سو سال پرانے بمبئی کا احوال


[ 28 مارچ کو “ہم سب” پر میرے دادا جان، بابو غلام محمد مظفر پوری، کی خود نوشت ”سفری زندگی“ کا ایک اقتباس شائع ہوا۔ اس خود نوشت کا سال تصنیف 1944 ء ہے اور اس وقت ان کا قیام نیروبی (کینیا) میں تھا۔ احباب کی پذیرائی سے مجھے یہ حوصلہ ملا ہے کہ اس سلسلے کو جاری رکھا جائے۔ اس قسط میں ان کے بمبئی شہر میں قیام کا احوال پیش خدمت ہے۔]

 میں 1912ء میں انجینئرنگ کا کام سیکھنے اپنے ایک رشتہ دار کے ساتھ چلا گیا۔ یہ رشتہ دار میری اہلیہ کے تایا زاد بھائی تھے جن کا اسم شریف بابو شرف الدین صاحب ہے۔ وہ ان دنوں میں کانپور- باندہ ریلوے کنسٹرکشن میں بطور اوورسیئر کے کام کر رہے تھے۔ میں نے انجینئرنگ کا کام بڑے شوق اور محنت سے سیکھنا شروع کر دیا۔ انجینئرنگ کے کام میں جس قدر تعلیم ہو کم ہے لیکن کام تھوڑی تعلیم والا بھی چلا لیتا ہے کیونکہ یہ کام زیادہ تر پریکٹیکل ہوتا ہے۔

دسمبر 1912ء کو بابو صاحب کو نوکری کی چٹھی بطور سرویئر بمبئی پورٹ ٹرسٹ سے آ گئی۔ اب ہم بمبئی کو روانہ ہو گئے اور چلتے وقت ہم نے ایک لڑکے کو روٹی پکانے کے لیے ساتھ لے لیا۔ جب دہلی سٹیشن پر اترے تو پولیس نے ہمارے سامان کی تلاشی لینی شروع کر دی۔ معلوم ہوا کہ چند روز ہوئے کسی من چلے ہندوستانی نے وائسرائے صاحب بہادر لارڈ ہارڈنگ پر بم پھینکا ہے جب وائسرائے صاحب جلوس کی شکل میں ہاتھی پر سوار چاندنی چوک سے گزر رہے تھے۔ ہندوستان کا دارالخلافہ کلکتہ سے تبدیل ہو کر انہی ایام میں دہلی قرار پایا تھا۔ ہم ایک روز دہلی ٹھہرے؛ اگلے روز بمبئی کو چلے گئے۔

بمبئی پہنچ کر ہم نے اپنا قیام ایک مسافر خانہ میں کیا جو کہ بھنڈی بازار میں ہے۔ چائے وغیرہ سے فارغ ہو کر بابو صاحب نے کہا کہ چیف انجنئیر پورٹ ٹرسٹ کے دفتر آمد کی اطلاع دینی چاہیے تاکہ تنخواہ آج سے شروع ہو جائے۔ ہم لوگوں نے وکٹوریہ کرایہ پر لی اوراس کو کہہ دیا کہ ہم کو پورٹ ایریا میں چیف انجنئیرکے دفتر لے چل۔ وہاں پر پہنچ کر ہم نے وکٹوریہ والے کو فارغ کر دیا کہ اطلاع کرنے کے بعد پیدل واپس چلے جائیں گے اور بمبئی کی رونق اور بازاروں کی سیر بھی کرتے چلیں گے۔ پس اطلاع کرنے کے بعد ہم ہر دو بمبئی کے بازاروں اور سڑکوں پر شام تک گھومتے رہے لیکن اپنی جائے رہائش ہم کو نظر نہ آئی۔ وجہ یہ تھی کہ چلتے وقت ہم بازار اور مسافر خانہ کا نام یاد رکھنا یا نوٹ کرنا بھول گئے۔ بمبئی جیسے شہر میں ناواقف آدمی کے لیے کسی جگہ کا تلاش کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ ہم نے تقریباً دو روپے ٹرام، ٹانگہ والوں کو دیے اور پھر کبھی پیدل چل پڑتے۔ آخر کار جب بالکل شام ہو گئی تو اتفاقیہ اسی مسافر خانہ کے نیچے سے گزر رہے تھے جب اس لڑکے نے، جس کو ہم گاؤں سے روٹی پکانے کے لیے لے کر گئے تھے ، دیکھ لیا اور آواز دی کہ آپ کہاں جا رہے ہیں۔ تب ہماری جان میں جان آئی کیونکہ ہم لوگ بہت تھک گئے تھے۔ یہ شکر ہے کہ بمبئی کے ہر کونے میں ہوٹل ہے اور خوراک کا سامان ہر جگہ مل جاتا ہے۔ جب ہم نے اپنے کمرہ میں آ کر اپنے بھول جانے کا قصہ بیان کیا تو خوب ہنسی ہوئی۔ اس لیے بمبئی جیسے شہر میں جب جاؤ تو جائے قیام چھوڑنے سے پہلے اس جگہ کا پورا نام و پتہ ضرور یاد کر لو یا نوٹ کر لو۔ اس کے نزدیک کوئی بڑی جگہ یا ہسپتال یا باغ وغیرہ ہو تو ضرور یاد رکھو اور ٹرام کا ٹکٹ لیتے وقت اسی مشہور جگہ کا خریدو تو ہر طرح آسانی رہے گی۔

 ہم لوگ تقریباً پانچ ماہ بمبئی میں رہے۔ پھر تو بمبئی کے کونے کونے اور ہر جگہ سے واقف ہو گئے۔ ہم نے بمبئی کے علاقہ لال باغ میں میاں خیر الدین کی مسجد کے پاس ایک عمارت میں تیسری منزل پر دو کمرے، جو کہ آگے پیچھے تھے، 20 روپیہ ماہوار کرایہ پر لے لیے اوراپنا کھانا وغیرہ پکانے کا بندوبست کر لیا۔ جب ہمیں یہ معلوم ہوا کہ بمبئی میں خود پکانے کے بجائے ہوٹل میں کھانا سستا پڑتا ہے تو ہم نے اس لڑکے کو گھر روانہ کر دیا اور خود ہوٹل میں کھانا شروع کر دیا۔ میں گھر پر نقشہ وغیرہ کا کام سیکھتا رہتا اور کبھی کبھی بابو صاحب کے ساتھ باہر کام پر چلا جاتا۔

ہم لوگ بمبئی میں رہتے ہوئے بہت تنگ آ گئے تھے۔ بمبئی رہنے کے لیے دو طرح کے آدمیوں کے لیے موزوں ہے۔ مالدار ہو جو کہ ہوادار مکان کرایہ پر لے کر رہ سکے یا بالکل غریب ہو جو رات کو بستر اٹھا کر فٹ پاتھ پر سو رہے لیکن درمیانہ درجہ کے آدمی کے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔ متوسط درجہ کا آدمی نہ تو اچھا ہوادار مکان کرایہ پر لے سکتا ہے اور نہ ہی زمین پر یعنی فٹ پاتھ پر سونا پسند کرتا ہے۔ پھر اس کے لیے یہی ہو سکتا ہے کہ یا تو رات کو سوئے یا کھٹمل مارے اور صبح بے چارے نے روزی کمانے ڈیوٹی پر بھی جانا ہوتا ہے۔

بمبئی شہر میں پیر پرستی

یہاں پر بمبئی شہر میں پیر پرستی کا تھوڑا سا قصہ لکھتا ہوں۔ میرے ذہن میں تھا کہ پیر پرستی بوجہ جاہلیت گاؤں میں ہی ہوتی ہے لیکن میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ بمبئی میں ایک مخبوط الحواس شخص، ایک مست، نے کسی غریب آدمی کو مارا تو اس غریب کو کہیں سے مال مل گیا۔ اس پر بمبئی کے بہت سے لوگ اس مست کے پیچھے پڑ گئے اور وہ بے چارہ چھپ کر اپنی جان بچاتا تھا۔ لوگ یہ چاہتے تھے کہ وہ ان میں سے کسی کو مارے تاکہ اسے مال ملے۔ اس مکان کے سامنے، جہاں وہ مست رہتا تھا، پھولوں اور دیگر اشیا کے انبار لگے رہتے تھے۔ جب تک ہم بمبئی میں رہے دوبارہ نہ تو اس فقیر نے کسی کو مارا اور نہ ہی کسی کے دولت ہاتھ آئی۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ گاؤں میں ہی نہیں بلکہ شہروں میں بھی جہالت ہے اورپیر پرستی، جس کو شخصیت پرستی کہنا چاہیے، قائم ہے بلکہ یہ وبا تو ہندوستان میں مستقل طور پر گھر کیے ہوئے ہے۔ معلوم نہیں ہمارے ہندوستانی بھائیوں کو کب ہوش آئے گا۔ ایک خدا کو، جو کہ مالک و رازق ہے اور ہر ایک قدرت رکھنے والا ہے، چھوڑ کر انسانوں کے پیچھے کیوں لگ جاتے ہیں۔ دعا ہے کہ خدا اس رواج کو ہندوستان سے مٹائے اور ہمارے بھائی بہنوں کو ایک خدا کا پرستار بنائے ۔ آمین

گداگروں کی کمپنی

 بمبئی میں اور کوئی قابل ذکر بات پیش نہیں آئی؛ صرف ایک چھوٹا سا واقعہ جو گداگروں کے متعلق ہے۔ بمبئی میں فقیروں یعنی منگتوں کی ایک کمپنی ہے جو کہ زیادہ تر ملتان یعنی اپر انڈیا کے رہنے والے ہوتے ہیں۔ ایک روز میں اپنے کمرے میں بیٹھا نقشے کا کام کر رہا تھا کہ دو برقع پوش عورتیں آئیں۔ ایک تو جوان تھی دوسری بوڑھی۔ وہ آ کر میرے کمرے کے ایک کونے میں بیٹھ گئیں اور رونے یعنی پھس پھس کرنے لگیں۔ بوڑھی عورت نے کہا ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں، میری بچی کو بچہ پیدا ہونے والا ہے، ہم غریب مسکین ہیں۔ میں نے ان کے اس طرز کلام سے متاثر ہو کرایک روپیہ دے دیا جو کہ میرا نہیں تھا۔ جب شام کو بابو صاحب آئے تو ان کو بتلایا کیونکہ روپیہ حساب میں لکھا ہوا تھا۔ بابو صاحب کو بھی ان عورتوں کے متعلق کچھ معلوم نہیں تھا۔ پس بابو صاحب نے اپنے ایک دوست سے ذکر کیا جو کہ وہاں پر نزدیک ہی دکان کا کام کرتا تھااور بمبئی کا رہنے والا تھا۔ اس دکان دار نے کہا کہ یہاں پر تو ایسے فقیروں کی ایک کمپنی ہے جس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔ آئندہ کے لیے احتیاط رکھنا۔ رات کو بابو صاحب نے مجھے بتایا کہ کس قسم کے وہ فقیر ہیں۔ خیر میں بعد ازاں خبردار ہو گیا۔ ایک روز پھر ایک مرد ہاتھ میں تسبیح اور لمبا چوغہ پہنے آ گیا۔ اس نے کہا میں حج کو گیا تھا، یہاں پر پہنچ کر خرچ ختم ہو گیا۔ اب دیس کو جانا ہے لیکن کرایہ کے لیے پیسہ پاس نہیں ہے۔ چونکہ مجھے پہلے خبر مل چکی تھی لہٰذا میں نے اس سے معافی مانگ لی اور وہ چلا گیا۔

پس میرے دوستو! جب کبھی بمبئی سے گزرو یا رہائش کے زمانہ میں آپ کو کوئی فقیر، مرد ہو یا عورت، ملے تو صاف جواب دے دو۔ خدا معلوم ایسے فقیروں کا کیا حشر ہو گا جو کہ اسلام اور قوم کو بدنام کرتے پھرتے ہیں اور کام سے جی چرا کر بھیک مانگنے پر کمر باندھ لیتے ہیں۔ دعا ہے کہ خدا ایسے نالائق اور کاہل لوگوں کو ہدایت بخشے اور ان کو اپنے ہاتھ سے روزی کمانے کی توفیق دے (آمین)۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو یہ ہمارے امیر طبقے کا بھی قصور ہے۔ روپے پیسے جیب میں ہونے کی بنا پر فوراً نکال کر دے دیتے ہیں۔ ہاں جو شخص لولا لنگڑا مستحق ہو اس کو دینا کوئی عیب نہیں لیکن جن اشخاص نے بھیک مانگنا ذریعہ روزگار بنایا ہوا ہے میرے خیال میں ان کو خیرات یا روپیہ پیسہ دینا گناہ ہی نہیں بلکہ بڑا بھاری جرم ہے۔

ہم لوگ چار پانچ ماہ میں بمبئی سے تنگ آ گئے اور رات دن دعاگو رہتے کہ باری تعالیٰ یہاں سے رہائی بخش۔ پس عرضیاں ادھر ادھر بھیجنے کا سلسلہ تو حسب دستور جاری رہتا تھا۔ خدا نے ہماری دعا منظور کر لی اور بابو صاحب کو اٹارسی – ناگپور ریلوے کنسٹرکشن میں بطور اوورسیئر کے نوکری کی چٹھی آ گئی۔ ہم لوگوں نے خدا کا شکر ادا کیا اور بابو صاحب استعفا دے کر نئی جگہ کو چل دیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).