بیوی محبوبہ کیوں نہیں ہو سکتی؟


پچھلے دنوں ایک تحریر نظر سے گزری عنوان تھا ’میں اب ایک ماں ہوں محبوبہ نہیں بن سکتی‘۔یہ خاوند کے نام لکھا گیا ایک وضاحت نامہ ہے جو ایک ذمہ دار ماں اور بیوی نے لکھا ہے ایک ایسی خاتون جو اپنے آپ کو گھریلو زندگی کے لیے وقف کر چکی ہے صبح سے شام تک گھریلو ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں مصروف رہتی ہے۔کھانا بنانا ،کپڑے دھونا،گھر صاف رکھنا ،خاوند کے کھانے ،پینے آفس جانے کا خیال رکھنا، بچوں کی دیکھ بھال کرنا اور ایسے ہی ہزاروں چھوٹے چھوٹے کام جو گھریلو عورت کی ذمہ داری کے زمرے میں آتے ہیں سب کو سر انجام دینے میں وہ کہیں اپنی ذات کو بھی بھلا چکی ہے۔ان سب کاموں کو کرنے کے بعد وہ اتنا وقت نہیں پاتی کہ خود پہ توجہ دے سکے ،خود کو بنا سنوار سے اور لپ اسٹک ،کاجل لگا کے شام کو ’تھکے ہارے ‘’خاوند کو خوش کرنے کے لیے مسکرا کے استقبال کر سکے اس کی بجائے وہ کام کی زیادتی کی وجہ سے سر درد اور چڑچڑے پن جیسے مسائل کا شکار رہتی ہے۔

اپنے خاوند کی شکر گزار ہے کہ وہ اس جیسے ’پرزہ بےکا ر‘ کی ادویات پہ خرچ کرتا ہے۔ساتھ ہی بہت شرمندہ ہے کہ وہ اس عظیم شخص کے لیے کچھ نہیں کر پاتی ،اسے وقت نہیں دے سکتی، بن سنور کے باہر نہیں جا سکتی، اونچی ہیل پہن کے اور سموکی میک اپ کر کے گلیمرس نہیں لگ سکتی۔اس لیے وہ محبوبہ کہلانے کے قابل نہیں ہے وہ اب وہ خوبصورت لڑکی نہیں رہی ہے جو شادی سے پہلے خاوند کی محبوبہ تھی بلکہ ایک بھدی، ذمہ دار عورت بن چکی ہے جو محبت کی تقسیم میں بچوں کو مقدم رکھتے ہوئے اس لڑکے کو بھلا چکی ہے جو شادی کے بعد بھی وہی لڑکا ہے جسے ایک حسین بے فکری لڑکی کا ساتھ درکار ہے۔

تحریر پڑھتے ہوئے بہت سے سوالات ذہن میں ابھرے ،ساتھ ہی معاشرے کا عورت کے حوالے سے تصور اور خود عورت کا اپنے مقام کا تعین بھی سامنے آیا۔گھر سماج کی اکائی ہے جس کو بنانے میں مرد اور عورت دونوں برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں۔اسے بنانے میں اور خوشحال رکھنے کے لیے دونوں کے حقوق اور فرائض ہیں۔ ایک گھریلو عورت اپنا تمام وقت گھر پہ صرف کرتی ہے صبح آنکھ کھلنے سے رات سونے تک اس کا ذہن اپنے امور کی انجام دہی کے خیالات سے جکڑا رہتا ہے وہ اپنی زندگی کا ہر پل اپنے خاوند اور بچوں پہ صرف کرتی ہے۔کیا یہ سب کرنے کے لیے اسے کوئی معاوضہ ملتا ہے؟جواب نہ میں ہے۔پھر وہ کون سی قوت ہے جو اسے متحرک رکھتی ہے اس کے لیے کام کرنے کا محرک ہے؟جواب ہے محبت ،وہ بے لوث محبت جو اسے اپنے خاوند اور بچوں سے ہوتی ہے جس کے بدلے میں وہ اپنے منہ سے کچھ طلب نہیں کرتی۔لیکن انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ محبت کا جواب محبت سے ملے۔لیکن دنیا کی مصروفیت اور کمانے کے چکر میں خاوند یہ بات بھول جاتا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ محبت کے اظہار کو غیر ضروری سمجھتا ہے کہ وہ سارا دن کام کس لیے کرتا ہے محبت میں ہی کرتا ہے تو کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔

گھر میں کوہلو کا بیل بنی عورت کو تعریف بھی کم ہی سننے کو ملتی ہے کیونکہ اس کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے عمل کو طے شدہ بات سمجھا جاتا ہے۔ ان تمام تر کاموں کے باوجود عورت کا یہ فرض بھی ہے کہ وہ اپنے خاوند سے محبت کا اظہار کرے اس کے لیے تیار ہو گویا وہ جو سارا دن کام میں جتی رہتی ہے وہ محبت کے جذبے کے تحت ایسا نہیں کرتی کیونکہ وہ عورت ہے اور یہ سب کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔اگر وہ کام کی زیادتی کی وجہ سے بیمار پڑتی ہے ذہنی دباو کا شکار ہوتی ہے تو یہ بھی اسی کا قصور ہے اور خاوند کی مہربانی ہے کہ وہ اس جیسے بے کار وجود پہ پیسہ صرف کرتا ہے کہ اس کی مشین چلتی رہے اور گھریلو نظام متاثر نہ ہو۔اس معذرت نامے میں خاتون اپنے خاوند کی بے انتہا شکر گزار ہے۔ایک احساس جرم کا شکار ہے وہ اپنا وقت اور زندگی کو بچوں اور خاوندکے لیے وقف کرنے کے باوجود خاوند کو ’وقت ‘ نہیں دے پارہی اس سے بات نہین کر پاتی سکون سے بیٹھ کے چند لمحے فرصت سے نہیں گزار سکتی بلکہ وہ اس تعلق کو کاروباری نوعیت کا سمجھتی ہے وہ بھی اپنی طرف سے۔جبکہ دیکھا جائے تو مفت کی ملازمہ کا تصور سامنے آتا جس میں اگر اس تعلق کو منفعت پہ مبنی کہا بھی جائے تو وہ مرد کی جانب سے ہے۔

دوسری بات یہ کہ عورت اپنے وجود کو بے معنی ثابت کرتی ہے گویا وہ انسان نہیں ہے جو جذبات اور احساسات سے عاری ایک روبوٹ ہے جو گھر میں رہنے کے عوض خدمات سر انجام دے رہا ہے اور احساس جرم کا شکار بھی ہے کہ وہ اپنے مالک کہ لیے وہ سب نہیں کر پا رہا جس کی اس سے توقع کی جاتی ہے۔یہ سوچ سماج میں بسنے والی ہر اس عورت کی سوچ ہے جو مرد کی برتری کی دل سے قائل ہے جو خود کو اپنی صلاحیت کو ،جذبوں کو حتیٰ کہ انسان ہونے کے تصور کو مرد کی نسبت کم تر جانتی ہے۔جسے اپنی اہمیت کا ادراک نہیں ہے کہ وہ معاشرے کی تعمیر میں کس قدر اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ کیا اس کا حق نہیں ہے کہ اسے فرصت کے مواقع ملیں وہ کچھ وقت اپنی دوستوں کے ساتھ گزار سے ،اپنی ذات کے حوالے سے سوچ سکے، اپنی زندگی کو وقت کے رحم و کرم پہ چھوڑنے کی بجائے زندگی کے حوالے سے فیصلہ کر سکے۔اس وضاحت نامے کے آخر میں وہ اظہار محبت کرتی ہے اور اپنی زندگی پہ اطمینان کا اظہار کرتی ہے کہ وہ اپنی موجودہ زندگی سے خوش ہے اسے محبوبہ ہونے میں دلچسپی نہیں ہے۔بلکہ وہ اسی احساس جرم کے ساتھ کہ سب کچھ کرنے کے باوجود کچھ نہیں کر رہی ،زندہ رہے گی اور محبت نچھاور کرتی رہے گی۔یہاں ایک عورت سے زیادہ ایک دیوی کا تصور ابھرتا ہے جو ہمیشہ عطا کرنا جانتی ہے۔کیا یہ انسانی فطرت ہے؟نہیں ہے انسان کو محبت کا جواب محبت سے چاہیے ہوتا ہے۔کیا یہی وہ سوچ نہیں ہے جو ایک مرد کو اس کی ڈھلتی عمر کی ذمہ داریوں میں گھری بیوی سے دور کرتی ہے؟ اسے اس بات پہ اکساتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کی محبت اور وفا کو نظر انداز کرتے ہوئے گھر سے باہر بنی سنوری گلیمرس لڑکی کی تلاش کرے۔

دیکھا جائے تو میاں بیوی کا رشتہ کچھ دو اور کچھ لو کے اصول پہ قائم ہے۔اس میں احساسات و جذبات سے لیکر کر مادی آسائشیں تک سب شامل ہے پھر مرد ایسے احساس جرم کا شکار کیوں نہیں ہوتا کہ وہ بیوی کو شادی سے پہلے والی توجہ اور محبت نہیں دے پا رہا؟ وہ خود کو ہمیشہ لڑکا سمجھتے ہوئے اسی لڑکی کا خواب آنکھوں میں کیوں سجائے رکھتا ہے جو ہر وقت ہنسنے ہنسانے والی،بنی سنوری فکروں سے آزاد اور جوان ہو۔اسی وجہ سے وہ اس بات کو اپنا حق سمجھنے لگتا ہے کہ وہ دوسری شادی کرے یا نکاح سے باہر کوئی رشتہ بنائے جو اس کے لیے ذہنی اور جسمانی تسکین کا باعث ہو۔اسے یہ احساس نہیں ہوتا کہ ایک انسان اپنے آپ کو مکمل طور پہ اس کے لیے بدل چکا ہے اپنی ذات کی نفی کر چکا ہے اور اسے اس عورت کا شکر گزار ہونا چاہیے۔نہ کہ عورت جرم کے بوجھ تلے دبی رہے اور خود کو بے دام اور بے مول ملازم سمجھتے ہوئے معافی اور محبت نامے لکھ کے یقین دلوائے کہ اس کی محبت قائم ہے۔وہ بیوی جو بچوں کی ماں ہے جو گھر بنانے کے لیے سب چھوڑ چکی ہوتی ہے وہ اصل محبوبہ کیوں نہیں ہوتی ؟اس کے وجود کو طے شدہ سمجھتے ہوئے نظر انداز کیوں کیا جاتا ہے؟محبوبہ کا خیالی تصور ہی مرد پہ کیوں حاوی رہتا ہے؟ اسی سوچ کی وجہ سے جو نہ تو مرد کو میچور ہونے دیتی ہے نہ ہی عورت کو اپنی اہمیت اور طاقت کا اندازہ کرنے دیتی ہے۔نہ یہ سمجھنے دیتی ہے کہ اصل محبت و خلوص کیا ہے کہ آنکھوں سے فینسی کی پٹی اتار کے حقیقت کو سمجھا جا سکے۔تصور کی دنیا سے باہر نکل کر رشتوں اور ان کی قربانیوں سمجھتے ہوئے ان کی قدر کی جا سکے اور محبت کا جواب محبت سے دیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).