ڈاکٹر ریاض احمد: استاد دوبارہ عدالت کے کٹہرے میں ہے


اشفاق احمد مرحوم نے زاویہ میں ”استاد عدالت کے کٹہرے میں ہے“ کا عنوان باندھا ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے جو جواں عمری میں ان کے ساتھ اٹلی میں پیش آیا تھا۔ گاڑی غلط راہ پہ ڈالنے سبب اشفاق صاحب کا چالان ہوا۔ صبح اٹلی کی جامعہ روم میں تدریس فرماتے، سہہ پہر ایک ریڈیو میں نشریاتی سرگرمیاں انجام دیتے۔ وقت کی تنگی تھی چالان ادا نہ ہوا۔ عدالت سے دو بارنوٹس بھی موصول ہوا مگر بات نہ بنی۔ مزید تاخیر پرعدالت نے طلب کرلیا۔ اشفاق صاحب پیلس آف دی جسٹس پہنچ گئے۔ جج نے نام پکارا، قدرے تلخی سے کٹہرے میں کھڑا ہونے کو کہا۔ جج نے سوال کیا، آپ کا چالان ہوا، ڈاک خانے میں جمع کروانے کو کہا گیا تھا، نوٹس بھیج کر مہلت بھی دی گئی، مگر چالان نہیں بھرا، آخرکیوں؟ اشفاق صاحب نے کہا، جی مجھے کروانا چاہیے تھا، مگر کوتاہی ہوگئی۔ اشفاق صاحب عذر پیش کرنا چاہتے ہی تھے کہ جج نے سرزنش شروع کردی، کیا آپ کو اندازہ ہے کہ آپ کی اس کوتاہی کے نتیجے میں کتنا وقت عملے کا ضائع ہوا؟ کتنا وقت پولیس کا اور اب کتنا وقت عدالت کا ضائع ہورہا ہے؟ آپ کو اس غفلت کی کڑی سزا بھگتنی ہوگی۔

اشفاق صاحب نے کہا، دیکھیے میں ایک پردیسی ہوں، مقامی قانون اورادب آداب زیادہ نہیں جانتا، سزا میں رعایت دیں گے تو شکرگزار ہوں گا۔ جج نے کہا، زبان تو آپ ٹھیک بول رہے ہیں، قانون کا آپ کو نہیں پتہ، کرتے کیا ہیں آپ؟ جواب دیا، میں ایک استاد ہوں، یونیورسٹی میں پروفیسر ہوں، کچھ ایسی ہی مصروفیت کے سبب چالان کی ادائیگی ممکن نہ ہوئی۔ اشفاق صاحب کا جملہ ابھی پورا بھی نہ ہوپایا تھا کہ جج کھڑا ہوا اور کہا ”استاد عدالت کے کٹہرے میں ہے“، یہ سنتے ہی باقی کا عملہ بھی کھڑا ہوگیا۔ جج دراصل اپنے سخت لہجے کے لیے معذرت کا اظہار کررہا تھا۔ احتراماً کرسی فراہم کرنے کو کہا۔ اشفاق صاحب نے کرسی سنبھالی تو جج نے بھی نشست پکڑلی۔ جج نے اب گفتگو شروع کی تو آواز دھیمی اور لہجہ بہت نرم تھا۔ جج نے کہا

”قابلِ عزت استاد محترم، یہ ہم نے آپ ہی سیکھا ہے کہ قانون کی پاس داری ہونی چاہیے، وقت کی پابندی کرنی چاہیے، قانون کے آگے سب کو برابرہونا چاہیے۔ آپ اساتذہ کی بدولت ہم یہاں موجود ہیں، آپ کے بتائے ہوئے ضابطوں کو آپ ہی کے فرمان کے مطابق لاگو کرنے کے پابند ہیں۔ آپ کے احترام کو برقرار رکھتے ہوئے عدالت فیصلہ سناتی ہے کہ مسلسل تاخیر کے سبب آپ کو چالان دگنا ادا کرنا ہوگا“

غلطی کسی سے بھی ہوسکتی ہے۔ جرم انسان ہی کرتا ہے۔ قانون کی خلاف ورزی خود جج سے بھی ہوسکتی ہے۔ اصول استاد سے بھی پامال ہوسکتا ہے۔ ہمارے پاس قانون کی دستاویز موجود ہے۔ جرم کی سزا اس میں متعین ہے۔ شاگرد کو بھی ملے گی استاد کو بھی۔ سوال یہ نہیں ہے کہ واحد بلوچ کو گرفتار کیوں کیا تھا؟ اعتراض یہ نہیں ہے کہ سلمان حیدر کو حراست میں کیوں لیا گیا تھا؟ ڈاکٹر حسن ظفرعارف اور اب ڈاکٹر ریاض احمد کی گرفتاری سوالیہ نشان نہیں ہے۔ سوالیہ نشان صرف وہ رویہ ہے جو اساتذہ کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے۔ واحد بلوچ نے عمر بھر لیاری کی پر پیج و تاریک گلیوں میں جوتیاں چٹخا کرعلم کے چراغ روشن کیے۔ روپیہ روپیہ جوڑ کربچوں کے لیے ریگل چوک کے فٹ پاتھوں سے شعور خریدا۔ اپنی کمسن بیٹیوں نے آج جو دو چار سطریں کہیں استاد سے سیکھیں، وہ آج ہی لیاری کے بچوں تک پہنچانے کی تاکید کی۔ انہیں محض شبہے کی بنیاد پرحیدر آباد اور کراچی کے بیچ رسوا کن انداز میں بس سے اتار کر گرفتار کیا گیا۔ گرفتاری کے بعد مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہونے کا حق نہیں دیا گیا۔ ایف آئی آر درج کروانا زندگی موت کا مسئلہ بنادیا گیا۔ جتنے دن حراست میں رکھا، اہل خانہ سے ملنے نہیں دیا گیا۔ ثبوت وشواہد نہ ملے تو بغیر کسی اظہارِ ندامت کے رہا کر دیا گیا۔

سلمان حیدر بہرحال ایک جامعہ کا استاد تھا۔ شاعر اور ڈرامہ نویس تھا۔ کالم نگار اور تجزیہ نگار تھا۔ راہ چلتے دھر لیا گیا۔ عدالت میں پیش ہونے نہیں دیا گیا۔ اہل خانہ کو مطلع نہیں کیا گیا۔ دانستہ تاثر قائم کیا گیا کہ اہانتِ مذہب کا مرتکب ہے۔ بنا کسی ثبوت کے کردار کشی ہوئی۔ پراسرار طور پر رہائی ہوئی۔ رہائی کی اذیت قید کی اذیت سے بڑھ کر تھی کہ جو داغ دیے ہیں وہ کیسے دھلیں گے۔ رہائی کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس ہوا، ثبوت و شواہد نہ ہونے کی بنیاد پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے کیس خارج کردیا۔ اداروں سے پوچھنا چاہیے تھا کہ آپ کے پاس اہانتِ مذہب کے جو ثبوت ہیں وہ جناب شوکت صدیقی صاحب کی عدالت میں پیش کیوں نہیں کیے گئے؟ ثبوت و شواہد جب اداروں کے پاس ہیں اور نہ عدالتوں کے پاس، تو اے میرے جادہِ خوشخبر کے رفیق! تم ہی بتاؤ پھر کہ یہ کاروبارِ حیات کس کے حساب میں ہے؟

دیکھیے، ڈاکٹر حسن ظفرعارف کی خاص بات ہی یہ ہے کہ وہ فرشتہ نہیں ہیں۔ مانا جاسکتا ہے کہ ان سے جرم سرزد ہوا ہوگا۔ کارروائی کیجیے کہ قانون کی نگاہ میں کوئی بندہ ہے اور نہ کوئی بندہ نواز۔ تکلیف اس تذلیل کی ہے جو عدالت کے احاطے میں کی جاتی ہے۔ ہتھکڑیاں ان کے ہاتھ میں ہوتی ہیں جب انہیں اہل خانہ سے ملوایا جاتا ہے۔ احاطے میں بٹھا کر جج کے آنے کا انتظار کروایا جاتا ہے۔ ہرآتا جاتا انہیں اس حال میں دیکھتا ہے کہ دونوں ہاتھ بندھے ہوتے ہیں۔

اسی رویے پر اپنا احتجاج درج کروانے کے لیے ڈاکٹر ریاض احمد کراچی پریس کلب جارہے تھے۔ ان کے ساتھ بزرگ خاتون استاد مہر افروز صاحبہ کو بھی حراست میں لیا گیا۔ ڈاکٹر ریاض احمد جمہوریت پسند استاد ہیں۔ پرویز مشرف کے عہدِ آمریت میں جمہوریت کی صدا لگانے کی پاداش میں گرفتار ہوئے۔ انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہمیشہ صف اول میں نظر آئے۔ ڈاکٹر صاحب جامعہ کراچی میں اپلائڈ کیمسٹری کے استاد ہیں۔ طلبا ان پر جان چھڑکتے ہیں۔ ٹیچرز سوسائٹی کے سربراہ ہیں۔ رفقا انہیں یہ منصب خود دیتے ہیں۔ ڈاکٹر حسن ظفر عارف ان کے رفیق کار ہیں۔ اسی نسبت سے وہ رویوں کی شکایت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا شکوہ کرنے پریس کلب جارہے تھے۔ سادہ لباس میں ملبوس افراد انہیں نامعلوم مقام پر لے گئے۔ کچھ اہلکار آتے ہیں، عمراورمرتبے کا لحاظ رکھے بغیر بزرگ استاد مہرافروز صاحبہ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں، آپ اپنی عمر دیکھیے اور کام دیکھیے، آپ آرام سے گھر کیوں نہیں بیٹھ جاتیں۔

مہرافروز صاحبہ تو رہا ہوجاتی ہیں مگر ڈاکٹر ریاض احمد پر ناجائز اسلحہ رکھنے کا الزام عائد کرکے پابند سلاسل کردیا جاتا ہے۔ ناجائز اسلحہ کیس میں گواہ کے طور پر رینجرز اہلکار پیش کیے جاتے ہیں۔ عدالت میں پیش ہوتے ہیں تو اسی رویے کا نشانہ بنتے ہیں جس کے خلاف ڈاکٹر حسن ظفر صاحب کے حوالے سے سراپا احتجاج تھے۔ طلبہ اوراساتذہ آخری پیشی پرعدالت کے احاطے میں جب اس امید کے ساتھ موجود تھے کہ ضمانت ہوجائے گی، فیصلہ محفوظ کرکے ڈاکٹر صاحب کو جیل بھجوا دیا گیا۔ سن گن یہ بتاتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو بھی جانوروں کے نام سے منسوب کسی پراسرار پیج کا ایڈمن ظاہرکرنے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن اس وقت اخلاقی طور پرہم حسنِ گمان کے پابند ہیں۔ انتظار کرنا چاہیے۔

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سزا دینا خواہش نہیں ہوتی، مجبوری ہوتی۔ ستم یہ ہے کہ ہم سزاؤں کی باقاعدہ خواہش رکھتے ہیں۔ ستم کے اس موسم میں درد کے ماروں کو اتنا بہت ہے کہ انہیں عدالت میں صفائی کا موقع دیا جارہا ہے۔ اس تحریر میں ہم ایک التجا کرنا چاہتے تھے، مگر اب التجا کرنے کو منہ نہیں پڑرہا۔ جہاں ماں جیسی مشفق استاد کی عمر مقام ومنصب کا لحاظ رکھے بغیر حقارت سے بھرے جملے کسے جارہے ہوں، اساتذہ کو دھوپ میں بٹھاکر تاخیر سے پہنچنے والے محترم جج صاحبان کا پا بہ زنجیرانتظار کروایا جارہا ہو، اساتذہ کو ملاقات کے لیے آنے والی بیٹیوں کے سامنے ذلت آمیز انداز میں بٹھایا جارہا ہو، دن دہاڑے آنکھوں میں دھول جھونک کر ان کے لیے تہمتیں ارزاں کی جارہی ہوں وہاں یہ التجا کرنے کو منہ کیسے پڑسکتا ہے کہ بہرِ خدا، آواز تو دھیمی کردیں، لہجہ تو نرم کرلیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).