اور کیا چاہیے جینے کے لیے


کرائسس مینجمنٹ ( بحران سے نمٹنے کے طریقے ) باقاعدہ ایک سائنس ہے اور دنیا کی بہت سی یونیورسٹیوں میں اسے ایک علیحدہ مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ قدرتی آفات سے کیسے موثر طریقے سے نمٹا جائے؟ حادثات کے اثرات کم کرنے کے لیے کیا کیا جائے؟ جنگوں اور دہشت گردی سے ہونے والی تباہ کاری کیسے محدود کی جائے؟ مستقبل کے لیے کیا موثر لائحہ عمل بنایا جائے؟ اس کے لیے حکومتیں باقاعدہ مینوئیل ( اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز )اور قوانین وضع کرتی ہیں۔ متعلقہ امدادی و انتظامی اداروں کو بوقتِ ضرورت رابطے کی مربوط لڑی میں پرونے کا ادارتی نظام وضع کرتی ہیں۔

غیر سرکاری تنظیموں، ماہرین اور سرکردہ شہریوں کو بھی اس نظام کا حصہ بنا کر اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ وقتاً فوقتاً اس نظام کی کارکردگی چیک کرنے اور بہتر سے بہتر بنانے کے لیے ریہرسلیں، ورکشاپس اور مشقیں کی جاتی ہیں۔ کرائسس مینجمنٹ کے لیے اوپر سے نیچے کی سطح تک ایک مستعد کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم قائم کیا جاتا ہے جو بوقتِ ضرورت خودکار طریقے سے حرکت میں آتا ہے۔ یوں کسی بھی ممکنہ قدرتی و انسانی بحران سے کسی حد تک نمٹ لیا جاتا ہے۔

پاکستان بھی چونکہ اسی دنیا کا حصہ ہے لہذا یہاں بھی کرائسس مینجمنٹ کے قوانین، ضابطے، ادارے اور مشینری موجود ہے۔ لیکن ہر ملک، حکومت اور سماج کی نفسیات، سوچ، مزاج، وسائل اور چاک و چوبند رہنے کی صلاحیت چونکہ مختلف ہوتی ہے لہذا کرائسس مینجمنٹ کے موثر، نیم موثر یا غیر موثر ہونے کا دارومدار اسی نفسیات، سوچ، وسائل اور چاک و چوبند رہنے کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان میں کرائسس مینجمنٹ کا مینوئل کچھ یوں کام کرتا ہے۔

( الف ) کوئی بھی قدرتی یا انسانی آفت آتے ہی سب سے پہلے اوپر سے نیچے تک یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ اس سے نمٹنا وفاق کی ذمے داری ہے یا صوبوں کی۔

( ب ) سرچ اینڈ ریسکیو کے لیے کن اداروں سے کس طریقے اور کس محکمے کے کس اہلکار سے رابطہ کیا جائے۔ اس بارے میں ہنگامی ریسرچ کا کام شروع ہوجاتا ہے اور اکثر یہ تحقیق کرائسس ختم ہونے کے بعد تک جاری رہتی ہے۔

( ت ) آفت زدگان تک سب سے پہلے پہنچنے سے بھی زیادہ ضروری یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہر خود ساختہ سماجی کارکن، سیاسی رہنما اور سول سوسائٹی والے کے اظہارِ ہمدردی، افسوس اور تعزیت کے بیانات کی پٹی چینلوں پر چلتی رہے، چلتی رہے، اور چلتی رہے۔ ۔ ۔

( ث ) ان بیانات کا توڑ کرنے کے لیے حکومت کا کوئی ذمے دار فوری طور پر خزانے والوں سے مشورہ کیے بغیر مرنے والوں کے لواحقین کے لیے تین لاکھ سے دس لاکھ اور زخمیوں کے لیے ایک لاکھ سے پانچ لاکھ تک معاوضے کا اعلان کردیتا ہے ( جیسی جس کی اوقات ہو)۔ زخمیوں کے بہترین اور مفت علاج کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے۔ مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے، غیرملکی سازش، خفیہ ہاتھ اور کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نا کرنے کی تین ہزار ایک سو ستائیسویں قسم کھائی جاتی ہے، ایک اور تحقیقاتی کمیٹی یا کمیشن کھڑا کردیا جاتا ہے تاکہ متاثرین کے غم و غصے کا فوری رخ موڑا جاسکے۔ یوں کرائسس مینجمنٹ کا اصل کام ڈیمیج کنٹرول کی مشق میں بدل جاتا ہے۔

( ج ) بلڈوزر، ملبہ ہٹانے کے آلات، ایمبولینسیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جائے وقوعہ پر پہنچنے سے پہلے ہی الزامیہ اوپن ٹینس ٹورنامنٹ شروع ہوجاتا ہے۔

( چ ) آفت آتے ہی قانون کی ایفی شنسیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ سیکیورٹی کے نام پر پہلا کام یہ کیا جاتا ہے کہ متاثرہ علاقے کو گھیرے میں لے لیا جاتا ہے۔ راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کردی جاتی ہیں تاکہ متاثرین ’’جہاں ہیں اور جیسے ہیں’’ کی بنیاد پر کسی بھی خارجی مدد سے حتی الامکان محفوظ رہ سکیں۔

( ح ) اسپتالوں میں ایمرجنسی ڈکلئیر ہوتے ہی طبی عملہ سب سے پہلے اپنی فرسٹ ایڈ کا انتظام کرتا ہے کیونکہ جیسے جیسے لاشیں اور زخمی آئیں گے، ان کے ساتھ مشتعل اور مسلح غول بھی آتے رہیں گے اور وہ طیش، بے بسی اور جھنجلاہٹ کے عالم میں اسپتالی عملے کی لترول شروع کردیں گے۔

( خ) ایمبولینسوں سے بھی پہلے میڈیا پہنچ جاتا ہے۔ سب سے پہلے پہنچنے والے رپورٹر کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی لاش سے ایکسکلوسیو انٹرویو لے لیا جائے۔ اگر ایسا نا ہوسکے تو لاش پر کپڑا ڈالنے کے بجائے کیمرہ اسے ہر زاویے سے زوم ان اور زوم آؤٹ کرنا شروع کردیتا ہے۔ زخمی کو پانی پلانے یا ایمبولینس تک پہنچانے سے کہیں پروفیشنل یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کے لہو لہان منہ سے نکلتی ہوئی کراہتی آواز سنوا کر پرجوش انداز میں پیس ٹو کیمرہ ریکارڈ کروایا جائے اور امدادی اداروں کی نا اہلی کا پردہ چیختے دھاڑتے ہوئے چاک کردیا جائے۔

جتنی بڑی تباہی اتنی بڑی خبر اور اتنی بڑی خبر ملنے کی اندرونی خوشی اور پھر ’’سب سے پہلے ہم نے نیوز بریک کی ’’کا پھولا ہوا فخریہ سینہ۔ ۔ ۔ اور پھر کان پر لگے ہیڈ فون میں ویل ڈن، کیپ اٹ اپ مین کا رستا ہوا شہد۔ ۔ ۔

اگلی آفت آنے پر یہی مینوئل ہو بہو دھرایا جاتا ہے۔ یہ طریقِ کار اتنا موثر ہے کہ کوئی بھی جمہوری و غیر جمہوری حکومت، ادارہ یا تنظیم اسے بدلنے یا اس میں ترمیم و اضافے پر تیار نہیں۔
آمریت اور جمہوریت میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ آمریت میں چیزیں ایک ہی مٹھی میں ہوتی ہیں اور شدید مرکزیت کا رجحان غالب ہوتا ہے۔ پرندہ بھی اجازت لے کر اڑتا ہے۔ جب کہ جمہوریت تو نام ہی غیر مرکزیت (ڈی سنٹرلائزیشن ) کا ہے۔ آمریت میں ہر شے آمر کے تابع ہوتی ہے۔ جمہوریت میں حکومت اداروں کے تابع ہوتی ہے اور ہر ادارہ اپنے اپنے دائرہ کار میں با اختیار طریقے سے کسی دوسرے ادارے کی مداخلت کے بغیر کام کرتا ہے ( اگر کام کرتا ہے )۔ اور پھر یہی غیر مرکزیت کنٹرول سے باہر ہوجائے تو لامرکزیت میں بدل جاتی ہے اور اداروں سے باہر ابل کر اوپر سے نیچے شرقاً غرباً شمالاً جنوباً سرایت کرتی چلی جاتی ہے۔

اس تناظر میں جب ہم اپنے ملک کو دیکھتے ہیں تو ایک آئیڈیل صورتِ حال دکھائی دیتی ہے جہاں غیر مرکزیت اداروں سے ہوتی ہوئی لامرکزیت میں بدلتے بدلتے غیر سرکاری تنظیموں اور افراد تک کا اوڑھنا بچھونا بن چکی ہے۔ جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے۔

فوج و نیم فوجی و سراغرساں ادارے، عدلیہ، ایوانِ صدر، مقننہ، وفاقی و صوبائی حکومتیں، چیف سیکریٹری سے لے کر نائب قاصد، تعلیمی ادارے، دینی مدارس، اسپتال، تاجر، صنعت کار، سیاسی تنظیمیں، جرگے، کالعدم مذہبی و لسانی گروہ، سرکاری و غیر سرکاری حمایت یافتہ مسلح ملیشائیں، نجی محافظ، پراپرٹی ڈیلرز، مافیائیں، انسانی اسمگلر، اسلحہ و منشیات فروش، غیر ملکی باشندے، عام آدمی۔ سب اپنے اپنے دائرے میں مکمل خود مختاری کے ساتھ جوابدہی اور کارروائی کے خوف سے آزاد جانفشانی سے کام کررہے ہیں۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).