مہربان راتوں کی دوستیاں


کابل سے ہم بھاگ آئے تھے۔ دیر ہو گئی تھی طورخم تک پہنچنے میں ناکام رہے تھے۔ جلال آباد میں اب ہوٹل کی چھت تھی جس پر لیٹے تاروں کو تکے جا رہے تھے ہم دونوں دوست۔ ہمارا احمقانہ مشن اختتام کے قریب تھا۔ گھر سے بھاگ کے کابل گئے تھے۔ اب وہاں سے بھاگے تھے کہ اب گھر جانا تھا۔ رات وہ بھی اپنے وطن سی ہی گہری تھی تارے وہاں بھی ایسے ہی چمکتے تھے۔

ہم کتنی بار پکڑے گئے تھے پھر کوئی نہ کوئی فرشتہ صورت انسان ہمیں کسی افغان کی صورت میں ملتا۔ ہمیں بچا لیتا ہمیں دوبارہ گھر کی جانب روانہ کر دیتا۔ بس یہ جانا کہ افغان جنگ کا مارا ہوا ہو تو بھی وہ اول آخر انسان ہی ہوتا ہے۔

پنڈ تھا، آدھی رات تھی، کرتوتی نہر کا کنارہ تھا۔ ٹیوب ویل چل رہا تھا۔ ایک گڈریا اپنے ریوڑ کے ساتھ کہیں جا رہا تھا۔ جو وسی بابے کو اکیلا بیٹھا دیکھ کر پاس آ گیا۔ اپنی بکریوں کو کدھر سیر کرا رہے ہو آدھی رات کو۔ سائیں یہ میرے ساتھی ہیں انہیں مہربان رات کے نظارے کرا رہا ہوں۔ دن سخت ہوتا ہے رات نرم ہوتی مہربان ہوتی ہے اور دوست بھی۔

یہ کوئی سبق ہی دیا ہو گا اس گڈریے بھائی نے۔ پر کیا رات واقعی مہربان ہی ہوتی ہے۔ ہم کتنی بار تو راتوں کو ہی پکڑے گئے تھے۔ راتوں کو سفر کرتے تھے۔ پولیس ناکوں پر پکڑ لیا کرتی تھی۔ کیس تب پکا ہو جاتا تھا جب شناختی کارڈ پشاور کا نکلتا۔ مزید پکا ایک بار یوں بھی ہو گیا کہ پنجابی بولتے ہو پشاور کا کارڈ کس دونمبری سے بنایا۔ ہم سب کو ہی تاڑ دیا تھا۔ مشر نے کہا نور کوا پنجاپی کے خبرے یعنی اور کر پنجابی میں باتیں۔

سندھ کی گوٹھ تھی جہاں ہم ساری رات چھت پر بیٹھے گپیں مارتے رہے۔ چور نے نقب لگا کر اسی چھت کے نیچے اپنی محنت برباد کی تھی۔ کمرے میں اسے کچھ بھی نہ ملا تھا سوائے قران کے۔ وہ بھی سچا فنکار تھا قدرت کی اس ستم ظریفی پر قران کے اوپر دس روپئے ہدیہ رکھ گیا تھا۔

صوابی تھا شیر دریا تھا ہم دوست تھے۔ جو دریا کے اندر ایک چھوٹے سے جزیرے پر رات گزارنے پہنچے ہوئے تھے۔ آدھی رات کو دریا کو بہتا دیکھنے گئے تھے۔ پھر جانوروں کے ڈر سے بھاگنا پڑا تھا۔ سب سے آگے بھاگنے والا ہمارا بندوق بردار مشر تھا۔ شکر ہے اس دوڑ کی وجہ اور اس کا نتیجہ آج تک کسی کو نہیں معلوم ورنہ آپ لوگ ہم سب پر اور ہنستے۔

آدھی رات تھی جب ہم وانا سے نکلے۔ ہم تین دوست تھے، سیفی ہمارا شاہ جی اور وسی بابا۔ وزیرستان شدت پسندی کی نزر ہو چکا تھا۔ راستے میں گاڑی کا پیٹرول ختم ہو گیا۔ مزید دیر ہوئی تو اپنا ڈر مٹانے کو پنجابی بھنگڑے لگا لیے۔ گانے سنتے طالبان نے پکڑ لیا۔ شاہ جی نے گھبرا کر ٹیپ بند کرنے کی کوشش کی تو آواز تیز کر دی تھی۔

یہ کارنامہ کر کے شاہ جی نے مریل آواز میں کہا کہ ٹیپ خراب دے نہ بندی گی ٹیپ خراب ہے بند نہیں ہوتی۔ یہ سن کر وسی بابے نے حق بیان کر دیا تھا کہ شاہ جی نے سوٹا لگا رکھا ٹیپ ٹھیک ہے۔ طالبان ہماری حماقتوں کو مذاق سمجھ کر سنجیدہ ہو گئے تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ ہمارے ساتھ کوئی عمل کرتے پچھلی سیٹ پر سویا ہوا سیفی اٹھ گیا، ہم بچ گئے۔

پکے سوٹے سے وہ عملی یاد آ گیا جو دفتر کے نیچے رہتا تھا۔ رات گئے جب دفتر سے گھر کے لیے نکلتا۔ جیب میں اکثر بس کرایہ ہی ہوتا تھا۔ یہ کرایہ بھی معاہدے کے تحت عملی کی نذر کرنا پڑتا تھا۔ عملی کےساتھ معاہدہ تھا کہ جس دن اس کو سوٹے کے پیسے نہیں ملیں گے وہ ہم سے لے گا۔ کئی راتیں اس معاہدے کی وجہ سے پشاور کی سڑکیں ناپتے گزاریں۔ پر اپنے شہر سے دل کا تعلق بھی تب ہی ٹھیک سے بنا جب اس کی سڑکوں پر راتوں کو مارے مارے پھرے۔ عملی پیسے ملنے پر بڑے دل سے ناچتا۔ ہم پیدل مارچ کرتے میلوں دور گھر کو جاتے۔

راتوں کو جو سفر کیا اس میں جہاں دل کیا وہاں بسر کیا۔ جب دل کیا چل پڑے۔ کبھی اکیلے تھے تو رات نے کوئی مہربان لا ملایا۔ کبھی دوستوں کا ساتھ میسر تھا تو مشکلیں تکلیفیں امتحان لینے آ گئیں۔ کبھی تو مذاق ہی اڑانے آئیں۔

رات کبھی لمبی بھی ہوتی تو ڈھل ہی جاتی تھی۔ دن نکل ہی آتا تھا۔ بہت سے سبق نہ ملتے اگر راتیں مہربان نہ ہوتیں۔ بہت سے تعلق عام ہی رہتے دوست نہ بنتے۔ اگر یہ مہربان راتیں کچھ سکھانے کو ملنے نہ آتیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi