فنکار کے مکان کو…. ایک دھکا اور دو


کل اپنے ایک محب صادق نے پشتو کے شہرہ آفاق مگر مفلوک الحال فنکار کی جائیداد پر ایک بااثرمذہبی شخصیت کے دل آنے کی خبر شیئر کی ، ہم نے تحقیق کیلئے فون کیا، معاملے کی چھان بین کرنا تو پولیس کا کام ہے، ہم نے سوجھ بوجھ کی حد تک پوچھا، بتایا گیا کہ موصوف کا ایک عدد مکان جو ڈیری فارم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، پر ایک مولانا صاحب کا دل آگیا ہے۔ وہ گندگی اور مچھروں کے اس کارخانے سے عوام الناس کو چھٹکارا دلانے کے عظیم مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اس خطہ زمین کو آزاد کرانا چاہتے ہیں اور اسے اعلیٰ تعلیمی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کے خواہاں ہیں لیکن فنکار صاحب اس کار خیر میں حائل ہیں، اڑے ہوئے ہیں، اسے اپنی منقولہ جائیداد بتانے کی جرات کر رہے ہیں۔

پہلے امام صاحب نے دینوی و اخروی فوائد کی روشنی میں ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کی، وہ نہ مانے، اس کے بعد امام صاحب نے اپنے شاگردوں کی مدد سے فنکار موصوف کے ہاں مراسلہ پہنچایا، وہ پھر بھی نہ مانے، پھر انہوں نے ایس ایچ او کی مدد لی، اور یوں موصوف کے بیٹے کو گرفتار کیا گیا۔ آخری خبر آنے تک مولانا اور شاگردوں کی جانب سے پیار بھری کونسلنگ اور تبلیغ (دھونس دھمکی) کا سلسلہ جاری ہے، ریاست دور خندہ زن کھڑی ہے کیونکہ زمیوں اور لہو لعب پھیلانے والوں کی املاک پر قبضہ جمانا ایک احسن مذہبی فریضہ ہے۔ اسے سر انجام دینے میں دینی اور اخروی فوائد جو چھپے ہوئے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آخر یہ کس نوعیت کا سماجی رویہ ہے اور کیا یہ ایک استثنائی واقعہ ہے؟ اگر گننا شروع کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ اس طرح کے واقعات کے پیچھے سماجی جواز اور مخصوص انداز فکر کی ٹھوس ثقافتی بنیادیں عمل پیرا ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی کے پے درپے واقعات کے تجزیے سے کم ازکم اس امرکی وضاحت ہوجاتی ہے کہ جہاں غیر مسلم شہریوں کے حقوق غضب کرنے ، ان کی املاک پر ہاتھ صاف کرنے اور انہیں زبردستی مسلمان بنانے کا عمل جاری رہتا ہے ، ہزاروں غیر مسلم خاندان پاکستان کو خیر باد کہہ کر مہاجرت اختیار کر چکے ہیں وہاں مخصوص محکوم زبانوں اور کلچر کے فنکاروں خصوصاً گلوکاروں کی ذات اور املاک کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ فنکار کس طرح جیتے ہیں، ان کے فن کا سورج کب طلوع ہوا، کب غروب ہوا، مفلسی نے کب سے بال کھول کر ان کی دیواروں پر سونا شروع کیا، ایسے تکلیف دہ سوالات ہیں جس پر بہت کم لکھاریوں، میڈیا چینلوں ،انسانی حقوق کی تنظیموں، اور زبان و کلچر کی بقا کے اداروں نے غور وخوض کیا ہے۔

جہاں تک ریاستی اداروں کے کردار کا تعلق ہے تو اس حوالے سے مکمل خاموشی اور پوری رضامندی کا معاملہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ریاستی مشینری میں جب زبان ، زمین اور مذہب کے امتیاز کا زہر حلول کرجاتا ہے تو وہ اپنے ہی لوگوں کو چپ کرانے کی ٹھان لیتی ہے۔ ریاست ایک قبائلی فرد کے اخلاقی اصول اپنا لیتی ہے جو مردانگی کی کسوٹی پرتمام حقیقتوں کو پرکھتا ہے۔ فن سے الفت اور فنکار سے بغض ایک ایسا پیچیدہ قبائلی رویہ ہے جو آہستہ آہستہ قبائلی سماج سے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ریاست کی روح میں حلول کرتا جا رہا ہے۔

اب حالت یہ ہے کہ ایک کامیاب فنکار کو اگر اپنی بقیہ زندگی عزت اور وقار سے گزارنی ہو تو سب سے پہلے وہ توبہ کرے، اپنے گزشتہ کام کو عبث، گناہ اور کفر عظیم بتائے، اس کے ساتھ تبلیغ پر چلے کاٹے، اور اپنے پیچھے آنے والوں کو لہو ولعب سے بچنے کی تلقین کریں۔ اس صورت میں وہ ایک نئے ستارے کی مانند سماج کے افق پر نمودار ہو جاتا ہے۔ رشد و ہدایت کا ایک مینار تصور ہوتا ہے اور اس کے چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس غریب یا متوسط طبقے کے جو فن کاراور آرٹسٹ اپنے کام سے وابستہ رہ کر اس کو آگے بڑھانے کیلئے سرگرم عمل رہتے ہیں ان کیلئے سماجی طور پر اپنے کام اور ہنر کا جواز پیش کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ وہ سماجی کہتری اور معاشی ابتری کی دہری چکی میں پستے ہیں، مفلوک الحال بنتے ہیں اور اپنے پیش روﺅں کیلئے یہی مثال چھوڑ جاتے ہیں کہ فن اور آرٹ کے رکھوالوں کی زندگی کا انت دنیاوی عذاب سے تو بھرپور ہوتا ہے، اور زندگی کے بعد کا انجام بھی کوئی تسلی بخش نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).