حقائق سازی اور قطبی رویے


2012 میں مجھے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے فون کیا کہ آرمی چیف، جنرل اشفاق کیانی مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ مجھ جیسا ایک کالم نگار، جو ہمیشہ اس آئینی اصول کو مقدم سمجھتا اور اسی کی وکالت کرتا رہاہو کہ پاکستان میں عسکری اداروں پر سویلینز کا کنٹرول ہونا چاہیے ، کا پریشان ہوجانا فطری بات تھی۔ ایک مرتبہ پہلے بھی مجھے آئی ایس آئی نے بلاکر میرے کالم ”خاکی مائنڈ سیٹ “ پر میری تصیح کی تھی۔اس خوش فہمی ( یا غلط فہمی؟)کا شکار ہوتے ہوئے کہ میرے کالم اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، اور قدرے خوفزدہ بھی کہ شاید میری کسی تحریر نے اہم اور طاقتور افراد کو ناراض کردیا ہو، میری پہلی سوچ کسی طور پر اپنا تحفظ کرنے کی تھی۔

وہ ہفتے کی رات تھی۔ میں نے فوراً ہی ایک قابل ِ اعتماد دوست کو فون کرکے مشورہ چاہا۔ ا±س نے مجھے جانے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ میں کچھ دعائیں پڑھتا ہوا آرمی ہاﺅس کی طرف چل پڑا۔ جنرل باجوہ وہاں موجود تھے۔ میرے علاوہ کسی اور کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ میں میٹنگ کا ایجنڈا بھی نہیں جانتا تھا۔ جنرل کیانی آئے ، اور میں آرمی چیف سے پہلی مرتبہ مل رہا تھا۔ ا±ن کا انداز دوستانہ تھا۔ ابتدائی رسمی کلمات کے بعد ا±نھوںنے سگریٹ سلگایا اور مجھے کہا کہ میں بے تکلفی سے جو چاہے پوچھوں۔ بے تکلفی کے ماحول میں ہم نے پاکستان کو درپیش مختلف چیلنجز پر بات چیت کی۔

مجھے بعد میں پتہ چلا کہ بلائے جانے کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی، جنرل کیانی صحافیوں اور کالم نگاروں کو مدعوکرکے رات گئے تک بات چیت کرتے رہتے تھے۔ میں اس میٹنگ کا احوال پانچ سال بعد لکھ رہا ہوں۔ ا±س سال کے اختتام کے قریب بہت سی سیاسی جماعتیں ابھریں، پھر 2013 ئ کے عام انتخابات ہوئے ، اور ا±س وقت تاثر عام تھا کہ پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔ یہ تاثر بھی یادداشت کا حصہ ہے کہ ناقدین کے مطابق جنرل کیانی اورخاکی وردی پوش عمران خان کی کامیابی چاہتے تھے۔ میں نے میٹنگ کے دوران ”رضاکارانہ مشورہ “دیا تھا کہ بہتر ہوگا کہ انتخابات میں کوئی حلقہ اپنی خواہشات کی بجاآوری کے لئے مداخلت نہ کرے۔

نعیم الحق کے الزامات ، کہ جنرل کیانی نے امریکہ اور ایک برادرعرب ملک کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی کی انتخابی کامیابی کو چرا کر پی ایم ایل (ن) کی جیب میں ڈال دیا، کے جواب میں لیفٹیننٹ جنرل طارق خان کے جواب، جو فیس بک پر بہت زیادہ گردش میں رہا، نے میرے 2012 کی اس میٹنگ کے دوران حاصل ہونے والے تاثر کی تصدیق کردی۔ جنرل طارق، جو 2013 ء میں کورکمانڈر تھے، لکھتے ہیں۔۔۔”اگر فوج کوئی دھاندلی کرتی تو اس کے لئے مجھے کہا جاتا، اور مجھے اس کاذمہ دار ٹھہرایا جاتا۔ آرمی چیف کوکسی سیاسی جماعت اور اس کے مایوسی کے شکار کارکنوں کے بے سروپا الزامات کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پوری ذمہ داری سے کہتاہوں کہ فوج نے کوئی دھاندلی نہیں کی تھی۔“

ناقدین کو اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کو خاکی وردی پوشوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔ چاہے دھرنے نمبر 1 کے پیچھے کوئی خفیہ ہاتھ یا نہیں، کچھ حلقوں کی یہ خواہش ضرور تھی کہ یہ کامیاب ہوں۔ جنرل طارق خان اپنی پوسٹ کے اختتام پر کہتے ہیں۔۔۔”میں جس سیاسی جماعت کی تھوڑی بہت عزت کرتا تھا، وہ پی ٹی آئی تھی، لیکن اس نے یکے بعددیگرے احمقانہ قدم اٹھاتے ہوئے خود کو نقصان پہنچالیا۔ اب مجھے اس کی بابت خوش فہمی دور ہوچکی ہے۔ آخری الزام کو نظرانداز نہیں کیا جائے گا۔ اس جماعت نے سات ملین افسروں اور جوانوں کی حمایت کھو دی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی ا?ئی کی حماقت اس کی احمقانہ بیان بازی میں اضافہ کرتی ہے۔ “

ہوسکتاہے کہ جنرل طارق کی پیش گوئی سچ ثابت نہ ہو، لیکن نعیم الحق کے الزامات کو”ذاتی رائے “ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہوسکتا ہے کہ انہیں اس تازہ ترین ساز ش کے انکشاف کا پارٹی میمو نہ ملا ہولیکن یہ رویہ اس کلچر کا اظہار ہے جو پی ٹی آئی نے پروان چڑھایا ہے۔ اس کلچر میں الزام تراشی کو حقائق کی محتاجی نہیں ہوتی۔ متبادل حقائق کا بزنس (ٹرمپ کے امریکہ کی طرح ) پاکستان میں بھی بہت مقبول ہورہا ہے۔ اس کی غیر معمولی اٹھان کے سامنے ٹھوس ثبوت پر مبنی حقائق کی مارکیٹ ویران ہورہی ہے۔ آپ کو اپنے الزام کے ساتھ صرف اتنا کہنا ہی کافی۔۔۔”حتیٰ کہ بچوںکو بھی یہ معلوم ہے “، اور اس کے بعد کسی تصدیق یا ثبوت کی حاجت نہیں رہتی۔

متبادل حقائق کی تخلیق کا دوسرا طریقہ تسلسل سے دہرانے کا عمل ہے۔ اگر آپ کسی الزام کو مسلسل دہراتے رہیں، تو وقت گزرنے کے ساتھ اسے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس نئے مقبول ِعام کلچر کا شکار ایک طور اداروں کی ساکھ ہے اور دوسرا افراد کی عزت۔ اب تصورات پر بحث کرنا اور یہ دیکھنا کہ کیا یہ درست ہیں یا غلط، ممکن نہیں رہا کیونکہ سب سے پہلے تصورات کے حامل شخص کے ”عزائم “ کی جانچ کی جاتی ہے۔ اس جانچ کا ہمارے ہاں التباسی طریق کار مروج ہے ، اور اسے ثبوت کی بیساکھیوں کی حاجت نہیں۔ ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کسی بیرونی محرک یا مذموم مقاصد کے بغیر بھی کوئی شخص اس دنیا میں سانس لے سکتا ہے۔ کوئی بھی آپ کی کردار کشی کے لئے آزاد ہے ، اور آپ اس کی تلافی کے لئے کچھ نہیں کرسکتے۔ آپ الزامات کی تردید کر سکتے ہیں، قانونی نوٹس بھجوا سکتے ہیں ، ہتک ِعزت کا دعویٰ کرسکتے ہیں، الغرض آپ جو مرضی کرلیں، یہ بطخیں اپنے پروں پر پانی کبھی نہیں ٹھہرنے دیں گی۔ ایک مرتبہ آپ سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا کی ز د میں آگئے تو سمجھ لیں آپ کے شخصی وقار کا جنازہ نکل گیا۔ اگر آپ کو عدالت کی طرف سے کلین چٹ بھی مل جائے تو بھی یہ تاثر زائل نہیں ہوگا کہ الزامات تو درست تھے لیکن عدالت کے پیش ِ نظر کچھ دیگر عوامل ہوںگے۔ اگرچہ عدالت نے حامد سعید کاظمی کو بدعنوانی کے الزامات سے بری کردیا ہے ، لیکن کیا کوئی انہیں بے گناہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہے؟

بے داغ ساکھ رکھنے والے ایک چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم ہونے والے جوڈیشل کمیشن نے پی ٹی آئی کے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کی سماعت کی ، اور پیش کئے گئے طویل ریکارڈکا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ 2013 ء کے عام انتخابات کے دوران منظم دھاندلی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ لیکن کیا کمیشن کے فیصلے کے بعد یہ تنازع ختم ہوگیا؟اگر ہم اپنے اداروں کی ساکھ کو مجروح کرنا اپنا شعار بنائے رکھیں گے تو پھر ریاست کے اندر پید اہونے والے تنازعات کے حل کے لئے کس کی طرف رجوع کریںگے ؟ اس وقت تک انتخابی اصلاحات نہیں ہوپائی ہیں ، اور جب الیکشن کمیشن بھی داغدار بنادیا جائے اور عدلیہ پر بھی مکمل اعتماد نہ کیا جائے تو پھر ملک کیسے چلے گا؟ ہم صرف وہ فیصلے تسلیم کرتے ہیں جو ہمارے حق میں ہوں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھرعدالت میں جانے کی کیا ضرورت ہے ؟ہم اس بات کو کیسے یقینی بنائیں گے کہ 2018 ء کے انتخابات کے نتائج تسلیم کئے جائیں ؟

بے شک ہمارے اداروں سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں۔ماضی میں عدلیہ نے ا?مروں کی توثیق کی ، فوج نے سیاست میں مداخلت کی ، حساس ادارے الیکشن کے نتائج پر اثرانداز ہوئے (اصغر خان کیس )۔ ادارے بے خطا کہیں بھی نہیں ہوتے، کیونکہ انسانوں کی دنیا میں انہیں انسان چلاتے ہیں، اور انسانوں سے غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ ضروری ہے کہ پالیسیوں اورکارکردگی پر تنقید کی جائے ، لیکن کیا یہ کہنا مثبت اور تعمیر ی تنقید ہے کہ ہمارے اہم ادارے بیرونی طاقتوں کے ہاتھو ںمیں کٹھ پتلی ہیں؟ یہ رویہ دراصل خود کو مظلوم ثابت کرتے رہنے کے بعد پختہ ہوجاتا ہے ، اور پھر اس سے جان چھڑانا مشکل ہوجاتی ہے۔ ا?پ جتنا سوچیں گے کہ بیرونی ہاتھ ا?پ کو کنٹرول کررہے ہیں، ا?پ اتنا ہی فکری زنجیروں میں الجھتے جائیں گے ، یہاں تک کہ ا?پ کو احساس ہوگا کہ پوری دنیا اپ کے خلاف ساز ش کررہی ہے اور ا?پ پر تنقید کرنے والے تمام افراد بیرونی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں۔

پاکستان میں بہت سے لوگوں کو یقین ہے کہ نیویارک کے یہودیوں کو نائن الیون حملوں کا قبل از وقت علم تھا۔ بہت سوں کو یقین ہے کہ اسامہ بن لادن نامی شخص کا کوئی وجود نہیں تھا۔ اگلے ہی سانس میں وہ کہتے ہیں کہ وہ مغرب کا ایجنٹ تھا۔ حقائق سے مبرا معاشرہ احتساب کی ضرورت سے بھی بے نیاز ہوتا ہے۔ ہمارے قطبی رویے حقائق کی حاجت سے بے نیاز ہوچکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بابر ستار

بشکریہ روز نامہ جنگ

babar-sattar has 43 posts and counting.See all posts by babar-sattar