رئیس وڈے کو اے ڈی خواجہ ناپسند ہے۔۔۔


بات اس حد تک تو درست ہے کہ صوبائی حکومت کے انتظامی و پالیسی معاملات میں کسی قسم کی دخل اندازی و مداخلت نہیں ہونی چاہیے، صوبے میں انتظامی و حکومتی معاملات چلانے کا آئینی منتخب نمائندوں پر مشتمل حکومت ہی کو ہے۔ آئی جی کس کو لگانا ہے، چیف سیکریٹری کون ہونا چاہئے، انتظامی مشینری کیسی ہو، صوبائی سطح تک یہ تمام فیصلے متعلقہ صوبائی حکومت کو کرنے ہوتے ہیں، نہ کہ وفاق کو نہ ہی عدالتوں کو اور نہ ہی ملک کی اسٹیبلشمنٹ کو۔

لیکن صوبے کے دھنی اگر انتظامی مشینری پر اپنے منشی بٹھا دیں، ان کو ذاتی ملازم سمجھ کر ان سے حساب کتاب لینے بیٹھ جائیں، ہر اہل، ایماندار اور فرض شناس افسر کو تڑی پار کرتے رہیں، ہر اس افسر کو ناقابل قبول سمجھیں جوان کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتا ہو، ہر سیٹ پر اپنی چہیتے یا اپنے چہیتوں کے چہیتے لگاتے رہیں، ہر افسر کی تقرری کے پیچھے سیاسی اور اس سے زیادہ مالی فوائد دیکھنے لگ جائیں، سرکاری محکموں میں اپنے آر او لیٹر کو صحیفے کا درجہ دینے کے احکمات جاری کیے جائیں، ہر سرکاری افسر کو ذاتی ملازم سمجھ کر ایسا ہی برتاؤ کیا جائے، سندھ سیکریٹریٹ کو اپنی بیٹھک سمجھ کر حکم چلایا جانے لگے تو اس صوبے کا کیا حال ہو گا۔ بلکہ وہی حال ہوگا جو سندھ کا ہے۔ یہ سب کچھ آخرکار کب تک چلتا رہے گا، اس لیے تو کہتے ہیں کہ’’کوئی دیکھے نا دیکھے، شبیر تو دیکھ رہا ہے‘‘۔ سندھ میں کئی برس سے یہ ہی کچھ چل رہا ہے، سچ کہتے ہیں کہ حکمرانی کے دوران حکمرانوں کی آنکھوں پر سیاہ پٹی بندھ جاتی ہے، اسے سب اچھا لگ رہا ہوتا ہے۔ جس طرح میں حکمرانوں کے لئے سندھ میں سب کچھ اچھا ہو رہا ہے۔

سندھ حکومت آج کل پوری قوت آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ کراچی سے نوابشاہ تک اختیارات کے دونوں مراکز کی یہ ہی کوشش ہے کہ بشیر میمن کی طرح اے ڈی خواجہ کو بھی صوبہ بدر کردیا جائے۔

بشیر میمن بھی خواجہ کی طرح اچھی ساکھ رکھنے والا، فرض شناس اور ایماندار افسر جانا جاتا ہے۔ لیکن نوابشاہ کی سرحد ہالا میں اس کی آبائی زمینیں اس کی دشمن بن گئی، رئیس وڈے کو زمین کا وہ ٹکڑا بھا گیا، بشیر میمن نے لاکھوں کوشش اور دباؤ کے باوجود وہ زمین نہیں بیچی، سندھ میں اچھی زمین، شوگر ملز، گھر، کارخانہ دیکھو، وہ خرید لو۔ اب یہ سوچ اب اوپر سے نیچے تک منتقل ہوگئی ہے، اور اس شر سے اب کوئی محفوظ نہیں رہا۔

بشیر میمن نے مزاحمت کی، زمین بلینک چیک کے عوض بھی نہیں بیچی جس کا نتیجہ ان کی سندھ بدری کی صورت میں نکلا۔ لیکن وفاق کے دہرے معیار کا عالم یہ کہ ایک اچھے افسر کو کسی اچھی پوسٹ پر رکھنے کی بجائے اٹھا کر آزاد کشمیر بھیج دیا گیا ہے۔

پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے آج کے سب سے بڑے دشمن بھٹو یا بینظیر کے قاتل اور قاتلوں کے سہولت کار نہیں، اے ڈی خواجہ ہیں، وفاقی حکومت اے ڈی خواجہ کو آگے کر کے پیپلز پارٹی کو نیچا دکھانے کے چکر میں ہے، یہ بات تو اس پولیس افسر کی سمجھ میں بھی آ چکی ہوگی کہ دونوں سیاسی ۔ جماعتوں میں کبھی بھی ٹھن سکتی ہے پھر آپ کا کیا ہوگا، وفاق ہی نہیں عدالت عالیہ خود بھی آئی جی کا تبادلہ نہیں چاہتی، اور کراچی آپریشن کے اچھے نتائج ملنے کی وجہ سے خواجہ صاحب آپریشن کرنے والوں کے بھی گڈ بُکس میں ہیں۔

سندھ میں معاملات اتنے گمبھیر، پیچدار، مبھم اور الجھے ہوئے نہیں ہیں۔ سندھ بھوتاروں، وڈیروں، سرداروں، میروں اور پیروں کے چنگل میں جکڑا ہوا زمین کا ایسا ٹکڑا ہے جہاں چاروں اطراف میں ’’ سندھی جہاں خان‘‘ بیٹھے ہوئے ہیں۔ سندھ کے نوے فیصد جاگیرداوں، سردارں اور بھوتاروں کی چھتر چھایا پیپلز پارٹی ہے۔

پیپلز پارٹی رات کو دن کہہ دے، شام کو صبح کہہ دے، سندھ کو الٹا کرے، سیدھا کرے، اس کی مرضی ہے، پیپلز پارٹی کے لیے سندھ جاگیر ہے، جب تک بھٹو زندہ ہے کا نعرہ لگتا رہے گا یہ جاگیر کہیں اور نہیں جانی۔

 اب تو عالم یہ ہے کہ بچے کھچے سیاستدان، تھوڑی بہت مخالفت کرنے والے اور نام نہاد ہی سھی لیکن اختلاف رائے رکھنے والی تمام جماعتوں کے وڈیروں کا رخ بھی پیپلز پارٹی کی طرف ہے۔

 پیپلز پارٹی نے ان وڈیروں کو کھلی آفر دے رکھی ہے کہ اپنے مطالبات بتاؤ، جو ریلیف چاہیےوہ لے لو، بس اس کے بدلے اپنی سیاسی وفاداری ہماری جھولی میں ڈال دو۔ فنکشنل لیگ سے شروع ہوکر مسلم لیگ نواز تک پیپلز پارٹی نے ہر اس بندے کو یہ پیشکش کی ہے جس کے حلقے میں اپنے ذاتی چند ہزار ووٹ ہیں۔ ان کا اب تک کا آخری نشانہ مسلم لیگ نواز کے صوبائی صدر اسماعیل راہو تھے جو کچھ دنوں میں پیپلز پارٹی میں جانے والے ہیں۔

اپنے دور میں پرویز مشرف نے مقامی حکومتوں کے نام پر سندھ کے تمام اضلاع وڈیروں میں ایسے ہی بانٹ دیے تھے، اس کے بدلے میں انہیں بھی اپنی غیر آئینی اور غیر قانونی حکومت کی حمایت درکار تھی، پیپلز پارٹی بھی آج وہی مشق دہرا رہی ہے، کوئی ضلع نہیں چھوڑا گیا جہاں بیٹھے وڈیرے کو غریبوں کی اس جماعت میں آنے کی دعوت نہ دی گئی ہو۔ ارباب رحیم، لیاقت جتوئی یا ٹھٹہ کے شیرازی زمانہ شناس سیاستدان ہیں، ان کو کوئی تھپکی یا اس سے زیادہ کچھ ملنے کا آسرا ہو گا تبھی پیپلز پارٹی میں نہیں جا رہے لیکن باقیوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ اب کی پیپلز پارٹی کے دروازے بھٹو کے قاتل ضیاالحق کی اولاد اور بینظیر بھٹو کے ہر دشمن کے لئے کھل چکے ہیں۔ اس وڈیرانہ، جاگیردارانہ، بھوتارانہ ذہنیت کی پیپلز پارٹی کے سامنے کوئی افسر اپنے قانونی اختیارات آزادی سے استعمال کرے، اپنے محکمے میں سفارشی کلچر ختم کرانے کو کوشش کرے، کسی بھوتار وڈیرے کے آگے سائیں سائیں نہ کرے ، ایسا افسر سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو کبھی قبول نہیں رہا۔ اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کا اور کیا سبب ہوسکتا ہے؟ اس وقت سب پر بھاری زرداری نہیں، اے ڈی خواجہ ہیں جو آصف علی زرداری اینڈ کمپنی کی تمام ہدایات کے باوجود اپنے عہدے سے ہٹ نہیں رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی نے اے ڈی خواجہ کو خوشی سے نہیں بوجہ مجبوری آئی جی لگایا تھا۔ سابق آئی جی غلام حیدر جمالی پر اربوں روپوں کی کرپشن کا مقدمہ چل رہا تھا، صرف سائیبریا سے کمیشن کے عوض بکتربند گاڑیوں کی امپورٹ کا معاملہ نہیں تھا، پیسوں کے عیوض پولیس میں سینکڑوں بھرتیوں کا مقدمہ الگ سے تھا، مقدمہ کھلنے کا ڈر تھا، اس لئے نہ چاہتے ہوئے بھی پیپلز پارٹی نے اے ڈی خواجہ کو تعینات کردیا، لیکن خواجہ سندھ حکومت کے لیے وہ نوالہ بن گئے ہیں جو نہ نگلا جا سکتا ہے نہ تھوکا جا سکتا ہے۔

ملک کی سب سے بڑی عوامی اور جمھوری پارٹی کا نظریہ، منشور، پروگرام، منصوبہ بندی اور حکمت عملی بس یہی رہ گئی ہے کہ ایک آئی جی کو کس طرح ہٹانا ہے، پیپلز پارٹی کو ایسا کوئی آئی جی، ڈی آئی جی، ایس ایس پی اور ڈپٹی سیکریٹری سے سیکریٹری رینک کا افسر نہیں چاہیے، جو ان کے سامنے جھکنے یا ہاتھ باندھنا نہیں جانتا ہو۔ لیڈیز پرس اٹھانے کے بدلے پر وزارت پانے والے وزرا بھی یہی چاہتے ہیں کہ ان کی وزارتوں میں افسران بھی ایسے ہی فرمانبردار ہوں۔ ای ڈی خواجہ پیپلز پارٹی قیادت کے لیے پروسونا نان گریٹا بن گئے ہیں، جو کسی صورت میں بھی رئیس وڈے کو نہیں چاہییں، یہ سچ ہے کہ صوبائی حکومت کے نہ چاہتے ہوئے کوئی بھی افسر اتنی دیر صوبے میں رک ہی نہیں سکتا لیکن جانے سے پہلے پیپلز پارٹی کو اگر کسی نے آئینہ دکھایا ہے تووہ اے ڈی خواجہ نے دکھایا ہے۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar