بارش میں کیا کِیا جائے، کہاں جایا جائے؟


ممتاز مفتی نے فرمایا تھا کہ مغرب کا وقت بے چینی کا سمے ہے۔ اس وقت بے خودی میں قدم اٹھتے ہیں۔ اگر آپ گھر میں ہیں تو باہر کی طرف۔ کہیں باہر ہیں تو گھر کی جانب۔ ہمیں یہ احساس بارش میں ہوتا ہے۔ ہماری خوش نصیبی یہ ہے کہ جھٹ پٹے کی طرح، بارش روز نہیں آتی۔ اور مشکل یہ ہے کہ جب بارش ہو، تو معاملہ محض مقام کی تبدیلی کا نہیں رہتا۔ یہاں تویہ بندہ خود بدل جاتا ہے۔

ان دوستوں پہ رشک آتا ہے جن کے لیے بارش کا مطلب محض فیس بک پر سٹیٹس لگانے یا بہت ہوا توتصویر اپ لوڈ کرنے تک محدود ہے۔ اگر آپ دفتر میں ہیں تو پکوڑے، سموسے کی دعوت ہو جائے گی۔ اس کے بعد واپس کام کا کوہلو۔

ہمارے لیے بارش کنفیوژن کا سامان ہے۔ ایک بارش، ایک ہم۔ ایک وقت میں کیا کیا کریں۔ بے چین بہت پھرنا، لیکن اکتاہٹ نہیں۔ سب سے پہلے تو چھت پر جانے کاآپشن ہے۔ آپ نے اکرم محمود صاحب کا یہ شعر تو سنا ہوگا:

ہجر ہے میرے چار سُو، ہجر کے چار سُوخلا
میں بھی نہیں میرے قریب، تیرا تو خیر ذکر کیا

اس کی بہترین تشریح موسلا دھار بارش میں چھت پر جا کر نظر آتی ہے۔ چار سُو لہک لہک کے گرتی بارش۔ ہوا کے تھپیڑوں سے اڑتی بوندوں کی چادر۔ لیکن آپ کو اپنے سوا کوئی اور کہیں دکھائی نہ دے گا۔ بس بارش اور آپ۔ آبادیوں میں رہتے ایسی تنہائی آپ کو طوفانی بارش میں چھت پر ہی ملے گی۔

چھت پر جانا ممکن نہ ہو تو پھر کمرے میں بیٹھ کر فلم بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس موسم میں دیکھنے کے لیے ہماری دو فیورٹ پکچر ہیں: او۔ ہنری کی عظیم کہانی پر مبنی ہندی فلم رین کوٹ۔ یا پھر ہندی فلم چمیلی۔ دونوں فلموں کی کہانی میں بارش پس منظر میں برستی رہتی ہے۔ لطف رہتا ہے۔ خصوصاً فلم رین کوٹ، جس کو گلزار صاحب کے گیتوں نے دو آتشہ کر دیا ہے۔

یا پھر کچھ پڑھنے کے لیے کمپیوٹر کھولا جا سکتا ہے۔ اس موسم میں مطالعہ؟ آپ شاید سنک پہ قیاس کریں۔ مگر ٹہریں۔ مانا کہ ڈاکٹر اشفاق ناصر نے فرمایا تھا:

تیری صورت سے نہیں ملتی کسی کی صورت
ہم جہاں میں تیری تصویر لیے پھرتے ہیں

مگر ہم ندا فاضلی کے ہم خیال ہیں:کہیں کہیں سے ہر چہرا تم جیسا لگتا ہے۔ سو ہم بھی بلاگ کھول کرایک کتابی چہرے کی زیارت کرتے ہیں۔ یا واقعی کتاب پڑھنی ہو تو اے۔ حمید کا سدا بہار ناولٹ زرد گلاب۔ اس میں آپ کو ویرانے میں برستی بارش، لبالب بھری نہر کے گدلے پانی پر تیرتے پھول اور وہ سب ملے گا جو اس بارش میں جل تھل ہو رہا ہے۔ یا پھر جگجیت سنگھ کی آواز میں غزل ’ کبھی یوں بھی تو ہو‘ سنی جا سکتی ہے۔

اور کچھ نا ہو تو برساتی پہن کر سیر کو نکل جاتے ہیں۔ برساتی کے ہڈ پر گرتی بوندوں کی ٹپ ٹپ۔ کوشش ہوتی ہے ان سڑکوں پہ رہیں جہاں گھروں کے باہر پھولوں کی کیاریاں ہیں۔ پلک جھپکتے کہیں پہنچنا ممکن ہو تو ایسے موسم کی بہترین واک ایوبیا کے پائپ لائن ٹریک پہ ہوتی ہے۔ منظر کھینچنے کے لیے اے۔ حمید کا قلم چاہیے۔ لیکن وہی پرانا پیٹرن، بارش، خاموشی اور تنہائی۔

معاف کیجیئے، شاید میں ایک ہی بات دہراتا جا رہا ہوں۔ وضع احتیاط سے رکتے دم کو سنبھالنے کے لیے کچھ رعایت ہونی چاہیے۔ سو جی کو بہلانے کو ہم سب کچھ کرتے ہیں۔ نہیں کرتے تو بس ایک رابطہ نہیں کرتے۔ بس نہیں کرتے۔ بارش آخر رک ہی تو جانی ہے۔ بس تب تک وقت گزارنا ہے اور نمک سے بنے بت کی حفاظت کرنی ہے۔

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).