بی انگ مورٹل Being Mortal


کلینک ختم کرنے کے بعد سالانہ کلر می ریڈ 5 کلومیٹر رن کی ٹی شرٹ اور ٹینس شوز پہن کر زومبا ایکسرسائز کلاس میں جارہی تھی تو ہسپتال سے فون آگیا کہ فلاں مریضہ سے آکر بات کرلیں، ان کی فیملی کے پاس بہت سے سوال ہیں۔ سیدھا جانے کی بجائے ہسپتال کی طرف لیفٹ ٹرن لیا۔ ان سے کہا کہ اپنے غیر پروفیشنل حلیے کے لئے معذرت خواہ ہوں تو مریضہ کی ماں نے کہا نہیں ہمیں تو بالکل برا نہیں لگا بلکہ اس طرح آپ ڈاکٹر کی بجائے ایک نارمل انسان لگ رہی ہیں۔ زومبا کلاس میں اور بعد میں بھی یہ سوچتی رہی کہ ڈاکٹر میں اور نارمل انسان میں کیا فرق ہے؟ کیا نارمل انسان ڈاکٹر نہیں ہوتے یا ڈاکٹر نارمل انسان نہیں ہوتے یا فرق صرف نظر کا ہے۔

بک کلب میں ’بی انگ مورٹل‘ کا آخری چیپٹر پڑھا گیا اور ایک خاتون نے کہا کہ عام انسان میڈیسن کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے ہیں اور جب ڈاکٹرز ان سے کہتے ہیں کہ آپ کو ٹرمینل بیماری ہے یعنی ایسی بیماری جس میں موت یقینی ہے اور اس کا کوئی علاج نہیں یا ایسی بیماریاں بھی جن کا علاج ہوسکتا ہے تو ان کو سمجھ نہیں آتا اور وہ فیصلہ نہیں کرسکتے۔ یہ سن کر میں نے ان سے کہا کہ صدمے کی خبر سن کر کوئی بھی ایسا ہی محسوس کرے گا۔

جب ریڈیالوجی کا کولیگ گوتم دیہادری فون پر مجھے بتا رہا تھا کہ نذیر کے ابو کے کینسر کے سائز کے مطابق وہ سرجری کی حد سے نکل گیا ہے تو مجھے اس پر بہت غصہ آرہا تھا اور میں یقین نہیں کررہی تھی۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ گھر میں دو ڈاکٹر ہوں اور ہماری ناک کے نیچے ہمارے والدین کو کینسر ہوجائے؟ ہمیں اس وقت کیوں پتا نہیں چلا جب وہ یہاں تک نہیں پہنچا تھا؟ آخری سٹیج کا کینسر تو دوسرے لوگوں کو ہوتا ہے۔ صاف سپاٹ لہجے میں کہہ دیا کہ سرجیکل انٹروینشن سے ان کی زندگی بڑھائی نہیں جاسکے گی تو میں یہ جواب سننا نہیں چاہتی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ وہ کوئی بھی حل بتا دے۔ سارے ریسرچ ٹول آزما لئے، کیس رپورٹس پڑھیں کہ کیا معلوم جرمنی میں، برازیل میں، چین میں یا انڈیا میں کسی نے اس بیماری کا علاج نکال لیا ہو اور ہم انکل کو وہاں لے جائیں اور ان کو ٹھیک کرا لیں۔ ہو سکتا ہے کہ کہیں کسی نئی دوا پر ریسرچ چل رہی ہو تو ہم ان سے کہیں کہ انکل کو بھی اس کلینکل ٹرائل میں شامل کرلیں۔ وہ نہیں مرسکتے۔

پھر ایسا ہوا کہ ہماری ساری ڈگریاں دیواروں پر لٹکتی رہ گئیں اور پیسے، دنیا کے ہر طرح کے ڈاکٹر تک رسائی، دنیا کے کسی بھی ملک تک جاسکنے کی طاقت، سب کچھ دھرا رہ گیا اور ہم ان کو نہیں بچا سکے۔ انکل کو ہیپاٹائٹس بی کی وجہ سے جگر کا کینسر ہوگیا تھا، اس لئے وہ واپس جا کر اپنے سارے خاندان کو کہتے تھے کہ ویکسین لگواو تاکہ بیماریوں سے خود کو بچا سکو۔

اس جملے کو موٹے الفاظ میں لکھنا چاہئے کہ’ویکسین نہ لگانے سے ایک ادھیڑ عمر آدمی کی موت ہوسکتی ہے‘۔ وہ اس لئے کہ جب ادھیڑ عمر آدمی کی جان اور مال کے لئے کوئی مسئلہ ہو تو وہ یکدم قومی مسئلہ بن جاتا ہے جس کے گرد جلدی سے حفاظتی قوانین تشکیل دے دئیے جاتے ہیں۔

گزرے ہوئے سالوں کو ان گنت بار ذہن میں ری وائنڈ کیا کہ کہاں غلطی ہوئی، کہاں کچھ مختلف کرتے؟ ایک مرتبہ ٹی وی میں نیوز دیکھ رہے تھے جس میں ایک جوڑے کی کہانی دکھا رہے تھے جس میں علیحدگی کے بعد شوہر اپنی سابقہ بیوی کو دیا ہوا گردہ واپس لینے کے لئے کیس دائر کررہا تھا۔ یہ دیکھ کر میں نے مذاق میں نذیر سے کہا کہ آپ تو اپنا گردہ واپس نہیں مانگ لیںگے؟ میں گردہ دوں گا ہی نہیں۔ انکل وہاں بیٹھے تھے کہنے لگے بیٹا ہم آپ کو اپنا گردہ دے دیں گے۔ وہ ہمارے لئے اہم تھے۔ ہمارے بچوں کے واحد گرینڈ فادر۔

2009 ءکا ایک دن یاد آیا جب ویک اینڈ پر ان سے کہا کہ آپ لوگوں کو اوکلاہوما یونیورسٹی گھما کر لاتی ہوں۔ میں گاڑی چلا رہی تھی، آنٹی میرے برابر میں بیٹھی تھیں اور دونوں بچے دادا کے ساتھ پیچھے والی سیٹ پر۔ ہم لوگ ہائی وے پر جارہے تھے تو انکل کو ایک دم جھٹکے لگنے لگے اور وہ سانس نہیں لے پا رہے تھے۔ کوئی ایگزٹ قریب نہیں تھا اس لئے میں نے سائیڈ پر گھاس پر گاڑی چڑھا کر روک لی۔

وہ پتلے دبلے سے تھے، ان کے گردن کے پیچھے ایک بازو ڈال کر اور دوسرا گھٹنوں کے نیچے ڈال کر باہر کھینچ کر زمین پر لٹا دیا۔ ان کی نبض دھیمی سی ہوگئی تھی اور سانس بھی بالکل آہستہ۔ بچے اور ساس سب ڈر کر رونے لگے۔ نائن ون ون ملا کر ایمبولینس بلائی۔ آنکھیں کھولیں انکل! میں کون ہوں؟ ہم کہاں ہیں؟ ان کے کان میں چلا رہی تھی۔ وہ بالکل کنفیوزڈ تھے اور کہنے لگے ہم گھر میں ہیں۔ حالانکہ ہم ہائی وے کی سائیڈ پر زمین پر بیٹھے تھے۔ جب تک ایمبولینس میں ہسپتال پہنچے تو ان کو ہوش آگیا تھا۔ ایمرجنسی روم کے ڈاکٹر نے دماغ کا ایم آر آئی کرکے بتایا کہ ان کو پرانے سٹروک کی وجہ سے سیژر ہوا ہے۔

جب ابو کی حادثاتی وفات ہوئی تو میں چھ سال کی تھی۔ آخر میں جاکر یادیں ہی ایک انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ رہ جاتی ہیں اسی لئے ڈیمنشیا ایک انتہائی اداس بیماری ہے جس میں ساتھ اور زندہ ہوتے ہوئے بھی اپنے اجنبی بن جاتے ہیں۔ یہ ایک قیمتی یاد ہے کہ ایک دن میں نے دیوار کے ساتھ قد ناپا اور بھاگی بھاگی ابو کے پاس گئی کہ ابو میں بڑی ہوگئی۔ وہ گھبرا کر کہنے لگے نہیں نہیں تم بڑی نہیں ہونا ورنہ میں بوڑھا ہوجاؤں گا۔ پھر میں تو بڑی ہوگئی لیکن وہ کبھی بوڑھے نہیں ہوئے۔ اس دن ہسپتال کے بستر کے پاس کرسی پر بیٹھ کر میں نے انکل سے کہا کہ اب آپ ریٹائر ہوگئے ہیں، اپنے پیچھے خاندان اور دنیا کی ساری فکر چھوڑ کر امریکہ میں رہیں اور اپنی صحت پر توجہ دیں۔ وہ بحث کسی بات پر نہیں کرتے تھے اور ہاں میں ہاں ملاتے تھے لیکن کرتے وہی تھے جو ان کو کرنا ہوتا تھا۔ وہ ہمیشہ دوسروں کو خود پر ترجیح دیتے تھے۔ ان کی ساری توجہ اپنے پھیلے ہوئے خاندان کی مدد کرنے پر مرکوز تھی۔ وہ جب بھی آتے تو جاب کرتے، پیسے کما کر واپس جاتے اور سب کو سپورٹ کرتے۔

جب وہ لوگ پاکستان گئے ہوتے تو ریگولر ڈاکٹر وزٹس مس کرتے تھے۔

ان کو شکایت کرنے کی عادت ہی نہیں تھی اور خود کو سب سے آخر میں رکھتے تھے۔ ایک سال برتھ ڈے تھی تو وہ سائیکل پر وال مارٹ جاکر گھڑی خرید لائے۔ ان سے کہا کہ آپ نے اتنی تکلیف کی اور سردی میں چلے گئے۔ کہنے لگے نہیں خود لاؤں گا اور پہناؤں گا بھی۔ پھر وہ گھڑی انہوں نے میری کلائی پر باندھ  دی۔

ساری انفارمیشن کے بعد جب یہ معلوم ہوگیا کہ سرجری کرنے سے محض تکلیف میں اضافہ ہوگا اور عمر میں کچھ نہیں تو انہوں نے اپنے لئے یہ منتخب کیا کہ باقی دن اپنے خاندان کے بیچ سکون سے گزاریں۔ جس بیٹی کو نرسنگ کا کورس کرایا تھا وہ دن میں تین دفعہ مارفین کے انجکشن لگادیتی تھی۔ انہوں نے اپنے بیوی بچوں کے درمیان آخری سانسیں لیں۔ یہی ان کی خواہش تھی کہ ہسپتال کے بجائے گھر میں رہیں۔

اگر کسی انسان کی زندگی کے ایسے آخری لمحات ہوں جس میں اس کی زندگی مشینوں کے سہارے سے جڑی ہو جو اس کے لئے سانس کو جاری رکھے ہوئے ہیں تو یہ ان کی فیملی کے لئے ایک انتہائی مشکل فیصلہ ہوتا ہے کہ اس زندگی کو اسی طرح چلتے رہنے دیا جائے یا پلگ نکال دیا جائے۔ اس لئے یہ بات اہم ہے کہ نارمل حالات میں ہم خود اپنی لیونگ ول (وصیت) بنا کررکھیں تاکہ ہمارے بچوں پر ہماری زندگی کو ختم کرنے کا بھاری فیصلہ نہ رکھا جائے۔ میڈیکل بیک گراؤنڈ ہویا نہ ہو موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کو ہم سب کو فیس کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).