مولانا مفتی محمودؒ کون تھے؟


حضرت مولانا قاری مفتی محمودؒ ہم سے بہت شفقت کا علاقہ رکھتے تھے۔ ہم ان کی خدمت میں اکثر حاضر ہوتے تھے، وہ فیصل آباد تشریف لاتے تو ان کا قیام ہمارے محترم حاجی خلیل لدھیانوی کے گھر بھی ہوتا تھا۔ ہمیں ان سے قریبی نیاز بھی حاصل ہوتا۔ حاجی خلیل پیغام حج کے نام سے ایک نجی ادارے کے ڈائریکٹر تھے۔ حج پر جانے والوں کی رہنمائی اور خدمت کا فریضہ سرانجام دیا کرتے تھے۔ ہم نے سب سے پہلے مفتی محمود کو قریب سے نہیں، بلکہ بہت قریب سے اسی گھر میں دیکھا۔ مفتی وجیہہ عالمانہ وقار، متانت و سنجیدگی کا مظہر تھے۔ سر کے بالوں کے بیچوں بیچ مانگ نکالتے تھے۔ داڑھی گھنی، چہرہ رعب دار تھا۔ گفتگو انتہائی نپی تلی، مختصر اور جامع کرتے۔ پہلی ملاقات میں انہوں نے ہمارے دل کو مٹھی میں لے لیا اور ہمں درد دل دے گئے.

محمود 9 جنوری 1919ء کو سرحد کے علاقے پنیالہ میں پیدا ہوئے۔ یہ وہی محمود ہے جو پاکستان کے سیاسی افق پرمفتی محمود کے نام سے رونق افروز رہے اور پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ کی حیثیت سے پاکستان کو نئی جہت عطا کر گئے۔ آپ کے والد کا نام مولانا محمد صدیق تھا۔ جو قبیلہ ناصر کی شاخ یحییٰ خیل سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ خاندان سارے کا سارا اہل علم حضرات کا تھا۔ مفتی محمودؒ نے ابتدائی تعلیم تو رواج کے مطابق اپنے والد اور ماموں مولوی شیر محمد سے گھر پر ہی حاصل کی۔ چھ برس کی عمر میں محمود کو پنیالہ کے مڈل سکول میں داخل کرا دیا گیا۔ 1934ء میں محمود نے مڈل سٹینڈرڈ کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد دینی علوم کی تحصیل کی طرف توجہ کی۔ ان کے والد نے محمود کو مدرسہ شاہی مراد آباد بھیجا، کیونکہ وہاں دو ایسے حضرات مدرس تھے، جن کے ساتھ آپ کا دوستانہ تعلق تھا، لیکن مفتی محمود کی خواہش دارالعلوم دیو بند میں تعلیم حاصل کرنے کی تھی، چنانچہ آپ اپنی خواہش پر ہی دارالعلوم دیو بند چلے گئے۔ والد صاحب کو پتہ چلا تو انہوں نے مدرسہ شاہی مراد آباد واپس آنے کا حکم دیا، چنانچہ آپ نے چھ برس مدرسہ شاہی مراد آباد ہی میں تعلیم حاصل کی۔

موقوف علیہ تک کتب پڑھنے کے بعد آپ نے دورئہ حدیث کی تکمیل مدرسہ اسلامیہ امروہہ سے کی۔ آپ کو علم تجوید و قرات حاصل کرنے کا بہت شوق تھا، چنانچہ آپ نے اسی مدرسے سے قرات سبعہ و عشرہ کا درس بھی لیا۔ کچھ عرصہ آپ نے عیسیٰ خیل کے مدرسے میں تدریسی فرائض بھی سرانجام دیئے۔ آپ نے شاہ عبدالعزیزؒ کے ہاتھ پر بیعت کی اور سلوک کی منازل طے کیں۔ 1946ء میں آپ کی شادی پنیالہ کے قریب واقع عبدالخیل نامی گاﺅں میں ہوئی۔ یہ خاندان بڑا دینی مزاج رکھنے والا تھا۔ تشکیل پاکستان سے چند ماہ قبل 1947ء ہی میں مفتی محمود صاحب کو شاہ عبدالعزیزؒ نے حکم دیا کہ وہ اپنے سسرالی گاﺅں عبدالخیل چلے جائیں، وہاں مسجد میں امامت کرائیں اور وہاں کے بچوں کو قرآن مجید پڑھائیں۔ یہ ایسے ہی تھا، جیسے کسی ایم اے لیول کے استاد کو پرائمری کے بچوں کو پڑھانے پر لگا دیا جائے، لیکن مرشد کا حکم تھا اس لئے اپنے مرشد کے حکم پر آپ عبدالخیل چلے آئے اور مسجد میں امامت کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی تعلیم بھی دیتے رہے۔

آپ کو اللہ نے آواز بہت خوبصورت عطا کی تھی۔ تلاوت کرتے تو سننے والوں پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی۔ تجوید و قرات میں آپ کے استاد مولانا قاری محمد عبداللہ صاحب تھے۔ آپ نے انہی سے قرات سبعہ و عشرہ کا درس لیا اور مشق بھی ان سے کی۔ عمر کے آخری حصے میں آپ کا زیادہ وقت سیاسی مصروفیات میں گزرتا تھا، جن حضرات نے اس دور میں آپ کی تقاریر سنی ہیں، وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ مفتی محمود تقریر سے پہلے قرآن حکیم کی آیات کی تلاوت کرتے توسماں باندھ دیتے تھے۔ راقم الحروف خود بھی اس بات کا شاہد ہے۔ جب ڈھلتی عمر میں یہ کیفیت تھی تو جوانی کے عالم میں آپ کی تلاوت کیا اثر دکھاتی ہو گی، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔

جھنگ کے احرار پارک میں جلسہ تھا۔ مفتی محمود صاحب کی صدارت تھی۔ ظاہر ہے آپ کی تقریر آخر میں ہونا تھی۔ وقت بھی زیادہ ہو چکا تھا۔ لوگ تھک چکے تھے۔ مفتی محمود جب اپنی صدارتی تقریر کے لئے آئے تو سب سے پہلے انہوں نے ….الذین ان منکھم فی الارض اقامو الصلوٰة…. کی آیت کی تلاوت فرمائی۔ مجمع پر وجد کی کیفیت طاری تھی۔ سامعین جو نیند کے غلبے سے اونگھ رہے تھے۔ تلاوت سنتے ہی ان کی نیندیں اُڑ گئیں اور سب پر بے خودی کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ اگلے روز ہر شخص مفتی صاحب کی تقریر کی بجائے ان کی تلاوت کا تذکرہ کرتے ہوئے لذت محسوس کررہا تھا۔ مفتی محمود اکتوبر 1980ء کو سفر حج کے لئے روانہ ہوئے۔ راستے میں کراچی ٹھہرے۔ 14 اکتوبرکو انہیں دل کا دورہ پڑا اور انتقال کر گئے۔ آپ کے بیٹے مولانا فضل الرحمن آپ کی سیاسی تربیت کے امین ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر قاری محمد طاہر
Latest posts by پروفیسر ڈاکٹر قاری محمد طاہر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).