جھوٹ کو آنچ نہیں


یادش بخیر، ماما جان کے ہاتھوں دوسری پٹائی تب ہوئی جب سکول جانا شروع کیے ایک آدھ ہفتہ ہی ہوا تھا۔ دل تو ہر صبح ہی چاہتا تھا، ایک دن جی کڑا کر کے کہہ ہی دیا، ’ماما جان آج میں سکول نہیں جاؤں گا، آج چھٹی ہے۔‘ میں نے تو اپنا فیصلہ سنایا تھا، گاؤں کی سادہ دل خاتون نے بات کا مطلب شاید ’عام تعطیل‘ لیا اور بخوشی اتفاق کر لیا۔ دوپہر کے کھانے سے ذرا پہلے میں مٹر گشت کر کے گھر لوٹا تو شایانِ شان ’استقبال‘ ہوا۔ سرگودھا کے پیر وحید نے تو ایسی کرامات کا آغاز آج کیا، میری ماما جان کا تو گزشتہ صدی سے ہی یہ وظیفہ رہا ہے، بانس یا بید کے مناسب جسامت والے ڈنڈے کی مدد سے ’گناہوں سے پاک کرنا‘۔ مارتی جا رہی تھیں اور زبان پر ایک ہی ’ورد‘ تھا، ’تم نے مجھ سے جھوٹ بولا…. !‘

یہ جھوٹ سے میرا پہلا رسمی تعارف تھا لیکن قربان جاؤں اس یار باش رفیق کے، کہ آج تک اس مار کا تاوان ادا کر رہا ہے۔ زندگی میں جب بھی کسی ایسی مشکل میں پھنسا جہاں سب احباب کنارا کر گئے، وہاں جھوٹ ہی آخری آسرا ثابت ہوا۔ یہ دروغ گوئی ہی کی برکتیں ہیں کہ میں نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر کے اقبال کا شاہین بننے میں پیہم مصروفِ عمل ہوں۔

پہلے پہل اس بات پر شدید استعجاب رہتا تھا کہ شاید میری تربیت زمانے کے اصولوں سے ذرا ہٹ کر کرنے کی کوشش کی گئی، اب یقین آ گیا تو حیرت جاتی رہی۔ گھر میں ماما جان نے، مدرسہ میں حافظ صاحب نے، اور سکول میں یکے بعد دیگرے اساتذہ کرام نے جھوٹ سے دور رہنے کی تلقین فرمائی لیکن آفرین ہے انسانی فطرت پر کہ جس کام سے روکا جائے اسی کی طرف رجحان بڑھتا ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ جھوٹ، بولنے میں سہل، تاثیر میں میٹھا اور نتائج کے اعتبار سے حوصلہ افزا ثابت ہوا۔ آج بھی زندگی کے سود و زیاں جمع تفریق کرتا ہوں تو دل میں اطمینان اتر آتا ہے کہ اپنے مربیوں کی ایسی مضر نصیحت پر عمل نہ کر کے بلا شبہ ایک بہتر فیصلہ کیا۔

فلسفے کا اصول یہ ہے کہ ایک نظریے کو قبول کرنے سے پہلے اس کے ضد نظریے کو بھی اسی کسوٹی پر پرکھا جائے، اگر کارگر ثابت نہ ہو تو یہ پہلے نظریے کے برحق ہونے کی دلیل ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ میں نے باغیانہ سوچ کے ساتھ جھوٹ کا انتخاب کیا، بلکہ نہایت دیانتداری کے ساتھ، سچ کو بھی اپنا آپ ثابت کرنے کا بھرپور موقع دیا۔

سکول میں ایک دن ہوم ورک کیے بغیر گیا۔ پوچھنے پر سچ بتا دیا کہ دل نہیں چاہ رہا تھا۔ آدھا گھنٹہ دھوپ میں مرغا بننے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ شیخ عبدالقادر جیلانی کا ڈاکووں کے سامنے سچ بولنے کا واقعہ مشکوک ہے یا پھر وہ قزاق، استادِ محترم سے ذرا بہتر جذبہ ایمانی رکھتے تھے۔ ایسے ہی ایک مرتبہ بغیر کسی معقول وجہ کے ناغہ کیا اورحسن ظن رکھتے ہوئے سچ کو ایک موقع مزید دیا لیکن نتائج تبدیل نہ ہوئے۔ مجبوراً سچ سے قطع تعلق کرنا پڑا۔ ’ہمدمِ دیرینہ‘ سے وابستگی بحال کی جس کے تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں میں بھی خوش گوار نتائج برآمد ہوئے۔

یونیورسٹی میں تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ’ہم نصابی معاملات‘ میں بھی دروغ گوئی اور لاف زنی پر توکل کیا تو دوسری ششماہی میں ہی روشنی کی ’کرن‘ میسر آگئی۔ کامیابی سے حوصلہ بلند ہوا۔ دلجمعی کے ساتھ سعی جاری رکھی تو آخری برس تک بادِ ’صبا‘، آسودگی ’فردوس‘، دنیا کی آرائشِ ’زیبا‘ اور اوصافِ ’جمیلہ‘ و’نفیسہ‘ سے بہرہ ور ہو چکا تھا۔ پروین شاکر کے درجات بلند ہوں، انہوں نے میرے لیے ہی تو کہا تھا۔

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاوں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

ڈگری مکمل ہوئی، ملازمت کے لیے جوتے چٹخانے پڑتے اگر ’تجربہ‘ ہاتھ نہ ہوتا۔ ملازمت کے لیے عرضی میں اپنی وہ صلاحیتیں بھی لکھیں جن کا کم از کم اس جنم میں تو پیدا ہونے کا کوئی امکان نہ تھا، جیسے وقت کی پابندی، جانفشانی، اور حسن اخلاق وغیرہ۔ انٹرویو میں بھی انہی خصوصیات کا منجن بیچا۔ نتیجہ پھر کامیابی۔

اب میں یہ بالکل نہیں کہوں گا کہ دفتر میں اعلیٰ افسران کے اوصافِ پوشیدہ ، جو صرف میری گہربار نظر ہی دیکھ پاتی ہے، کا برملا اظہار جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ اہل زبان نے اس نادر صلاحیت کے لیے کچھ اور اصطلاحات تجویز کر رکھی ہیں جو شائستگی کے پیش نظر حذف کر رہا ہوں۔ بہرحال میری دن دگنی اور رات چوگنی ترقی میں اس زبانی جانفشانی کا اہم کردار ہے۔

ازدواجی معاملات کا مجھے تجربہ نہیں لیکن بھری دنیا میں کوئی ایک مجاہد آدمی تو میری گواہی دے گا کہ جب بیگم صاحبہ (اپنی دانست میں) تیار ہو کے پوچھتی ہیں، ’میں کیسی لگ رہی ہوں؟‘ تو بیشتر مرد نہایت دیدہ دلیری سے سچ چھپا کر کامیاب ازدواجی زندگی یقینی بنا لیتے ہیں۔

قصہ مختصر، اوائل عمری سے آج تک مجھے دروغ گوئی نے مایوس نہیں کیا، اگر کبھی متوقع نتائج حاصل نہ ہوئے تو اس میں بھی قصور جھوٹ کا نہیں بلکہ باقی اعضا و جوارح کا ہے جو اس سے ہم آہنگی قائم نہ کر پائے، کبھی زبان لڑکھڑا گئی تو کبھی ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہو گئے اور کبھی رنگ فق ہو گیا۔ قابل اطمینان بات یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کمزوریوں پر بھی خاطر خواہ قابو پا لیا ہے۔ دِل چاہتا ہے کہ جھوٹ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے تمام کامیابیوں کو ایک چوکھٹے میں اکٹھا کر کے اوپر جلی حروف میں لکھوں، ’ھذا من فضل کذب‘۔

اب فیصلہ آپ کریں، میں جھوٹ کیوں نہ بولوں جب کہ اس کارِ جلیلہ میں معاشرہ اجتماعی طور پر میرا ہم نوا اور معاون ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).