شام کے ہوائی اڈے پر امریکی حملہ


امریکہ نے شام کے ایک ہوائی اڈے پر کروز میزائیلوں سے حملہ کرکے ہوائی اڈے کو مکمل طور سے تباہ کردیا ہے۔ اس حملہ میں شام کے چھ فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ امریکہ نے یہ حملہ منگل کو ادلب کے علاقے میں شامی فوج کی فضائیہ کی طرف سے باغیوں کے زیر قبضہ علاقے میں کیمیکل حملوں کے بعد کیا ہے۔ منگل کو کیمیکل حملہ کے نتیجہ میں اب تک 86 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی ہے جن میں متعدد بچے بھی شامل ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس حملہ میں استعمال ہونے والے کیمکل ایجنٹ میں سیرین گیس بھی شامل تھی جو انسانوں کے لئے تکلیف دہ موت کا سبب بنتی ہے۔ تاہم ابھی تک اس حملہ کی ذمہ داری کے بارے میں متضاد دعوے سامنے آتے رہے ہیں۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ حملہ اسد حکومت نے کیا ہے جبکہ شامی حکومت اور روس نے اس کی پرزور تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حملہ باغیوں کے ایک اڈے پر کیا گیا تھا لیکن وہاں باغی فوجوں نے کیمیکل ہتھیار چھپائے ہوئے تھے۔

خود مختار ذرائع ابھی تک اس کیمیائی حملہ کی سچائی کے بارے میں تصدیق نہیں کر سکے ہیں۔ تاہم 2013 میں شامی فوج نے اپنے شہریوں کے خلاف کیمیکل ہتھیار استعمال کئے تھے ۔ اس حملہ کو سابق صدر باراک اوباما نے امریکہ کی ریڈ لائین قرار دیا تھا اور خیال تھا کہ امریکہ اس کا انتقام لینے کے لئے شام پر حملہ کرے گا۔ تاہم روسی مداخلت سے شام اپنے کیمیائی ہتھیار ضائع کرنے پر راضی ہو گیا تھا جس کی وجہ سے امریکی حملہ کا خطرہ ٹل گیا تھا۔ اس لئے منگل کو ہونے والے سانحہ کے بارے میں یہ یقین کیا جارہا ہے کہ شامی فوج نے باغیوں کو نیچا دکھانے کے لئے یہ حملہ جان بوجھ کر کیا تھا۔

چھ سالہ خانہ جنگی میں پہلی بار امریکہ نے شام پر حملہ کیا ہے۔ شام اور روس نے اسے ایک خود مختار ملک کے خلاف جارحیت قرار دیا ہے تاہم صدر ٹرمپ نے اپنے مختصر پیغام میں کہا ہے کہ شامی فوج کی جارحیت امریکہ کی سیکورٹی کے لئے شدید خطرہ کا سبب بنی ہوئی ہے۔ اس طرح صدر ٹرمپ اپنی صدار ت کے 78ویں دن ہی ایک ایسا فیصلہ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں جو ان کے انتخابی وعدوں کے برعکس ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے بارہا واضح کیا تھا کہ وہ امریکہ کے صدر ہیں ، دنیا کے صدر نہیں ہیں۔ انہوں نے صدارت کا عہدہ سنبھالتے ہوئے بھی اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ ان کے لئے امریکہ کے مفادات ہی سب سے پہلے ہوں گے۔ لیکن اب وہ ایک ایسی جنگ میں ملوث ہوئے ہیں جو ذرا سی بے احتیاطی کے سبب تیسری عالمی جنگ کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔

صدر ٹرمپ اپنی ساری توجہ امریکہ میں بیروزگاری ختم کرنے اور دنیا میں امریکی کردار کو محدود کرنے کے وعدے پر منتخب ہوئے تھے۔ تاہم شام پر حملہ کرنے کا حکم دے کر انہوں نے واضح کردیا ہے کہ وہ واشنگٹن میں جس مزاج کو ختم کرنے کی بات کرتے رہے ہیں اب وہ خود اس کا حصہ بن رہے ہیں۔ یہ حملہ صدرٹرمپ نے اپنی اتھارٹی ثابت کرنے اور یہ بتانے کے لئے کیا ہے کہ وہ فوری اور اہم فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن اس حملہ سے شام میں جنگ کی صورت حال مزید پیچیدہ ہو جائے گی اور ٹرمپ حکومت داعش کے خلاف جو فیصلہ کن جنگ کرنا چاہتی ہے ، اس پر بھی اس تبدیل شدہ پالیسی کے اثرات مرتب ہوں گے۔

اس حملہ کے بعد روس اور امریکہ کے تعلقات میں تلخی اور تصادم کے ایک نئے دور کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔ فی الوقت امریکہ نے صرف اس شامی ائر بیس کو نشانہ بنایا ہے جہاں سے اس کے بقول شامی فضائیہ نے ادلب کے علاقے خان شیخون پر کیمیائی حملہ کے لئے طیارے روانہ کئے تھے۔ اگر امریکہ مزید حملے کرنے سے گریز بھی کرتا ہے تب بھی شام کے بارے میں امریکی تبدیلی میں واضح پالیسی دیکھنے میں آئے گی جو صدر ٹرمپ کے ان دعوؤں کے برعکس ہوگی جس میں وہ یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ روس کے ساتھ مل کر شام کا بحران ختم کریں گے اور داعش کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی جائے گی۔ روس کے ساتھ دوستی کی ٹرمپ کی خواہش کو پہلا صدمہ ان انکشافات کے بعد لگا تھا کہ ٹرمپ کے قریبی مشیر خفیہ طور پر روسی سفیر کے ساتھ رابطہ میں تھے اور ممکنہ طور پر روس نے امریکی انتخاب میں مداخلت کرنے کی کوشش کی تھی۔ اب امریکی سینیٹ ان الزامات کی تحقیقات کررہی ہے۔ تاہم ایک خود مختار ملک پر حملہ کے بعد صدر ٹرمپ کی حکومت نے ایک نئی جنگ کا آغاز کیا ہے جو نہایت خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔

ٹرمپ نے آج صبح شام پر حملہ کے بعد ایک بیان میں شام کے عوام سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’خدا کے بچوں کو ہلاک کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘۔ حالانکہ یہی ٹرمپ ہیں جو شامی پناہ گزینوں کا امریکہ میں داخلہ بند کرنا چاہتے ہیں اور اس قسم کے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں جس سے یہ قیاس کرنا مشکل نہیں ہے کہ عرب ملکوں سے آنے والا ہر مسلمان امریکی سیکورٹی کے لئے خطرہ ہے۔ انہوں نے دو مرتبہ چھ ملکوں کے باشندوں کے امریکہ داخلہ پر پابندی لگانے کا صدارتی حکم جاری کیا ہے جسے عدالتوں نے معطل کیا تھا۔ اس کے علاوہ بچے اور کمزور طبقے صرف شام میں ہی ایک افسوسناک جنگ کا نشانہ نہیں بن رہے۔ فلسطینی شہری مسلسل اسرائیلی جارحیت کا شکار ہوتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نوجوانوں کے خلاف انسانیت سوز مظالم کررہی ہے۔ برما جیسے ملک میں حکومت روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف ہے لیکن عالمی ضمیر اور امریکہ کے صدر کی انسان دوستی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شام میں ہونے والے واقعات دراصل مشرق وسطیٰ کے حوالے سے اہم امریکی مفادات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اسی لئے منگل کے حملہ کو مغربی میڈیا اور امریکی حکومت نے غیر معمولی اہمیت دی ہے۔

سعودی عرب اور اسرائیل سمیت متعدد ملکوں نے شام پر امریکی حملہ کی حمایت کی ہے۔ آنے والے دنوں میں واضح ہوگا کہ امریکہ شام کے حوالے سے کیا پالیسی اختیار کرنا چاہتا ہے۔ تاہم شام کی صورت حال اور وہاں حکومت کے باغیوں کے علاوہ داعش اور دیگر انتہا پسند جہادی گروہوں کی موجودگی کی وجہ سے صورت حال نہایت پیچیدہ ہے۔ روس کی فوج شام میں موجود ہے اور وہ شام کی حکومت کی حمایت کررہی ہے۔ روس سے براہ راست ٹکراؤ کے بغیر امریکہ شام پر میزائل حملوں سے زیادہ کوئی کارروائی کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔ اس سے نہ تو شام کا مسئلہ حل ہوگا اور نہ ہی دہشت گردی کا خاتمہ آسان رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali