اسلامسٹ بمقابلہ سیکولرازم


\"amirدو چار سادہ سوالات ہیں اور اتنے ہی سادہ اور واضح ان کے جواب ہیں، مگر چونکہ ان پر کھل کربات نہیں ہوتی، اس لئے کنفیوژن چل رہا ہے۔ایک سوال جو بار بار پوچھا جاتا ہے،سوشل میڈیا اور بعض ویب سائیٹس پر اس حوالے سے دھواں دھار بحث بھی چل رہی ہے کہ ریاست کو سیکولر ہونا چاہیے یا مذہبی یعنی اسلامی۔ کئی دوستوں کو یہ بات سمجھ نہیںآتی کہ آخراسلامی ریاست پر اتنا اصرار کیوں؟ بعض کو اس پر حیرت ہے کہ آخر اسلامسٹ کی اصطلاح کیوں استعمال کی جا رہی ہے ، کیا ان لوگوں کو جو ان کے حامی نہیں، انہیں غیر مسلم تصور کیا جا رہا ہے؟برادرم وجاہت مسعودجیسے صاحب علم بھی یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ رائٹسٹ کے ساتھ اسلامسٹ کیوںلکھا جا رہا ہے۔اسی طرح کئی لوگ بڑی معصومیت سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ لبرل ازم کو معاشرے میں رائج کرنا چاہیے۔جس کی مرضی ، جو کچھ کرے، کوئی کسی کو روکے نہ ہی کچھ کرنے کے لئے اصرار کرے۔ پچھلے دنوں ویلنٹائن ڈے کی بحث میں اچھے خاصے دین دار گھرانوں کے نوجوان بھی یہ بات کہتے پائے گئے کہ ویلنٹائن کے حوالے سے کسی قسم کی پابندی کے بجائے لبرل رویہ اپنانا چاہیے، کوئی منانا چاہے تو منا لے، نہ منانا چاہے تو اس سے دور رہے۔ اس پورے منظرنامے میںقابل ترس صورتحال روایتی مذہبی طبقے یا رائیٹ ونگ کی ہے۔ میڈیا میں ان کا مقدمہ پیش کرنے والا کوئی نہیں۔ ایسا کوئی نہیں جو سلیقے کے ساتھ، اعتدال اور توازن رکھتے ہوئے دلائل کے ساتھ ان کا نقطہ نظر واضح کرے۔ جو دو چار نوجوان جوش ایمانی سے اس پر قلم اٹھاتے ہیں، ان پردلیل کی جگہ جذبات غالب رہتے ہیں ۔
سب سے پہلے تو ان اصطلاحات کو واضح کر دینا چاہیے۔ ہمارے ہاںسیکولرازم کا ترجمہ عام طور سے لادینیت کیا جاتا ہے، ہمارے سیکولر دوست اس پر بڑا تلملاتے اور برہم ہوتے ہیں۔ ان کی دل آزاری کے باعث میں لادینیت کی اصطلاح استعمال نہیں کر رہا، یہ اور بات کہ سیکولرازم آخری تجزیے میں اسی جانب ہی لے جاتا ہے۔سادہ الفاظ میں سیکولر ازم سے مراد ہے کہ مذہب ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے،تاہم ریاست غیر مذہبی ہوگی اور حکومتی معاملات سے مذہب کو دور رکھا جائے گا۔ اس سارے معاملے میں سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ خدا اور تصور خدا ریاستی معاملات سے بالکل آﺅٹ ہوجاتا ہے۔ ایک سیکولر معاشرہ مذہب کو ہر ایک کا نجی معاملہ قرار دے کر اس میں مداخلت نہیں کرتا، یاد رہے کہ یہ اچھی سیکولرسوسائٹی کی بات ہو رہی ہے، ورنہ ترکی کے سخت گیر سیکولر اور عرب سپرنگ سے پہلے کے مصر، تیونس جیسے ممالک میں لوگوں کے لئے انفرادی طور پر بھی مسلمان رہنا مشکل ہوگیا تھا۔ ترکی میں لمبے عرصے تک مساجد کو تالے لگے رہے، ڈاڑھی رکھنے اور سر پر سکارف تک لینے کی اجازت نہیں تھی۔ایک اچھے یا مہذب سیکولر معاشرے میں کسی شہری کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کی جاتی ،مگر ریاست اپنے تمام قوانین ، ضابطوں اور اپنے نظریہ کی تمام تر بنیاد انسانی دانش اور قوانین پر رکھتی ہے۔ خدائی احکامات کسی سیکولر ریاست میںذرا برابر بھی اہم نہیں ہیں۔
ہماری تمام تر بحث چونکہ پاکستانی تناظر میںہور ہی ہے، مخاطب بھی پاکستانی ہیں، اس لئے ہم مقامی حوالوں کو اہمیت دیں گے ۔ رائیٹ ونگ یا رائٹسٹ ہونے کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ یہ اصطلاح فرانسیی انقلاب کے دنوں میں سامنے آئی ، بعد میں ان میں تبدیلیاں آتی رہیں۔ دنیا بھر میں رائیٹ ونگ سے مراد مذہبی سوچ رکھنے والے، قدامت پسندی یا روایتی اخلاقیات کو اہمیت دینے والے لوگ ہیں۔ مختلف ممالک میں یہ تقسیم مختلف ہے۔ جیسے امریکہ میں ری پبلکن پارٹی نسبتاً زیادہ مذہبی، قدامت پسند اورکسی نہ کسی حد تک اخلاقیات کی بات کرتی ہے، اس لئے امریکہ میں انہیں ایک طرح سے رائیٹ ونگ سمجھا جاتا ہے۔ ڈیموکریٹ ان کے برعکس بہت زیادہ لبرل، فرد کی آزادی کے بہت زیادہ حامی ، ہم جنس پرستی اور اسقاط حمل تک کی اجازت دینے کے حق میں ہوتے ہیں۔ بھارت میں بی جے پی کو ایک لحاظ سے رائیٹ ونگ پارٹی کہا جاتا ہے۔پاکستان میں یہ تقسیم بہت واضح ہے۔ یہاں پر رائیٹ ونگ سے مرادروایتی مذہبی طبقہ اور دینی سوچ رکھنے والا معتدل طبقہ ہے،جو اپنی روایتی اخلاقیات کو مغرب کی تہذیبی یلغار سے بچانے کی بات کرتا ہے، جو چاہتا ہے کہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کیا جائے، اس سسٹم کی خیر وبرکات لوگوں تک پہنچائی جائےں اور وہ معاشرہ تشکیل دیاجائے جو اللہ کو پسند ہے اور جس کی تلقین اللہ کے آخری رسول ﷺنے کی ہے۔ ہم رائیٹسٹ کو اسلامسٹ صرف اس بنیاد پر یہ کہتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہماری انفرادی اوراجتماعی زندگی کا محور خدا کی ذات ہونی چاہیے۔ یہ اسلامی ریاست کی بات کرتے ہیں، اسلامی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں اور مثالی اسلامی فلاحی معاشرہ تشکیل دینے کا خواب دیکھتے اور اس کی خاطر کوشاں رہتے ہیں ۔
اسلامسٹوں یا رائٹسٹوں کا مطالبہ بڑا سادہ اور آسان ہے۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ ایک فرد کی انفرادی زندگی تو مذہب اور خدا کے تصور ، اس کے احکامات کے گرد گھومتی ہے، اس کی اجتماعی زندگی،معاشرے ، حکومت اور ریاست کا محور بھی خدا ہونا چاہیے۔ اس سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ ملک میں پاپائیت قائم ہوجائے یا ہر ادارہ مولوی صاحبان کے حوالے کر دیا جائے ۔ دینی طبقہ اپنا کام کر رہا ہے، دین سیکھنا، دین سکھاناان کا کام ہے،وہ وہی کرتے رہیں گے۔ اسلامی ریاست کے تصور کو سمجھنا مشکل نہیں۔ ہر ریاست کچھ قوانین بناتی ہے، کچھ چیزوں سے وہ روکتی اور کچھ کی اجازت دیتی ہے، ہر جگہ کچھ (ont,s Do,s & D) ہوتے ہیں۔ اب سیکولر ریاست ان تمام کا منبع انسانی عقل ،تجربات اور دانش سے لیتی ہے۔ جبکہ اسلامی ریاست اپنے قوانین ، اپنے ڈوز ، ڈونٹس کی انسپائریشن اسلام سے لیتی ہے۔ خدائی احکامات اس کا منبع ہوتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی فرق ہے جو اسلامسٹوں اور سیکولرسٹوں کو الگ کرتا ہے۔اسلامسٹ خدائی قوانین پر اصرار اس لئے کرتے ہیں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انسانی دانش ، عقل غلطی کر سکتی ہے، دھوکہ کھاجاتی ہے، جبکہ خدائی احکامات کسی بھی قسم کی غلطی اور خطا سے پاک ہیں۔ وہ حتمی اور ہر زمانے کے مطابق درست ہیں۔ اسلامی ریاست اللہ کے قوانین کو اپنی عقل پر ترجیح دیتی ہے۔ جو چیزیں رب ذوالجلال نے حرام کر دیں، وہ کوئی ریاست حلال نہیں کرسکتی، اسی طرح حلال چیزوں کو کوئی حرام نہیں کر سکتا۔اسلامی ریاست مگر صرف حلال حرام کی بحثوں میں نہیں پڑی رہتی،ایسی ریاست کا بنیادی عقیدہ ہے کہ شہریوں کی فلاح وبہبود کا ماں کی طرح خیال رکھا جائے ۔ غیر مسلموںکے حقوق کا نہ صرف تحفظ بلکہ اس معاملے میں تو اصولاً ایثارکا مظاہرہ کرنا چاہیے اور مسلمان شہری اپنے کچھ حقوق کی قربانی دے کر اپنے غیرمسلم بھائیوں کا خیال رکھیں۔اسلامی ریاست میں کسی بھی صورت میں ظلم باقی نہیں رہ سکتا، اسلامی معاشرے کا مرکزی جز عدل اور انصاف ہے ۔
اب پاکستان جیسے ملک میں جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، ….یہاں حکمران اشرافیہ، بدعنوان ظالم انتظامیہ اور طاقتور استحصالی طبقات کی گٹھ جوڑ کی وجہ سے پورا نظام تباہ ہوچکا ہے، کرپشن ہر طرف پھیلی ہوئی ہے، غریب کو انصاف میسر ہے نہ جینے کا حق۔ مہنگائی اورناجائز منافع خوری روکنے والا کوئی نہیں، ہر جگہ میرٹ پامال ہوتا ہے اور مافیاز طاقت پکڑ چکے ہیں،…. ایسے معاشرے میں فطری طور پر دیگر خرابیوں کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرے کے بنیادی اجزا پر بھی پوری طرح عمل نہیں ہو رہا۔ ان تمام خرابیوں کی ذمہ داری ریاست کے مذہبی ہونے پر نہیں۔ نظام کی خامیاں خاص کر قانون کی عملداری نہ ہونا اس کا بنیادی سبب ہے۔ اس لئے مذہبی سوچ رکھنے والوں کونئے فتنے پیدا کرنے کے بجائے اپنی بہترین صلاحیتیںاسلامی معاشرے کی تشکیل پر صرف کرنی چاہئیں، جبکہ سیکولر سوچ رکھنے والوں کو سیکولر ریاست کا خواب دیکھنے کے بجائے ریاستی نظام کی بہتری ، اس میں اصلاحا ت لانے پر توجہ دینی چاہیے۔پاکستان پچانوے فیصد سے زیادہ مسلم اکثریت رکھنے والا ملک ہے، جہاں کی بیشتر آباد ی دینی معاملات میں بے حد جذباتی ہے، نماز ، روزہ پڑھنے والے نہ بھی ہوں، تب بھی حرمت رسول ﷺپر وہ کٹ مرنے کو تیار رہتے ہیں۔ ایسی جگہ سیکولر ازم قطعی نہیں آ سکتا، ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی رہے گا، سیکولر بنانے کی کوشش صرف اور صرف شدت پسندمذہبی تعبیر رکھنے والوں کو تقویت پہنچاتی ہے۔ اپنی شناخت کا خوف انہیں مزید بنیاد پرستی پر اکساتا ہے۔ اس لئے اب ریاست کی ہئیت طے ہوچکی، اس کا نظام ٹھیک کرنا چاہیے، تمام توانائیاں اس سمت لگانا ہوں گی۔ اسے ہدف بنانا چاہیے، اگر ایسا ہوسکے توپھر سیکولروں اور اسلامسٹوں میں مشترکہ جدوجہد کے نکات طے ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
10 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments