بھٹو اور سرگودھا کے مقتول


 یہ  1979 کی گرمیوں کی ایک رات تھی۔ احمد پور سیال میں گرمیوں کی راتیں خاصی خوشگوار ہوتی تھیں۔ کھُلے آسمان تلے رات دیر گئے تک ہونے والی گپ شپ آج بھی یادوں میں شہد گھولتی ہیں۔ بھٹو صاحب کی پھانسی ابھی چند مہینے قبل کا قصہ تھی۔ گفتگو یہ تھی کہ بھٹو صاحب کیا واقعی اس سزا کے مستحق تھے۔ ایسی گفتگو کبھی بھی ایک نکتے پر مرکوز نہیں رہتی۔ ظاہر ہے یہ گفتگو کسی عدالت میں نہیں ہو رہی تھی۔ پھیلتے پھیلتے گفتگو کا دائرہ بھٹو ، اُن کی ذات، ان کی سیاست۔ اور ان کی غلطیوں تک پہنچ گیا۔ دور کی ایک چارپائی پر گائے اور بھینسوں کی خدمت پر مامور ایک صاحب تشریف فرما تھے، جنہیں اس ساری عالمانہ گفتگو میں درخوراعتنا نہیں سمجھا گیا مگر وہ خاموشی اور توجہ کے ساتھ اس گفتگو کو سن رہے تھے۔ اچانک گویا ہوئے اور کہنے لگے مجھے نہیں پتا بھٹو نے کیا صحیح کیا اور کیا غلط۔ مگر مجھے ایک بات کا پتا ہے میں غریب ہوں یہ بات مجھے سب سے پہلے بھٹو نے بتائی تھی۔ میں نے جھنگ میں اس کی تقریر سنی تھی اس میں اس نے مجھے یہ بتایا کہ میں غریب ہوں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ میری غربت کا ذمہ دار کون ہے مگر میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی لیکن اس نے یہ کہا تھا کہ اس غربت سے نکلنے کے لئے مجھے خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔

اب ذرا ایک اور منظر دیکھیئے ، لاہور میں مردم شماری کرنے والی ٹیم پر خود کش حملہ بدھ کی صبح کو ہوا۔ شام میں ٹی وی پر ٹاک شوز کی دوکانیں سجیں اور گفتگو چھڑی اس خود کش حملے پر۔۔ ایک دفاعی تجزیہ نگار ، ایک حکومتی عہدیدار اور ایک سیاسی پارٹی کی سیاستدان گفتگو فرما رہے تھے اور نکتے کی بات یہ کی کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں عوام شریک نہیں ہیں ۔

پاکستان میں ہونے والے خود کش حملوں پر سائینسی مجلوں اور ”ہم سب“ پر شائع ہونے والی اپنی تحریروں میں یہ بات گزارش کر چکا ہوں کہ عوام کسی بھی جنگ میں صرف اس وقت شریک ہوں گے جب ان کو یہ پتا چلے گا کہ یہ دہشت گردی کون کر رہا ہے۔ اور کیوں کر رہا ہے۔ گذارش کر چکا ہوں کہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے کہ جہاں لاکھو ں انسانوں کے قتل کے باوجود بصیرت (INSIGHT) کے یہ دروازے ہم جیسے عامیوں کے لئے نہیں کھلے کہ ہمارا قاتل کون ہے۔ وہ ہمارا دشمن ہے یا بھائی۔۔۔۔۔ اور اگر دشمن ہے تو اس سے ہماری دشمنی کیا ہے۔۔۔۔ وجہ نزاع کیا ہے۔۔۔۔۔آج کی تاریخ تک ہم ایسے عامی ان سوالوں کے جواب نہیں رکھتے۔ کیا خواص بھی نہیں جانتے؟ ایسا سوچنا یقیناً غلط ہے خواص جانتے ہیں۔ جب خواص کو جانتے ہیں تو عوام اس بصیرت سے کیوں محروم ہیں روزانہ دہشت گردوں کی ہلاکت کی خبر سنانے والے عوام کو ان کی شناخت اور وابستگیوں کے بارے میں مطلع کیوں نہیں فرماتے ۔۔۔۔۔۔۔ عوام اگر دشمن کے بارے میں بصیرت ہی نہیں رکھتے تو پھر کس دشمن کے خلاف عوام سے صف آرا ہونے کا کہا جا رہا ہے۔

اب ذرا احمد پور سیا ل کے اس فرد کی گفتگو یاد کیجئیے جس کو اُس کی غربت کی بصیرت چار اپریل کو پھانسی پر جھولنے والے نے دی تھی۔ اور یاد کیجیے اُن لاکھوں انسانوں کو جو تاریک راہوں میں یہ جانے بغیر مار ڈالے گئے کہ ان کا قاتل کون اور وجہ قتل کیا ہے۔ تعزیت کیجئیے اُن خاندانوں سے جن کے مقتولین گومگو کے عالم میں یہ سوچ رہے ہیں کہ اُن کے پیاروں کے قاتل شہادت کے کس درجے پر فائز ہوں گے۔

یہ طالب علم بہ صد اصرار اس بات کو دوہراتا ہے کہ قوموں کی زندگی میں یکسوئی کی بنیاد بصیرت پر استوار ہوتی ہے۔ جو پاکستانی قوم میں مفقود ہے۔ حالات اور واقعات کی نبض سمجھنے والی بہادر قیادت وہ بصیرت فراہم کرتی ہے۔ میں سیاست کا طالب علم ہونے کا دعوی بھی نہیں رکھتا۔ مجھے احمد پور سیال میں گائے اور بھینسوں کی خدمت پر مامور فرد کی طرح یہ بھی معلوم نہیں کہ پاکستان بھٹو کی وجہ سے ٹوٹا یا مجیب الرحمان کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے۔۔ مجھے نہیں معلوم نوّے ہزار قیدی بھٹو چھڑوا کر لایا یا اندراگاندھی نے خود تنگ آکر چھوڑ دئیے۔ مجھے یہ بھی نہیں پتا نہیں تھا کہ جمعہ کی چھٹی کر کے۔ مولانا مودودی کے گھر جا کر ۔ شراب پر پابندی لگا کر ۔۔ قادیانیوں کو کافر قرار دے کر ۔۔۔ایٹم بم بنا کر یا بنگلہ دیش کو تسلیم کرکے بھٹو نے کوئی اچھا کام کیا یا بُرا ۔۔۔۔ یقین مانئیے نفسیات کے ایک طالب علم کے طور پر مجھے اس سے بھی غرض نہیں ہے۔ بھٹو نے  1977 کے الیکشن میں دھاندلی کروائی تھی یا نہیں۔۔ تحریک نطامِ مصطفیٰ کو سی آئی اے نے کتنا اور کیسا تعاون فراہم کیا تھا۔ بھٹو نے افغانستان کے معاملے پر امریکہ کے منصوبے پر تعاون سے کیوں ہاتھ کھینچ لئے تھے۔۔۔ نکسن نے بھٹو کو کوئی دھمکی دی تھی یا نہیں۔۔۔بھٹو ارسٹوکریٹ تھا، مغرور تھا۔ اپنے ساتھیوں کو اور ان کے مشوروں کو برداشت نہیں کرتا تھا ان کو دلائی کیمپوں میں ڈلواتا تھا۔۔۔جب اس کا تختہ اُلٹ گیا تو اس کی جیلوں میں کتنے سیاسی قیدی تھے۔۔۔یہ سب باتیں سچ بھی ہو سکتی ہیں اور جھوٹ بھی۔۔لیکن بھٹو سے پہلے اور بھٹو کے بعد آج تک کسی سیاسی لیڈر نے احمد پور سیال کے مویشیوں کے راکھے کو یہ سمجھایا کہ تم غریب ہو اور تم ہی اپنے نجات دہندہ بھی ہو۔۔۔غریب کو اس کی غربت کی بصیرت اس نے اس طرح فراہم کی کہ جو آج یہ قوم لاکھوں انسانوں کا خون بہہ جانے کے بعد بھی حاصل نہیں کر سکی۔

بھٹو نے بتایا کہ اسلام ہمارا مذہب ہے۔۔ اور سوشلزم ہماری معشیت ۔۔۔مٹی ڈالئے اور لعنت بھیجیے سوشلزم پر۔۔۔مگر اس نے ایک تو یہ بتایا کہ ہمارا مذہب اسلام ہے۔ اس پر ہمیں کوئی شرمندگی اور اس کے علانیہ اظہار پر ہمیں کوئی تامّل نہیں ۔ دوسرے یہ کہ ہماری خراب معشیت کا کوئی تعلق ہمارے مذہب سے نہیں ہے۔ میری اس بات پر یہ تبصرہ نہ فرمائیے گا کہ اس نے سوشلزم پر کتنا عمل کیا۔ میں صرف اس بصیرت کی بات کر رہا ہوں جو اس کے مقبول ترین نعروں سے کشید ہوتی ہے۔۔۔

مذہب اور معشیت اگر الگ ہو پاتے اور یہ آدھے تیتر اور آدھے بٹیر والا معاملہ نہ ہوتا۔ تو آج معشیت کہاں ہوتی۔ اس کا جواب ماہرینِ معشیت سے مانگئیے لیکن میں آپ کو یہ بتاتا ہوں کہ مذہب کے نام پر چلنے والی معشیت ضرور بند ہو جاتی۔ مجھے ایسے کم علم سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ آپ کو مذہب کے نام پر چلنے والی صنعتوں اور ان کی تفصیلات فراہم کرے گا۔ ایک معروف دانشور نے دو صنعتوں کی نشاندہی اپنے ایک حالیہ مضمون میں فرمائی ہے۔۔۔ایک مذہبی مدرسے اور دوسری خانقاہیں۔۔ دونوں جان کی قیمت پر نجات آخروی بیچتے ہیں۔۔۔ایک جگہ خود کش بمبار تیار کیے جاتے ہیں اور دوسری جگہ خاموشی سے زیادتی برداشت کرنے والے عقیدت مند۔۔۔۔خریدار دونوں جگہ الگ ہے۔۔۔۔غریب۔۔۔ جس کو یہ نہیں پتا کہ وہ غریب ہے۔۔۔جس کو یہ نہیں پتا کہ وہ غریب کیوں ہے۔۔۔اور جس کو یہ بھی نہیں پتا کہ غربت کا علاج نہ مدرسے میں ہے اور نہ ہی خانقاہ میں ۔۔۔ مُلاّ کی گردانیں اور پیر کے وِرد نہیں غریب کی اپنی جدوجہد غربت کا مداوا کرے گی۔

اب آئیے معاملے کے ایک اور پہلو پر نظر ڈالتے ہیں۔۔امریکہ ، مغرب اور ان کی سازیشیں۔۔۔کون سی ایسی سیاسی گفتگو ہے جو ان نکات پر منتج نہ ہوتی ہوں۔ جس طرح ساتویں بحری بیڑے کا انتظار ہوتا تھا۔ اب اسی طرح سی پیک منصوبے کی تکمیل کی منتظر نگاہ ۔۔۔۔ احمد پور سیال کے غریب کی طرح اس غریب ملک کو کون یہ بتائے گا کہ غریب کی غربت ، غریب کے علاوہ کوئی اور دور نہیں کر سکتا۔

کوئی دفاعی تجزیہ نگاروں کو یہ سمجھائے گا کہ دشمن کے بارے میں بصیرت کے بغیر قوم کسی جنگ میں شریک نہیں ہوگی۔ مدرسے میں تعلیم پانے والے اور خانقاہوں سے خوشحالی مانگنے والوں کو کون یہ بتائے گا یہ جگہیں صنعتیں ہیں۔۔یہ دوکانیں ہیں۔۔یہ کاروبار ہیں۔ ان دوکانوں پر جانے والوں کو یہ تو پتا ہے کہ قیمت کیا ہے مگر اس قیمت کے عوض ملے گا کیا یہ نہیں معلوم۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).