۔

نورین لغاری کیس میں کامیابی دونوں صورتوں میں غیر معمولی بات ہوگی۔ نورین کا داعش میں جانا ثابت ہونا یا نورین کے اغوا کا معاملہ سامنے آنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).