یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں


ایک دفعہ پھر سفر درپیش ہے۔ دوستوں کا خیال ہے پانامہ کا فیصلہ میرے سفر پرر وانہ ہونے کے بعد ہی آسکتا ہے۔ سفر کے پہلے مرحلے میں ٹرنٹو (کینیڈا) جانا ہے جن لوگوں نے زادِ سفر کا ذمہ اٹھایا ہے وہ سب کتابوں کی دنیا کے باسی ہیں۔ میرا خیال تھا کہ میں راستے میں دبئی قیام کروں اور پھر براستہ لندن سے ہوتا ہوا ٹرنٹو جا اتروں مگر میرے ہم سفر ہم ذات کا خیال ہے کہ دبئی کی رونق تو پاکستان آچکی ہے۔ سندھ کی کابینہ سابق صدر آصف علی زرداری اورمستقبل کے اپوزیشن لیڈر بلاول زرداری بھٹو کی وجہ سے ویسے ہی مصروف ہے۔

دوسرے لندن میں بھی ویرانہ سا ویرانہ ہے۔ صرف الطاف بھائی چند جانثاروں کے ساتھ بانسری بجاتے نظر آتے ہیں مگر ان کے یہاں بھی سر مل نہیں رہا۔ آج کل وہ بھی برطانیہ کی مدد سے قاصر نظر آرہے ہیں ان کو شک ہے کہ برطانیہ والے اندر ہی اندر کپتان سے مشورے کرتے رہے ہیں اور اس وجہ سے کپتان ایم کیو ایم لندن کو نظرانداز کررہا ہے۔ پھر یہ بھی سوچا کہ امریکہ کے راستے جایا جائے تو معلوم ہوا ٹرمپ زیادہ ہی مصروف ہے۔ ٹرمپ ٹاور میں ان کے ہمسائے ہمارے سابق صدر آصف علی زرداری سابق سفیر حقانی کی وجہ سے کھیل کے قاعدے بدلنے میں مصروف ہیں۔ ایسے میں ہماری یاترا بے مقصد ہوسکتی ہے یہاں حسین حقانی سے کچھ توقع کی جاسکتی ہے مگر ان کو ٹرمپ نے مصروف کررکھا ہے۔ اوپر سے ہمارے نئے سفیر اعزاز چودھری امریکی انتظامیہ سے اپنے معاملات طے نہیں کرسکے۔ فیصلہ یہی ہوا کہ ادھر سے بیٹھ کر سیدھے ٹرنٹو جا اتریں گے۔ سو فیصلہ یہ ہوا کہ قومی ایئر لائن پر سفر ہوگا اور ہوا۔ لاہور میں مہربانوں کی وجہ سے اچھا سلوک رہا۔ اگرچہ پی آئی اے کے عملہ کے منہ پر مسکراہٹ کا مکمل فقدان تھا۔ جہاز بھی خالی خالی سا تھا۔ فرسٹ کلاس میں دس مسافر بک تھے مگر موج کرنے والے دس سے زیادہ تھے۔ عملہ سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ خاص لوگ ہیں کیپٹن صاحب حسب سابق دوستوں کو نواز رہے تھے۔ پھرہمارا سارا ملک ہی اشرافیہ کا ہے۔ جس کا زور ہے وہ موج میلہ میں مصروف ہے۔ لاہور سے جہاز آدھے گھنٹے کی تاخیر سے روانہ ہوا اور وجہ ایئر ٹریفک کنٹرول کی مصروفیت بتائی گئی اور عملہ ایسا کہ ڈر آجائے بقول ہمارے کالمی اور قلمی مہربان قاسمی صاحب آج کل تو ان سے اچھی سینئر استانیاں ہوتی ہیں۔ ویسے عملہ بھی کچھ زیادہ ہی سینئرلگا۔

کپتان کے اعلان کے مطابق لاہور سے ٹرنٹو تک کی اڑان تقریباً تیرہ گھنٹے اور تیس منٹ کی تھی مگر لاہور سے ٹرنٹو تک کی اڑان چودہ گھنٹے سے زیادہ کی تھی جس وقت جہاز روانہ ہوا تو ظہر کی نماز کا وقت ہونے کو تھا۔ پہلے دو گھنٹے تو عملہ اپنی گپ شپ میں لگا رہا۔ پھر اخباروں کی تقسیم کا خیال آیا۔ ایسے میں کئی لوگ ناشتے کے انتظار میں ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کررہے تھے۔ بچوں کی بھی معقول تعداد ہمسفر تھی۔ لوگوں کی چہل پہل سے بالکل گھر کا سا ماحول تھا۔ سیٹوں کی حالت ایئر لائن کی طرح ناگفتہ اور جہاز کا انٹرنیٹ سسٹم بھی خراب تھا۔ عملہ کا اصرار تھا کہ بس ابھی ٹھیک ہوجائے گا۔ بالکل ہماری سیاسی سرکار کی طرح وعدہ پرٹرخاتے رہے۔

کچھ دیر کے بعد کھانے کی سروس شروع ہوئی۔ کھانا حسب سابق دیسی پکوانوں پرمشتمل تھا۔ جو کئی دفعہ گرم ہونے کے بعد بدذائقہ ہوچکا تھا۔ میرے ساتھ بیٹھے بزرگ نے جب عملہ سے شکایت کی تو عملہ کا جواب خوب تھا۔ باباجی پہلے یہ کھانا لاہور کے پنج ستارہ بڑے ہوٹل سے آتا تھا مگر اب پنجاب سرکار کے کسی مہربان کے ہوٹل سے آتا ہے۔ ہمارا کچن توکچھ عرصہ ہوا بند ہوچکا ہے اور عملہ بھی اپنا کھانا خود ہی لاتا ہے۔ بزرگ ان کے بھاشن سے پریشان سے تھے، انہوں نے کھانا تو نہیں کھایا بس چائے کے کپ پرگزارہ کیا۔ اتنے میں ایک اور صاحب بھی ہمارے ساتھ والی خالی نشست پر آگئے۔ ان کو بھی شکایت تھی۔ پھر باتوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بزرگ تو سینئر سٹیزن تھے۔ عرصہ پچاس سال سے کینیڈا میں قیام پذیر ہیں اور خاصے مطمئن ہیں مگرپاکستان کے حالات سے مایوس۔ میں نے پوچھا آپ مایوس کیوں ہیں کہنے لگے اب تو پاکستان میں سب کچھ ہی بدل سا گیا ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے۔ میں اپنی زمینوں کے لیے آیا تھا۔ پنجاب حکومت نے زمین کی فرد اور دیگر معاملات کے لیے کمپیوٹر سنٹر بنائے ہیں۔ میں تقریباً 50 دن کے بعد واپس جارہا ہوں۔ مجھے اپنی زمین کی فرد ملکیت لینی تھی۔ پٹواری کی خدمت کی اور کمپیوٹر سنٹر میں جمع بندی مکمل کروائی مگر فرد حاصل نہ کرسکا۔ عملہ ناتجربہ کار اور ان کے آفیسر حضرات دفتر آتے ہی نہیں۔ ہم تارکین وطن کے لیے خادم اعلیٰ کی انقلابی تبدیلیاں باعث مشکل ہیں اور کوئی ان پرچیک نہیں ہے۔

ان بزرگ کا نام ا للہ بخش تھا۔ ان کا پورا خاندان اب تارکین وطن تھا۔ وہ ٹرنٹو کے نزدیک ایک آبادی مسی ساگا میں رہتے ہیں۔ میں نے پوچھا آج کل کیا مصروفیت ہے۔ کہنے لگے میں اب بھی رضاکار کے طور پر ایک مقامی سکول میں کام کرتا ہوں۔ کینیڈا کی سرکار مجھے پنشن دیتی ہے اور خیال بھی رکھتی ہے۔ میں سکول کے عملہ کے سامان کا انتظام کرتا ہوں اور تقریباً روزانہ پانچ گھنٹے کام کرتا ہوں۔ میں سکول کے کتب خانہ میں بھی دو دن کام کرتا ہوں۔ اب تو وہاں بھی خاصی اردو اور پنجابی کی کتب دستیاب ہیں۔ میرے گھر کے نزدیک ایک کلچر سنٹر اور ان ڈور کھیلوں کا انتظام بھی ہے۔ گرمیوں میں اب تو کرکٹ بھی نظر آتی ہے۔ میں نے پوچھا آپ کو اپنے وزیراعظم کا معلوم ہے وہ مسکرائے اور اپنا سمارٹ فون نکالا اور مجھے اپنی تصویروں میں سے ایک تصویر دکھائی۔ یہ نوجوان ہمارا وزیراعظم ہے اور اس کی تصویر میرے ساتھ ہے۔ میں نے حیرانگی سے پوچھا آپ سے اس کا کیا تعلق۔ وہ فوراً بولے بڑا تعلق ہے۔ میں نے اس کی پارٹی کو ووٹ دیا ہے۔ وہ شکریہ ادا کرنے ہماری مسجد میں آیا تھا۔ میرے کہنے پر اس نے میرے ساتھ فوٹو بنوا ئی۔ وہ عام سا انسان ہے۔ تمہارے وزیراعظم کی طرح کا نہیں وہ ایک مکمل شریف آدمی ہے۔

میں نے میاں نوازشریف کو ایک شکایت کا خط لکھا تھا۔ کوئی جواب نہیں ملا۔ کینیڈا میں جمہوریت نظر آتی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کا ڈھول پیٹا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے پاکستان میں جمہوریت کرپشن کوفروغ دے رہی ہے اور عام آدمی کے لیے کوئی آسانی نہیں۔ الزام عدالتوں پر لگایا جاتا ہے کہ وہ انصاف نہیں کرتیں۔ مگر حکومت کے ادارے اپنا کردارہی ادا نہیں کرتے۔ خود ہی ثبوتوں کو نظرانداز کرکے عدالت سے فیصلہ کرواتے ہیں۔ اب امید ہے پانامہ کے فیصلہ کے بعد حالات بدلنے کا موقع مل جائے۔ ان کی باتوں میں امید تو ضرور تھی مگر امنگ نہیں تھی۔ ہماری گفتگو بہت دیر تک جاری رہی۔

ہمارا دوسرا مسافر جوکینیڈا کی سرحد کے نزدیک ایک امریکی شہر روچسڑ میں رہتاتھا۔بڑے حیران کن انکشافات کررہا تھا۔ اس کی پاکستان کی معیشت اور سیاست پر گہری نظر تھی۔ اس کا خیال تھا کہ ہمارے سیاسی لیڈر دوسروں کے لیے کام کررہے ہیں۔ اس کے مطابق میاں نوازشریف کو سعودی حکومت کی حمایت حاصل ہے اور ان کے اور پیپلزپارٹی کے پردھان آصف علی زرداری کے درمیان معاہدہ امریکہ، برطانیہ نے کروا رکھا ہے۔ اس معاہدہ کو سابق جنرل کیانی نے تحریر کیا تھا اور یہ پندرہ سال کے لیے ہے۔ اس وجہ سے ہی باری باری کا کھیل جاری ہے اور دونوں فریق عوام سے زیادہ اپنے مفادات کے لیے کام کرتے نظرآتے ہیں۔ ان دونوں فریقوں کی وجہ سے عمران خان کو نظرانداز کیا جاتا رہا ہے اور انتخابات شفاف نہ ہوسکے۔ اس کا کہنا تھا جنرل کیانی عمران سے خائف تھے۔ انہوں نے جو معاہدہ کروایا تھا اس کی وجہ سے ان کی ملازمت کو طوالت ملی۔ جنرل مشرف کو ان کے کردار کا اندازہ ہوگیا تھا مگروہ بھی اس معاہدہ میں ایک فریق ہیں اورمعاہدہ کے مطابق ان کے خلاف کارروائی کرنا ممکن نہیں اور اس وجہ سے ہی جنرل مشرف کے تمام ساتھی میاں نوازشریف کے حلیف بن چکے ہیں۔

اس قسم کی باتیں ہمارے ہاں بھی ہوتی رہی ہیں۔ مگر اب اندازہ ہوتا ہے کہ برطانیہ کا ہماری سیاست پرکتنا اثر ہے۔ اس کی ہدایت پر افغانستان کی سرحد کھول دی گئی۔ اب جنرل باجوہ برطانیہ کا دورہ کرنے جارہے ہیں۔ ان کو بھی معاہدہ سے آگاہ کیا جائے گا۔ جس کے بعد ہماری سیاست کا کھیل کسی اور معاہدہ کے مطابق ہوگا۔ اب عمران خان کو اہمیت مل رہی ہے اور ضروری بھی ہے۔ ابھی گفتگو جاری تھی کہ اعلان ہوا کہ کچھ وقت کے بعد جہاز ٹرنٹو کے ا یئرپورٹ پر اتر جائے گا اور بہت ساری باتوں کی گنجائش تھی۔ مگر وہ پھر کسی وقت پر۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پانامہ کے فیصلہ کے بعد جمہوریت پسند سرکار اپنا کونسا کردار ادا کرتی ہے۔ انتخابات اور باری باری کا معاہدہ تجدید مانگتا ہے۔ اس دفعہ اس معاہدہ میں کون سے نئے فریق شامل ہوں گے۔ جمہوریت بہترین انتقام کا پہلا ایکٹ مکمل ہوچکا ہے۔ دوسرے کے لیے کرداروں کا انتخاب جاری ہے۔ انشا جی نے خوب لکھا تھا’یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).