بد نصیب، بیٹیاں ہی کیوں؟


آپ نے یہ بات اکثر لوگوں کو کہتے سنا ہوگا کہ جناب ڈر بیٹیوں سے نہیں بلکہ ان کے نصیب سے لگتا ہے۔ ہم لوگوں کا وتیرہ ہے جو پرانی باتیں نہ جانے کتنے زمانوں سے چلی آرہی ہیں، ہم ان پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے ہیں اور لفظ بہ لفظ آگے سے آگے ایک دوسرے کو بیان کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں اس بات کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ جو بات ہم اتنے یقین سے کر رہے ہیں اس میں کتنی سچائی ہے۔

کچھ روز پہلے پیش آنے والا یہ ایک سچا واقعہ ہے۔ میں سبزی خریدنے کی غرض سے ایک سبزی فروش بابا کی دکان پر گئی۔ بابا جی کے پاس ان کی پانچ سالہ معصوم سی پوتی بیٹھی تھی جو بڑی معصومیت سے بابا جی کو بوری سے سبزی نکال نکال کر دے رہی تھی، اتنی دیر میں ایک صاحب بھی سبزی خریدنے وہاں آموجود ہوئے۔ لگتا تھا کہ بابا جی سے ان کی پرانی جان پہچان ہے۔ ان کے درمیان ہونے والی گفتگو سے ہی مجھے اندازہ ہوا تھا کہ وہ بچی بابا جی کی پوتی ہے۔ ان صاحب نے آتے ہی بابا جی سے اس بچی کے بارے میں پوچھا تو بابا جی نے بتایا کہ یہ میری پوتی ہے۔ مزید یہ بھی بتایا کہ میرے چار پوتے بھی ہیں۔ پھر بابا جی نے ان صاحب سے ان کی بیٹیوں کا حال چال پوچھا اور ساتھ ہی دعا دی کہ اللہ ان کے نصیب اچھے کرے۔ بس یہ سننے کی دیر تھی کہ ان دونوں کے درمیان ایک انتہائی دلچسپ اور سبق آموز گفتگو کا آغاز ہو گیا۔ میں اپنی سبزی وغیرہ بھول بھال کر ان دونوں کے درمیان ہونے والی دلچسپ گفتگو کو سننے کے لیے ایک طرف ہو کر کھڑی ہو گئی۔

جونہی بابا جی نے دعا دی اسی وقت ان صاحب نے پلٹ کر بغیر کسی توقف کے بابا جی سے سوال کیا، کیوں بابا جی صرف بیٹیوں کے ہی نصیب اچھے کیوں ہوں، بیٹوں کے کیوں نہیں؟

بابا جی اس اچانک اور غیر متوقع جوابی حملے کے لیے قطعی تیار نہ تھے۔ سوال سن کر وہ سٹپٹا سے گئے۔ کہنے لگے کہ صاحب جی بیٹیوں کے ہی نصیب سے ڈر لگتا ہے کہ پتہ نہیں شادی کے بعد کیسا شوہر ملے، وہ بیٹیوں کو خوش رکھے نہ رکھے، کہیں طلاق نہ دےدے۔ بس اسی لیے سب یہی کہتے ہیں اور میں بھی یہی کہتا ہوں کہ اللہ بیٹیوں کا نصیب اچھا کرے۔ بیٹوں کا کیا ہے ان کی تو کوئی ایسی فکر یا مجبوری نہیں ہوتی۔

یہ سن کر وہ صاحب دوبارہ گویا ہوئے کہ بابا جی جن بد نصیب بیٹوں کی وجہ سے ہماری بیٹیوں کو بد نصیبی کے کلنک کا ٹیکا لگ جاتا یے اور انہی کے خوف کی وجہ سے بیٹیوں کے نصیب اچھا ہونے کی دعائیں مانگی جاتی ہیں تو آپ ان بد نصیب بیٹوں کے لئے دعا گو کیوں نہیں ہوتے کہ اللہ بیٹوں کے نصیب اچھے کرے تا کہ ہماری بیٹیاں خوش رہ سکیں۔ اگر ہمارے بیٹے اچھے نصیب والے ہو جائیں تو ہماری بیٹیوں کا نصیب لا محالہ اچھا ہو جائے گا۔ ہم خود ہی بیٹیوں کو بوجھ سمجھنے لگتے ہیں اور خود ہی ان کے نصیب سے ڈرنے لگ جاتے ہیں۔ اور جو ان ساری باتوں کی وجوہات کی جڑ ہے، اس میں لگی دیمک کا علاج نہیں کرتے۔ بابا جی دعائیں ہماری بیٹیوں کا نصیب اچھا کرنے کی ضرور مانگیں،مگر ساتھ ہی دعائیں ہمارے بیٹوں کا نصیب اچھا کرنے کی بھی مانگیں۔ اس بات کی میں گارنٹی دیتا ہوں کہ ہماری بیٹیاں ایسی دعاؤں سے خوش رہیں گی، ان کا نصیب خود ہی سنور جائے گا۔ بس آج سے آپ نے یہ دعا بھی دینی ہے کہ اللہ آپ کے بیٹوں کا نصیب اچھا کرے۔

اس گفتگو کے دوران میں دکان کے قریب موجود ایک بنچ پر بیٹھ گئی تھی اور باتیں سننے کے ساتھ ساتھ میں بابا جی کے چہرے کے دلچسپ اتار چڑھاؤ کا مشاہدہ بھی کر رہی تھی۔ اگر اس وقت کوئی میری حالت دیکھتا تو محظوظ ہوئے بنا نہ رہتا کہ میں ایک سبزی کی دکان کے سامنے ایک بنچ پر سکتے کی حالت میں منجمد ہو کر ایسے بیٹھی تھی جیسے کسی پرائمری کلاس کا بچہ اپنے استاد سے کوئی دلچسپ کہانی سن رہا ہو۔

بابا جی ان صاحب کی گفتگو سے کافی متاثر نظر آ رہے تھے۔ نہ صرف بابا جی بلکہ میرے دماغ کے بھی کافی طبق روشن ہوگئے تھے۔ بابا جی نے انتہائی مریدانہ آواز میں کہا کہ واہ صاحب جی آپ نے سولہ آنے کھری اور سچی بات کی ہے۔ میں آج سے ہر ملنے جلنے والے کو آپ کی سمجھائی ہوئی یہ بات سمجھاؤں گا۔ مجھے سب سمجھ آگیا ہے۔ بابا جی اور بھی بہت کچھ کہے جا رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی پوتی کو بھی پیار کرتے جا رہے تھے۔ ان صاحب کے چہرے پر خوشی اور فتح کا تاثر لئے، بھرپور مسکراہٹ تھی۔ انھوں نے بابا جی کا شکریہ ادا کرتے ہوے سبزی کا تھیلا اٹھایا اور بابا جی سے گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے وہاں سے چل دیے۔ بابا جی اور میں سکتے کی حالت میں ان کو دور تک جاتے ہوئے دیکھتے رہے۔ پوتی کی آواز نے اس سکوت کو توڑا۔ بابا جی پوتی کی طرف متوجہ ہوئے بغیر خود کلام ہوئے، ’کمال کے صاحب جی ہیں یہ‘۔

اس دن میں سبزی لیے بغیر ہی لوٹ آئی۔ مجھے اس سبزی فروش بابا جی کی دکان سے اور بہت کچھ جو مل گیا تھا۔ بابا جی کے ساتھ ساتھ میں نے بھی اس بات کو پلے باندھ کر آگے تک پہنچانے کا ارادہ کیا اور یہی سوچ کر آج قلم اٹھایا۔

آئیے ہم سب ’ہم سب‘ کے پلیٹ فارم سے اس پیغام کو آگے تک پہنچائیں اور پھیلائیں کہ اپنی بیٹیوں کو بوجھ اور بد نصیب نہ سمجھیں، اپنی نوجوان نسل کے بیٹوں کو سنواریں اور ان کے اچھے نصیب کے لیے دعا گو ہوں۔ تا کہ ہماری بیٹیوں کا مستقبل ایسے نوجوانوں سے منسوب ہو جن کے ارادے نیک، مضبوط اور پختہ ہوں اور جن کے دل خلوص و ہمدردی، پیار و محبت کے احساس سے بھرپور ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).