جب انڈیا پاکستان کی سرحدیں کھل گئی تھیں


پورے ساٹھ برس بعد میں پھر سے امرتسر کو جاتا تھا۔ امرت، شہد کے تالاب کا سفر اختیار کرتا تھا۔

تب میں بمشکل بلوغت میں قدم رکھتا ایک ٹین ایجر تھا اور اب میں 77برس کا ہوتا ایک ایسا بوڑھا تھا جواگر داڑھی بڑھا لیتا تو اُس کی سفیدی کی پوترتا ایسی ہوتی کہ کوئی نہ کوئی ضعیف الاعتقاد سکھ مجھے اپنا گیارھواں گرو مان کر میرے پاؤں پڑ جاتا۔ اگر میں باریش ہو جاتا تو۔

پاکستان ابھی کچھ برس پیشتر دنیا کے نقشے پر نقش ہوا تھا جب یکدم تمام سرحدیں معدوم ہو گئیں، بارڈر کھل گئے، اور یہ اعجاز تھا ہاکی کے کھیل کا۔ لاہور، امرتسر اور جالندھروغیرہ میں انڈیا ا ور پاکستان کی ہاکی ٹیموں کے میچ منعقد ہوئے۔ سرحد پار کرنے کے لئے نہ کسی پاسپورٹ کی یا ویزا کی حاجت تھی، اپنی شناخت درج کروایئے اور آپ کو پار جانے کی پرچی عطا کر دی جاتی تھی۔

لاہور پر پنجابی ہندوؤں اور خاص طور پر سکھوں کی یلغار ہوگئی یہاں تک کہ مقامی لوگ ایک اقلیت میں بدل گئے، انارکلی میں رنگ رنگ کی سکھ پگڑیاں گویا تیرتی، ہلکورے لیتی، بہتی جاتی تھیں۔ اور اہل لاہور، سب بھول بھال گئے کہ ان میں سے بہت لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اُن کا قتل عام کیا، اُن کے خون سے ہولی کھیلی اور انہوں نے اِن مہمانوں کے لئے اپنے دل اور دروازے کھول دیے۔ تانگے والے کوچوان ان پگڑی والوں سے کرایہ نہ لیتے کہ بادشاہو، لاہور، لاہور ہے۔ خوانچہ فروش، ٹھیلے والے اور فٹ پاتھ پر براجمان خوراک کی دیگیں اور دیگچے بڑھائے لاہوری اِن ناگہاں مہمانوں سے قیمت وصول کرنے سے انکاری ہو جاتے کہ۔ لاہور، لاہور ہے۔ کسی کو کچھ پروا نہ تھی کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کھیلے جانے والے ہاکی میچ کہاں کھیلے جا رہے ہیں، وہ تو ہمہ وقت مسکراتے، کبھی جھینپتے، کبھی خواہ مخواہ فقیروں کو معاف کردو کی بجائے اُن کے سامنے ہاتھ جوڑتے لاہور کی سیر کر رہے تھے۔ اُن میں سے کچھ اپنے آبائی گھروں کی چوکھٹوں کو چومتے، روتے اور اُن کے موجودہ مکینوں کی بنیتی کرتے، منت کرتے کہ مہاراج اس گھر کے فلاں کمرے میں میرا جنم ہوا تھا، اُس کی یاترا کرا دو۔ اس کا ایک صحن ہے، چوکھٹ کے پار جس کے گرد ہمارا گھر بلند ہوتا تھا، وہ صحن دکھلا دو، میں اُس میں کھیلا کرتا تھا، میرے باپو کی ارتھی وہاں سے اٹھی تھی، وہ دکھلا دو۔ ایک عجب انہونا موسم تھا، کبھی آنسوؤں کی برکھا برسنے لگتی تو برستی جاتی اور کبھی کسی قدیم برگد کو ابھی تک موجود پا کر اُن کی مسرت مسکرانے لگتی اور وہ اُس کے پتوں کو گیتا اور گرنتھ کے اوراق کی مانند مقدس جان کر چومتے اور دل سے لگا لیتے۔

مجھ ایسے بمشکل ٹین ایجر ہوتے بچوں کے لئے وہ تصویر جو تصور میں نہ تھی کہ جب پاکستان کا انعام نہ ملا تھا، تو لاہور کے گلی کوچے کیسے تھے۔ لوگ کن شکلوں کے تھے، وہ تصویر متحرک ہو گئی۔ انارکلی، کرشن نگر، سنت نگر، گاندھی سکوائر، نسبت روڈ، گوروارجن نگر اور ہمارے گھر کے سامنے کرشنا گلی کاشاندار گھروں اور حویلیوں کا جو ایک کامپلیکس تھا، چیمبرلین روڈ، ریلوے روڈ اور بانساں والے بازار کے درمیان جو ایک نہایت تنظیم شدہ ہندو شہر تھا، وہ اُن زمانوں میں کیسا لگتا ہوگا جب سکھ اور ہندو لاہوری ان گلیوں بازاروں میں زندگی کرتے تھے۔ اُن کی آمد سے تصویر تاریخ کی، تقسیم سے پہلے کی مکمل ہوگئی۔ تب مجھے پہلی بار احساس ہوا تھا جسے میں نے ساٹھ برس سے زائد کے بعد اپنے ناول ’’راکھ‘‘ میں بیان کیا تھا کہ ہم لمحے کے اشتعال میں آکر ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ سکتے ہیں، گھروں کو مکینوں سمیت بغیر کسی ندامت کے جلا سکتے ہیں، ماؤں بہنوں کو بے آبرو کرکے حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کرکے اُن میں سے بچوں کے لوتھڑے نکال کر کرپانوں میں پرو سکتے ہیں اورپھر اگلے لمحے گلے لگ جاتے ہیں۔ ماضی کے سارے خون خرابے اورنفرتوں کوبھول بھال جاتے ہیں، ہم برصغیر کے باسی یقیناًعجیب نہیں ابنارمل لوگ ہیں۔

اور جب اُن کی مہمان نوازی اور محبت کا وقت آیا تو انہوں نے بھی کچھ کسر نہ چھوڑی۔ ہاکی میچ امرتسر اور جالندھر میں منعقد ہوئے تو پاکستانی اور اہل لاہور کے لئے بھی ہندوستان نے سرحد معدوم کردی، یہاں سے قافلے کے قافلے چل دیے، ابھی پانچ چھ برس پیشتر جیسے مشرقی پنجاب کے برباد، بے آباد، بے سروساماں، بے بس اور بے سہارا مسلمان، جن کی بیٹیوں اور ماؤں کو مساجد میں قرآن کے اوراق بچھا کر اُن پر لٹا کر اُن کی آبرو کے پرزے کیے گئے تھے اور وہ قافلوں کی صورت چلے آئے تھے ایسے اب لاہور سے قافلے چلے جاتے تھے، اور اُن کا استقبال کرنے والے بیشتر وہی لوگ تھے جنہوں نے انہیں اوراُن کے بچوں کو تلواروں کی دھار سے تربوزوں کی مانند دولخت کردیا تھا، لیکن آج وہ اپنی آنکھیں بچھاتے تھے۔ ہاتھ جوڑتے معافی کے خواستگار ہوتے۔ اُن کے پاؤں چھوتے تھے۔ کیا کچھ شک ہے کہ ہم عجیب ابنارمل لوگ ہیں۔

میں اس ہاکی کے کھیل ہی کھیل میں دو مرتبہ امرتسر گیا۔ پہلی بار مجھے یاد ہے ذرا ذرا کہ یہ ساٹھ برس پیشتر کے زمانے ہیں، امرتسر سٹیشن کے آہنی پل کو پار کرتے ہوئے ایک نادار شخص پاکستان سے آنے والے مہمانوں کو مسرت سے دیکھ رہا ہے اورپھر میرا سوٹ کیس تھام کر ہاتھ جوڑ کر کہتا ہے، ’’مہاراج، کرم ہوگا، میرے گھر چلو۔ چھوٹا ساگھرہے، میں نے اپنی پتنی سے وعدہ کیا ہے کہ کسی نہ کسی پاکستانی کوگھر لے کر آؤں گا۔

چونکہ میری رہائش کا بندوبست ہوچکا تھا اس لئے میں نے اُس سے معذرت کی وہ سٹیشن کے باہر تک میرا سوٹ کیس اپنے کاندھوں پر رکھ کر آیا۔ دوسری بار میرا قیام امرتسر کے ایک ایسے شخص کے گھر ہوا جو کسان اینڈ کمپنی کے لئے سبزیوں کے بیج برآمد کرتا تھا۔ ہمارا لین دین چلتا تھا، اُس نے ہمارے لئے اپنے سادہ سے گھر کی بیٹھک وقف کردی کہ میرے ہمراہ نثار آرٹ پریس کے دیرینہ دوست نوازش علی اور اُن کے کچھ شیخ نوعیت کے رشتے دار بھی تھے۔

امرتسر کی ایک صبح سویر میں ہمیں حلوہ پوڑی اور لسی کا ناشتہ پیش کیا گیا۔ میزبان، ناشتہ سجا کر، ہاتھ جوڑ کر چلے گئے تو شیخ حضرات نے اسے ہاتھ لگانے سے انکار کردیا کہ یہ تو ایک ہندو ناشتہ ہے۔ اُن کے منع کرنے کے باوجود میں نے وہ ناشتہ نہایت رغبت سے نوش کیا، جیسے چچا غالب نے کہا تھا کہ برفی ہندو یا مسلمان نہیں ہوتی، صرف برفی ہوتی ہے، ایسے ہی ناشتے کا بھی کوئی مذہب نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar