م سے مالٹا۔۔۔ ٹ سے ٹرین ، اورینج ٹرین


قاضی علی ابوالحسن

 (اورینج لائن کے ٹریک پر واقع سنگیتہ ٹی سٹال پر بیٹھے چھکن لوہاری اور فدا مزنگی کی گفتگو سے ایک ٹکڑا)

 مزنگی : تارا ٹوٹتا دیکھا ہے کبھی؟

لوہاری :نہیں تو۔

مزنگی :ایسے ایسے(چٹکی بجاتے ہوئے) ٹوٹتا ہے اور ایسے ایسے غائب۔ یہ اپنی اورنج لائن بھی نا ایسے فٹاکے مارتی گزرے گی ، اس کا رنگ بھی آنکھوں سے نا پکڑا جائے گا۔

لوہاری : نہ کر۔ پھر یہ مسافر کیسے پکڑے گے؟ میٹرو جیسے کاروباری قاتل اسٹیشن بنائے گے کیا؟

مزنگی: ارے! تم لوگ چھوٹے ذہنوں والے۔ میٹرو تو کچھ بھی نہیں ۔ یہ تو لوگوں کے جتھوں کو ایسے نگلتی جائے گی،

لوہاری: یہ مرزا تو کہتا تھا اپنا کاروبار کھا جائے گی۔ لوگ وہ خدا کے پچھواڑے سے بھلا گھوم کے کیوں میرے امبرشے کھانے آئے گے؟

مزنگی: مرزا پیدل بھی نہیں عقل سے۔ یہ جو درجنوں بھر لوگ اترے گے یہاں، اور یہ اپنے علاقے کی قیمتیں بڑھے گی بھائی۔

لوہاری: وہ دیکھ انو گجر آ رہا۔ ان رکشے والوں کی تو مت ماری جائے گی یار۔

مزنگی: صحیح ہے نا چھکن۔ جب جہاز بھاگے گا تو رکشے کی کیا کہانی۔ یہ ویسے ایک سواری سے پوری دیہاڑی مارنے کے چکر میں رہتے ہیں سالے۔ اپنی اورنج ان کے دماغ کھٹے کر دے گی۔ دس روپے میں شہر گھومو پیارے۔ یہاں سے ٹھوکر، ٹھوکر سے چوبرجی۔ بلے بلے۔۔۔

لوہاری: پر یہ چوبرجی جو گرے گی تو اپنے علاقے ، چوک اور روڑ کا نام کیا ہو گا؟ شہباز پورہ؟ شاہین آباد، مریم، حمزہ چوک، سریف ایونیو___ یا پھر اپنے یار سنگیتہ کے ہوٹل کے نام پر؟

مزنگی: سنگیتہ ٹی سٹال روڑ۔ ہاہاہاہاہا، کیسا بھونڈا لگے گا استاد۔

لوہاری: پھر چوبرجی کے بعد اپنے کبوتر دانہ کہاں کھائیں گے یار؟

مزنگی: بہتیری جگہیں ہیں بھائی، وہ تو کسی پلازہ کی نکڑ میں بھی جگہ ڈھونڈ لیں گے۔ ویسے بھی یہ عمارتیں اپنی عمر جی چکی ہیں اور اب بوڑھی عورتوں کی طرح اردگرد تانکا جھانکی میں لگی ہیں۔ جہاں اپنے یار نشئی پینے، سونگھنے اور سونے کی جگہ ڈھونڈیں گے وہاں کبوتر بھی جا پہنچیں گے۔ ویسے اب شہر کے فلائی اووروں کی ساری نچلی جگہیں پارکنگ تھوڑی نہ مانگتی ہیں۔ اپنا لہور سخی ہے استاد! ادھر روٹی، کپڑا اور مکان مفت ملتا۔ کیا خبر اپنی اورنج کے اسٹیشن بھی سرائے بن جائیں۔

لوہاری: پھر یہ اپنے سماجی انسانی کارکن دھاڑیں کیوں مار رہے؟

مزنگی: اوے بھولے بادشا! یہ وہی بات ہے۔ ُ کون عاشق خدا کی ذات کا ہے / سارا چکر معاشیات کا ہے۔ سماج محبت اور انسان تو ڈرامہ ہے ڈرامہ۔ یہ جو پیٹ ہے نا آگ ہے آگ۔ بڑے بڑے بہانے بنا لیتی ہے۔ آج کل ہر ویلا آدمی سماجی انسانی کارکن بنا پھرتا ہے۔ اپنی شیر سرکار تو دور اِن کو خالی مقبول کے منڈے کافی ۔

لوہاری: پر کہتے تو ٹھیک ہیں ۔یہ چوبرجی اپنی ثقافت تو ہے؟ اس کے گرنے سے اپنی ثقافت بھی کہاں بچنی؟

مزنگی: لے تو بھی اُن کی زبان بولنے لگا۔ یہ میڈیا سب کا ستیا ناس کر ڈالے گا۔ او بھائی! جینز پہن کے___ برگر کھا کے__ ان بوسیدہ عمارتوں اور بنجر باغیچوں سے کیا خاک ثقافت بچاو گے؟ اب ہماری ثقافت اپنی اورنج چیتی ہی ہے بس۔ دنیا تیز ہو گئی ہے دوست۔ اب جدید تقاضوں کے ساتھ بھاگنا پڑتا ہے۔ میں تو اس کے چلنے کے انتظار میں ہو ، بس پھر ہر جمعرات مرشد کے دربار میں حاضری ۔ بیس روپے میں مرادیں سچ ہو جائیں اور کیا چاہیے۔ (تیز مرادیں ، جیو تیز)

لوہاری: اب اپنی چاچی اللہ دتی جو روتی ہے۔اُس کا مکان بھی گرا۔ اتنے پیسوں میں اور کہاں مکان آنا تھا۔ اور ملا بچاری کو ایک روپیہ نہ۔ وہ عورت ذات کہاں دفتروں کی دھول چاٹتی؟ وہ تو کہتی ہے زیادتی ہے نری زیادتی۔ میں تو سرکار کے سامنے خودکشی کروں گی۔

مزنگی: اب بھلا سرکار ایک ایک بندے کو کہاں دیکھتی ہے۔ اور ویسے بھی سب سرکار کا ہے بھائی! سرکار کے پاس عوام کا طاقت ہے۔ اپنا بندہ ہو نشئی، پیسے کھا جائے دیور۔ پھر سرکار کا کیا دوش۔ عورت ذات ، مرد ذات کی کہانی نہیں رہی اب۔ اب تو دونوں ہی مشین ہیں۔ ATM جیسی۔ہاہاہاہا۔ سنگیتہ دو چائے استاد لوہاری کے کھاتے میں۔ اورنج چیتی ویسے اِن کا بہت لوہا پی رہی ہے۔

لوہاری: (ایک پیالی دو کپ میں سنگیتہ ، آدھار پہلے بہت ہے) اور یہ اپنا کرشنہ پرشاد کہاں چڑھائے گا اب؟

مزنگی: تو کہاں سے اٹھا کے لے آیا کرشنہ کو۔ او بھئی سن۔ اب ان دو ،چار لوگوں کے لئے اپنی ٹرین نہ چلائے کیا۔ جو لاکھوں لوگوں کو پرشاد بنا کے لائے گی۔ اور سینکڑوں جگہیں ہیں نا ان کے پرشاد چڑھانے کی۔ تو جائیں اور چڑھائیں۔ یہ جین مندر آخری ٹھکانہ تھوڑی تھا۔

لوہاری: یہ ستائیس کلو میٹر تو ہیں ، باقی شہر کا کیا؟

مزنگی: علی ٹاون سے بھاگے کی اپنی چیتی اور رکے گی آ کے ڈیرہ گجراں۔” ادھا لہور تے گھمائے گی“۔۔۔ اوے اور تو دیکھیں کہاں کہاں جاتی ہے،

 ابھی تو بننا شروع ہوئی ہے۔(گانا بڑا ٹائٹ ہے استاد وہ پارٹی شروع ہوئی ہے والا)

لوہاری: کہاں تک جائے گی، لاہور ہی رہے گی، سکھر تو جانے سے رہی۔

مزنگی: اوے مالٹے کے جیسے کھٹی ہے۔ ٹا (ذائقہ لینے کی آواز) کر کے اپنی مالٹی ایسے اڑے گی اور بس مالٹا جا کے لینڈ کرے گی۔ (کیسا نام ہے استاد مالٹا۔ کیسا ملک ہو گا)

لوہاری: ابے تمہارے نام بھی تو ایسے ہی ہیں۔ ییلو کیپ، اورنج لائن۔ اب بلو ٹرک چلاو بس۔ چائے آ گئی ۔او جیوندا رے سنگیتہ۔ شکریہ تیرا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).