مولانا حیدری کی ’حلوہ سازش‘ سے پولیو ویکسین سازش تک


2009 کی بات ہے ایک کام کی سلسلے میں ڈیڑھ دو مہینہ تک روزانہ صبح نو بجے سے شام چار بجے تک سینیٹ کی لئبریری میں بیٹھ کر پارلیمانی تقریروں پر مشتمل ضخیم کتابوں کی ورق گردانی کرتا رہتا تھا۔ ایک دن میں حسب معمول ٹیبل پر دھری ہوئی کتابوں کی ڈھیر میں اپنے کام میں مشغول تھا کہ سامنے سے لائبریری کے انچارج ہتھر صاحب میرے جانب آتے ہوئے دکھائی دیے۔ فوری خیال یہ آیا کہ شاید کتابوں کو ان کی والیم کے مطابق ترتیب کے ساتھ رکھنے میں مجھ سے کوئی کوتاہی ہوئی ہوگی یا پھر فوٹو کاپی کے لیے انہیں لائبریری ہال سے باہر لے جانے پر ہتھرصاحب کو اعتراض ہوگا۔ مگر ہتھر صاحب آتے ہی پوچھنے لگے کہ شیرانی صاحب کو کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا مجھ تو کوئی پتہ نہیں، کیا کوئی واقعہ پیش آیا ہے؟ ہتھر صاحب نے کہا کہ تفصیل کا مجھے بھی علم نہیں لیکن ٹی وی پر بریکنگ نیوز چل رہی ہے کہ مولانا شیرانی سمیت کئی مذہبی رہنماؤں کو کھانے میں زہر دیا گیا ہے۔ چونکہ لائبریری میں مستقل آنے جانے کی اجازت لینے کے لیے مجھے سینیٹر کی حیثیت سے شیرانی صاحب نے ہی لے جاکر ہتھر صاحب سے اجازت دلوائی تھی اور میری رہایش بھی پارلیمنٹ لاجز میں مولانا صاحب کے ہاں ہی تھی اس لیے اس خبر کی تفصیل معلوم کرنے کے لیے ہتھر صاحب نے مجھے ہی مناسب سمجھا تھا اسی دوران دوسرے دوستوں کے ٹیکسٹ میسجز اور فون کالز آنا بھی شروع ہوگیے جو یا تو مجھ سے پتہ کرنا چاہتے تھے یا پھر واقعے کی اطلاع دے رہے تھے۔

میں نے مولانا شیرانی صاحب کے ساتھ موجود ڈرائیور کو کال کی لیکن انہوں نے اٹینڈ نہیں کی جس کے بعد صورتحال کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوے میں نے بھی کتابیں اٹھا کر متعلقہ خانوں میں رکھ دیں اور ملک کے چوٹی کے مذہبی رہنماؤں کو ایک ہی وقت میں اجتماعی طور پر صفحہ ہستی سے مٹانے کی یہود و ہنود کی ’گھناؤنی سازش‘ کے بارے میں سوچتا ہوا لاجز کے طرف روانہ ہو گیا۔ ویسے جانا تو پمز ہسپتال چاہیے تھا لیکن میرے پاس نہ کوئی ذاتی سواری تھی اور نہ ہی اسلام آباد کے ریڈ زون میں کرائے کی کوئی ٹیکسی یا رکشہ مل سکتا تھا۔ لاجز پہنچ کر میں نے سب سے پہلے شیرانی صاحب کا پتہ کیا تو ان کے بھتیجوں نے بتایا کہ بابا کے ساتھ ہمارا رابطہ ہوا ہے، وہ خود تو خیریت سے ہیں اور بے ہوش ہونے والے دوسرے رہنماؤں کے ساتھ پمز چلے گئے ہیں اور واقعے کی کیفیت یہ بتائی کہ مولانا حیدری کے رہائش گاہ پر جاری اجلاس کے دوران حلوے میں زہر دیا گیا ہے۔ اس دوران ٹی وی سکرین پر پٹی چلنے لگی کہ لیاقت بلوچ اور مفتی منیب الرحمن کو انتہائی نگہداشت کے وارڈ منتقل کردیا گیا ہے۔ کچھ ہی دیر میں قاتل حلوے کی الزام سے اپنی قیادت کو بری الذمہ کرنے کے لیے پیش بندی اور حفظ ماتقدم کے طور پر جے یوآئی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر ہاؤسنگ و تعمیرات رحمت اللہ کا کڑ صحافیوں کو بتا رہے تھے کہ حلوہ کوئی نامعلوم شخص حیدری صاحب کے سفر حج سے واپسی پر ان کے پاس تحفے میں لایا تھا۔

دو تین گھنٹے بعد جب شیرانی صاحب ہسپتال سے واپس آ گئے تو معلوم ہوا کہ حیرت انگیز طور پر اجلاس میں موجود جے یو آئی کے رہنماؤں مولانا شیرانی، سینیٹر صالح شاہ اور یہاں تک کہ خود میزبان مولانا حیدری نے بھی حلوے کو چکھا تک نہیں، جب شیرانی صاحب سے پوچھا گیا کہ حضرت! گاجر کا حلوہ تو آپ بہت شوق سے کھاتے ہیں تو آج اس حلوہ کو آپ نے کیوں ہاتھ نہیں لگایا تو فرمانے لگے کہ مجھے تو اس کی شکل ہی حلوہ کی نہیں لگی۔

علم جرائم کے قرائن کے لحاظ سے اب یہ کیس مسلمانوں کے خلاف یہود وہنود کی سکیم کے بجائے مودودیوں اور بریلویوں کے خلاف دیوبندیوں کی سوچی سمجھی سازش نظر آنے لگی۔ اسی اثنا میں ظرافت اور خوش طبعی میں کافی شہرت رکھنے والے جے یو آئی کے سینیٹر ڈاکٹر اسماعیل بلیدی بھی شیرانی صاحب کے ہاں پہنچ گئے، مگر کسی پریشانی اور فکرمندی کے بجاے وہ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوکر مذاق اڑا رہے تھے کہ حلوے تو وہ ساری زندگی کھاتے رہے ہیں مگر یہ پتہ اب چلا ہوگا کہ دیوبندیوں کا حلوہ کیا ہوتا ہے۔ اس دن رات گئے تک ” حلوہ سازش کیس“ ٹی وی چینلز کے لیے ہاٹ موضوع رہا اور اس دوران یہ خبر بھی دی گئی کہ مذکورہ حلوے کا نمونہ لے کر محکمہ صحت کے پاس بھجوا دیا گیا ہے جو لیبارٹری ٹیسٹ کے بعد رپورٹ جاری کرے گی۔ یہ رپورٹ اس کے بعد اگر کبھی شائع ہوئی بھی ہو تو میری نظر سے تو نہیں گذری البتہ کچھ دن بعد نجی طور پر یہ معلوم ہوا کہ مذکورہ حلوہ، حلوہ تھا ہی نہیں بلکہ مولانا حیدری صاحب کے علاقے قلات میں مقامی طور پر تیار ہونے والا ایک خاص قسم کا معجون تھا جس میں کچھ نشہ آور چیزیں بھی ملا دی جاتی ہے اور اسے حیدری صاحب کے متعلقین ہی میں سے کسی نے اپنے لیے منگوایا تھا۔

بنیادی طور پر یہ معجون نشے کے لیے نہیں بلکہ حکیموں کی جانب سے گھوڑے کی تصویر کے ساتھ لکھے ہوے الفاظ ’مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا‘ کی عملی تصدیق کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ عام طور پر ایسی چیزیں بہت کم مقدار میں تیار اور استعمال کی جاتی ہیں لیکن منگوانے یا بجھوانے والے نے سوچا ہوگا کہ روز روز کی جھنجھلاہٹ سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ ایک ہی مرتبہ سال بھر کا انتظام کردیا جائے، چیز اچھی ہو تو زیادہ بھی ہونی چاہیے مگر اس بڑھی ہوئی مقدار ہی کی وجہ سے خانساماں فریج میں رکھی ہوئی دوائی کو حلوہ سمجھ کر مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے پیش کر بیٹھے۔

یہ واقعہ اب چھ سات سال بعد اس وجہ سے یاد آگیا کہ گزشتہ جمعے کو ایک مولانا صاحب کا وعظ سنا جس میں وہ پولیو ویکسین سے متعلق ایک بالکل نیا انکشاف فرما رہے تھے۔ خاکسار کو جب جمعہ کی نماز پڑھنے کی توفیق میسر ہو تو کوشش یہ ہوتی ہے کہ عین خطبہ جمعہ کے دوران مسجد پہنچ جاؤں۔ اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے عموما وعظ سننے کا موقع نہیں ملتا مگر ہمارے ہاں خطیب حضرات نے شش جہات کی طرف متوجہ لاوڈ اسپیکرز لگا کر یہ انتظام کر رکھا ہوتا ہے کہ زمین اور فضا میں کوئی بھی ذی روح ان کی وعظ سننے سے محروم ( یا محفوظ؟ ) نہ رہ جائے۔

ایسے ہی ایک وعظ میں خطیب صاحب فرمارہے تھے کہ پولیو ویکسین میں کچھ ایسا مواد موجود ہوتا ہے جس کی وجہ سے بچوں میں قبل از وقت جنسی ہیجان پیدا ہوتا ہے اور یوں معاشرہ بے راہ روی اور بے حیائی کا شکار ہوجاتا ہے۔ خطیب صاحب کی یہ انکشاف سن کر مجھے ایک تو حلوے والی بھولی بسری کہانی یاد آگئی اور دوسری بات یہ ذہن میں گھومنے لگی کہ اگر واقعی خطیب صاحب کی پولیو ویکسین کی قبل از وقت جنسی جذبات بھڑکانے والی بات درست ہو تو یہ صلاحیت تو ان قطروں میں بدرجہ اتم موجود ہوگی کہ ” بعد از وقت ” مری ہوئی صلاحیت کو بھی بیدار کرسکے تو پھر تو بچوں کو قطرے پلانے کے ساتھ ساتھ بوڑھوں کو اس کے گھونٹ بھی پلانے چاہیے تاکہ پوارا معاشرہ ہی جنسی ہیجان میں بدمست ہو جائے۔

غم روزگار سے آزاد ہمارے عرب بھائیوں کی تو تخصص کا میدان ہی یہی سرگرمی ہے اور اسی شغل کی کم و کیف میں بہتری کے لیے نت نئی ترکیبیں اور عجیب وغریب چیزیں استعمال کرنے میں ان کا تو کوئی ثانی نہیں ہے، انہیں اگر پولیو ویکسین کی اس خصوصیت کا پتہ چلا تو قطرے اور گھونٹ کو چھوڑ کر وہ تو جام پر جام لنڈھاتے چلے جائیں گے، مگر اس سے ویکسین کی قیمت بھی زمین سے آسمان پر پہنچ جائے گی تو ان بچوں کا کیا بنے گا جنہیں مفت کے ان چند قطروں نے ہی اپاہج بننے سے روک رکھا ہے۔ مگر پھر یہ سوچا کہ چلیے یہ عارضی زندگی اپاہج اور مفلوج جسم کے ساتھ ہی سہی، گذر تو جاے گی مگر بے راہ روی اور بے حیائی سے محفوظ رہنا بھی ایک مسلمان کے لیے بڑی نعمت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).