کشمیر کی تاریخ میں عورت اور صوفی روایت


کشمیریوں کو ویدک ہندوں اور صوفی اسلام کی درمیانی مدت کی تہذیب میں گزربسر کرنے کا امتیاز حاصل رہا ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی روایت کے پیروکار مسلمان اور ہندو نہ صرف پُر امن زندگی گزارتے اور عبادت گاہوں کا احترام کرتے رہے ہیں، بلکہ تہذیبی اور مذہبی رسومات کے معاملات میں بھی ایک دوسرے کی قدروں کا خیال کرتے آئے ہیں۔ (”کشمیریت کا تصور“ سے متعلق دیکھئے، کاؤ 2004ء، رازدان 1999ء رُشدی 2005ء وائیٹ ہیڈ 335-40:2004) ایک دوسرے کی عبادت گاہوں اور یہاں موجود تبرکات کے تقدس کا دِل کی گہرائیوں سے خیال رکھنا، اِس ثقافت کا تابناک پہلو ہے۔ سلمان رُشدی (57:2005) نے کشمیریت کے اِس جذبے کو بیان کرتے ہوئے افسانوی طرز پر تحریر اپنی تاریخ ”جے اینڈ کے شالیمار دی کلُو ون“ میں اختصار کے ساتھ لکھا ہے۔ ”اُن کی کہانی میں مسلمان جیسے لفظوں کا استعمال نہیں ہوتا تھا۔۔۔وادی میں یہ الفاظ تفریق کی نیت سے نہیں، بلکہ توصیف کے طور بُولے جاتے تھے۔ اِن لفظوں کے درمیان کی جگہ جیسے غائب ہوگئی تھی اور بولتے وقت بھی جیسے ایک ہی لفظ کے مانند ادا ہو جاتے تھے“۔

کشمیر کی ملی جُلی تہذیب کی درخشان علامت لَلہ دید کا وجود ہے، جس کو کشمیر کے ہندو اور مسلمان یکسان طور یاد کرتے ہیں۔ لَلہ دید کی شادی اُس کی زندگی پر بہت بڑا ظلم بن گیا۔ اِس شادی کو لَلہ دید کے جوانی میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی خاندان کے بزرگوں نے طے کیا تھا۔ لیکن لَلہ دید نے ایک عام خاتون کی طرح سماجی پابندیوں کو برداشت کرنے کے بجائے اِس ظلم کو چپ چاپ سہنے سے انکار کیا۔ اِس کے بدلے سماج کے تئیں اپنی ذمہ داری سنبھالنے کو ترجیح دی۔اُس نے خواتین پر ڈالے گئے نفسیاتی اور سماجی دباؤ اور جبری احکام کو ماننے سے انکار کردیا۔(بھٹ ناگر، دُوبے اور دُوبے :30-2004)۔

میرا موقف ہے کہ ترک دنیاوی خواہشات کی تکمیل میں خانہ داری کی زندگی سے منہ موڑ لینے” کا گناہ“ کرکے لَلہ دید نے مرد ذات کی روایتی برتری کو الٹ پلٹ کردیا۔ وہ ایک یوگنی تھی اور اُس کا ترک دنیاوی خواہشات کرکے زندگی گزارنا مسلمہ تھا۔ لَلہ دید نے یوگی اصولوں کو عام کرنے کیلئے انتہائی جوش وجذبے سے کام جاری رکھا۔ اُس نے اپنے اندر کی آواز پر ثابت قدم رہ کر یوگی زندگی کی پیچیدگئیوں کو پہچان لیا۔ لیکن اِس کی زاہدانہ خواہشات شعلوں کے مانند بھڑک اٹھیں۔ لَلہ دید کو کشمیر میں روحانیت اور ثقافت کے میدان میں اہم ترین تعمیری رول ادا کرنے کا شرف حاصل ہے۔ بزاز کی نظر میں دور ماضی کی خواتین کا کشمیر کی ثقافت میں شاندار رول رہا ہے جو قابل ستایش بھی ہے۔ تاہم اِس رول کو رومانی لباس میں پیش کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں اور سماج میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے سے متعلق دانشور خواتین کی جدوجہد کی اہمیت کو گھٹایا جاتا رہا ہے۔

عرف عام میں کہا جا سکتا ہے کہ ابتدائی زمانے سے لیکر تیرھویں صدی تک خواتین کو لامحدود آزادی حاصل تھی۔ وہ بااختیار تھیں اور ذمہ داریاں نبھاتی تھیں۔ اِسی وجہ سے اِن خواتین کو سماج میں اعلیٰ مقام حاصل تھا۔ کئی مرتبہ کشمیری خواتین زینت کے آسمان تک جا پہنچی تھیں اور حکمران ہوگئی تھیں (یشومتی، سُوگھندا، دیدا، کوٹا)۔ بہت سی نابالغ شہزادوں کی جگہ قائم مقام حکمران بن بیٹھی تھیں۔ دیگر کئی خواتین نے طاقتور ملکہ بن کر درپردہ طور حکمرانی کی (ایشان دیوی، کلہانیکا)۔ خواتین نے سفارت کاری کا کامیاب رول بھی ادا کیا ہے۔ سِلا اور چڑا جیسی عورتوں نے فوجی کمانڈروں کے فرائض بھی ادا کئے ہیں۔ کفایت شعار مالکان ، معمار ، سماجی مصلح اور مذہبی مبلغ کی حثیت میں بھی خواتین نے کامیابی کے جھنڈے گاڑھ دیئے ہیں۔ (بزاز: 1967 اور 2005:12)۔

لیکن کسی بھی سماجی سانچے میں نظام مراتب کا جنسی جذبات سے غیر مشروط رہائی ممکن نہیں ہے۔ پرانے زمانے کی کشمیری خواتین کے بارے میں بزاز کا کہنا دُرست ہو سکتا ہے، پر اِس لحاظ سے باطل عقیدہ کہلایا جاسکتا ہے کہ مراتب اور سرداری نظام کے ماتحت سماجوں کے اندرونی خدوخال کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ خاص طور سے جب یہ نظام خواتین کے بارے میں متعصب ہیں۔ سخت گیر اور لایق ملامت رواجوں اور دستور کے سماجوں میں عورت کو مخالف جنس کے مقابلے میں رتبے، اختیارات اور آزادی کے معاملوں کمتر درجے میں رکھا گیا ہے۔ امتیاز اور برابری کے مفہوم کو قدرت کی دین قرار دیا جارہا تھا۔ (مصری :7:2002)۔ بزاز نے جن خواتین کی سیاست اور ہنر مندی کی بلندیوں کا تذکرہ کیا ہے، وہ آمرانہ نظام اقتدار کی شان وشوکت سے تعلق رکھتی تھیں۔ وہ ہم عصر دیگر خواتین کے مقابلے میں اقتصادی پابندیوں اور سماجی حد بندیوں سے آزاد تھیں۔ لیکن لَلہ دید نے اپنے ہی سماج کی حد بندیوں کو توڑ کر نئے نظریات اور اوزار حاصل کئے اور جنسی تفریق اور ظلم وتشدد سے پاک ایک نئے سماج کی تعمیر پر دھیان دیا۔ وہ سرداری نظام کی قومی تاریخ میں مداخلت کر کے اپنے ہی مقام سے سیاسی حقایق کو منظر عام پر لائی۔ یہی وہ نظام تھا جو لَلہ دید کے سماج میں رچ بس گیا تھا۔ لَلہ دید نے اپنے تدبر سے اور سماج کے تئیں اپنی ذمہ داری سے کام لیکر ذاتی آزادی کیلئے خواہشمند عورت کا ساتھ دیا۔ اُس نے احساس ذمہ داری کو جس طریقے سے عملی صورت دی، درحقیقت وہی عمل لَلہ دید کی خود کی آزادی کیلئے خواہش کا احساس تھا اور میری نظروں میں اِسی بات کو اہمیت حاصل ہے۔ اُس نے اپنے جنسی جذبات کو مسترد کیا، تاکہ تکلیف میں مبتلا دوشیزہ کے خلاف مفاد خصوصی عناصر کے درمیان اختیاراتی رابطوں کو کاٹ کر رکھ دیا جائے۔

(ادارتی نوٹ: للہ عارفہ یا للہ دید، آٹھویں صدی ہجری میں وادی کشمیر کی ایک عجیب و غریب شخصیت ہیں۔ ہندو کہتے ہیں کہ یہ خاتون ہندو تھیں اور ان کا نام للہ ایشوری یا للہ دید تھا۔ مسلمان کہتے ہیں کہ مسلمان تھیں انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ کشمیر کے مسلمان ان کو للہ عارفہ اور احتراماً للہ ماجہ”لل ماجی” کہتے ہیں۔ (“لل ماجی” کا مطلب ہے”بزرگ خاتون”) صوفیائے کشمیر کے تذکروں میں ان کو مسلم اولیاء اللہ میں شمار کیا گیا ہے عام طور پر لل ہی کے نام سے مشہور ہیں جو کشمیری زبان میں پیار کا لفظ سمجھا جاتا ہے۔

کشمیر کی یہ عظیم صوفیہ خاتون 1330ء کو سری نگر سے تین میل دوریا ندرھُن گاؤں میں پیدا ہوئی۔ للہ دید سترہ برس کی تھیں کہ ان کی شادی ایک ہندو برہمن سے کر دی گئی وہ جاہل اور اجڈ تھا۔ آپ کا ظالم شوہر نہ صرف خود آپ کو مارتا پیٹتا بلکہ آپ کی ساس بھی آپ پر بے پناہ ظلم کرتی تھی۔ یہ سلسلہ جب حد سے گزر گیا تو للہ عارفہ خاتون حالت دیوانگی میں ویرانوں کی طرف نکل گئی۔

وہ صوفیوں، سادھوؤں اور رشیوں کی محفلوں میں بیٹھ کر معرفت اور شعور و آگہی کی تعلیم حاصل کرنے لگی۔ رفتہ رفتہ للہ دید سلوک کی راہ میں اتنی بے خود ہو گئی کہ اس نے دیوانگی کے عالم میں معرفت و حکمت کی باتیں کرنی شروع کر دیں مشہور ولی اللہ سید سمنانی تانی جب کشمیر میں آئے تو للہ عارفہ ان کے دست حق پرست پر مسلمان ہو گئیں اور پھر ان کے حلقہ ارادت میں داخل ہو کر وقت کا بیشتر حصہ عبادت الٰہی میں گزار دیا اور صوفیانہ اشعار کہنے لگی جنہیں لوگ یاد کر لیتے۔ للہ عارفہ نے انسان دوستی کا فلسفہ پیش کیا۔ وہ اخوت، مساوات اور عدل و انصاف کی پیروکار تھی۔ للہ عارفہ خاتون کشمیری زبان کی پہلی صوفی شاعرہ ہے۔ اس کا کلام حکمت و معرفت کا خزینہ ہے۔

للہ عارفہ کی وفات پر ہندو اسے جلانا چاہتے تھے اور مسلمان دفن کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جب چادر ہٹائی گئی تو وہاں پھولوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ تاریخ میں اس امر کا کوئی ثبوت نہیں کہ للہ عارفہ خاتون کہاں گئی اور کہاں دفن ہے۔)

ڈاکٹر نائلہ علی خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر نائلہ علی خان

ڈاکٹر نائلہ خان کشمیر کے پہلے مسلمان وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی نواسی ہیں۔ ڈاکٹر نائلہ اوکلاہوما یونیورسٹی میں‌ انگلش لٹریچر کی پروفیسر ہیں۔

dr-nyla-khan has 37 posts and counting.See all posts by dr-nyla-khan