اُمید وں کے لال دھاگے اور ایکمی فیونا


سرگودھا کے گاؤں 95 شمالی میں درگاہ کے متولی کے ہاتھوں بیس افراد کے سفاکانہ قتل کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑی ہے۔ رنگ رنگ کے لوگ طرح طرح کے بیانات دے رہے ہیں۔ ایک سوال بھی زیر بحث ہے کہ ’ یہ جاہل لوگ جھوٹے پیروں کے پاس لینے کیا جاتے ہیں‘؟

میرے شہر پاکپتن میں حضرت بابا فرید الدین ؒ کے دربار کے علاوہ بھی بہت سی درگاہیں ہیں۔ شہر کی گلیوں بازاروں میں بھی سرخ چولے پہنے، رنگ برنگے منکوں کے ہار گلے میں ڈالے، کندھوں تک بالوں کی لٹیں لٹکائے ملنگ آتے جاتے نظر آتے ہیں۔ جگہ جگہ پیروں کے تکیے اور سرائیں ہیں جہاں تعویذ لینے والے اور دم پھوکا کروانے والوں کا ہجوم لگارہتا ہے۔ پنجاب کے باقی شہروں اور دیہاتوں میں بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں ہے۔

یہ مریدین اور سائلین یقینا کسی مصیبت کے مارے ہوتے ہیں۔ وہ مصیبت سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ زندگی کے زخموں سے چور ہیں اور مرہم ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ تپتے صحرا کے پیاسے مسافر ہیں جو کسی نخلستان کے انتظار میں ہیں۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ جلتے ریگستانوں کے تھکے ماندے مسافروں کو سراب ہی ملتے ہیں جنہیں یہ نخلستا ن سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اور حقیقت تو یہ بھی ہے کہ ان کو نخلستان کی اشد ضرورت ہے تبھی تو سرابوں کے سہارے چلتے جاتے ہیں۔

ان سائلین کی اکثریت غریب ہوتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ غربت کی کوکھ سے مسائل کے انبار جنم لیتے ہیں۔ ڈاکٹر کی فیس، ٹیسٹ اور دوا کے پیسے کھیسے میں نہ ہوں تو پھر بیمار اور لاغر جسم میں صحت بھرنے کے لیے کالی ڈوری سے تعویذ کی تختی باندھ کر گلے میں لٹکالیتے ہیں۔ صحت یابی کی امید کو گلے لگائے پھرتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں جہاں عورتوں کا مقدر محکومیت اور مردوں کے ہاتھ میں حکومت ہو۔ جہاں مردکے ہاتھ میں روٹی، مکان، لباس اور فیصلہ کرنے کی چابی ہو اور عورت کے ہاتھ محتاجی اور مجبوری کاکاسہ ہوتو وہاں بیٹے کی خواہش بے جا نہیں ہے۔ بیٹے یا اولاد کی تمنا لیے وہ درگا ہوں پر منت ماننے آتے ہیں۔ جالیوں سے اُمیدوں کے لال دھاگے باندھ جاتے ہیں۔ سارے کہاں بامراد لوٹتے ہوں گے۔ بہت سُوں کے بند ہے دھاگوں کے ریشے ٹوٹ جاتے ہوں گے۔ جن کی مراد یں بر آتی ہیں وہ دھمال ڈالتے ہیں۔ چادریں چڑھاتے ہیں۔ دیگیں بانٹتے ہیں اور اپنے ساتھ کچھ اور لوگ بھی لے آتے ہیں جو ادھوری خواہشوں کی تکمیل لے لیے منت مان جاتے ہیں اور آس کی ڈوری سے بند ہے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔

پیروں کے آستانے پر آنیوالا ہر شخص ایک چلتی پھرتی المیہ داستان ہے۔ کسی کی کہانی میں بے روزگاری کی پر چھائیاں ہیں تبھی تو وہ چپکے سے نذرانہ دے کر دُعا لینے آیا ہے۔ کوئی ماں ہے جس سے بیٹے کا دُکھ سہا نہیں جاتا یا پھر بیٹی کی قسمت پہ مزید رویا نہیں جاتا۔ کوئی عورت ہے جو شوہر کے ظلم پر بول نہیں سکتی۔ یہاں بھی خاموش سی پھرتی ہے۔ کوئی کسان ہے جس کی فصل سوکھی جاتی ہے۔ کوئی پھیری والا ہے جس کے خرچے زیادہ اور آمدنی کم ہے۔ کسی کو مرنے والوں کی یاد سونے نہیں دیتی تو کسی کو زندہ لوگ جیتے نہیں دیتے۔ غرض کہ خانقاہوں، تکیوں اور آستانوں پر آنے والے مجبور اور ضرورت مند ہیں۔

کیسا ظلم ہے کہ پیاسا شخص پانی کی تلاش میں کنوے پر جا بیٹھے اور کنواں اس کی جان لے لے۔ کوئی بیمار زندگی کی آس لیے مسیحا تک پہنچے اور اسے زہر کی پڑیا پھانکنے کو ملے۔ کوئی گھر کو لگی آگ بجھوانے جائے اور جہنم سر پر لادے واپس آئے۔ 95 شمالی میں مارے جانے والوں کے پیغام پہ ذرا کان دھریے تو یہ پکار سنائی دیتی ہے کہ خدارا دُکھی لوگوں کی عزت، مال اور جان سے مت کھیلیے۔ پیسے کو اتنا عزیز مت جانو کہ جیتے جاگتے انسانوں کو نہ دیکھو سکو۔ ان کے زخموں پہ پھاہا نہیں رکھ سکتے تو ان کے گلے میں پھندہ بھی نہ ڈالیں۔ پیسے اور طاقت کے پجاری بن کر ان بزرگوں اور پرخلوص لوگوں کو بدنام مت کیجیے جنہوں نے انسانوں کے دکھوں کو محسوس کیا اور کھرے دل کے ساتھ لوگوں کی خدمت کی۔ ان بزرگوں نے ایک ماہر نفسیات کی طرح نا امید لوگوں کے اندر زندہ رہنے اور مسائل کا سامنا کرنے کی جرأ ت بھری تھی۔ انہوں نے محبت، رواداری، حسن سلوک اور امن کی شمع جلائی تھی۔ برصغیر پاک وہند میں فقیروں کے آستانوں پر تمام عناد فساد امن و آتشی میں ڈھل گیا۔ اُن کے سایہ صلح کُل میں وہ جادو تھا کہ کئی اجودھن پاک پتن ہوئے۔ مختلف عقائد اور سوچ کے لوگوں کو ےُوں اُلفت کے یک رنگی دھاگے میں پرویا کہ مذہبی منافرت کے سائے چھٹ گئے۔ جو لوگ آج بھی یہ خدمت انجام دے رہے ہیں ان کے انسان دوست جذبے کو سلام۔

95شمالی کے اس واقعے پر چنوا ایچی بی کے شہر ہ آفاق ناول’ THINGS FALL APART‘ کا ایک المناک واقعہ آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ جس میں قبیلے کے سرکردہ افراد ایک لڑکے کو قتل کرنے کی غرض سے گاؤں سے باہر جنگل کی طرف لے جاتے ہیں۔ لڑکے کا نام IKEMEFUNA ہے جس کو لڑکی کے قتل کے بدلے میں ان لوگوں کے حوالے کیا گیا تھا۔ ایکمی فیونا ناول کے ہیرو OKONKWO کے گھر تین سال سے رہ رہا ہوتا ہے۔ معصوم ایکمی فیونا OKONKWO کو اپنا باپ سمجھتا ہے اور خود ایک بیٹے کی طرح اس کے گھر میں رہتا ہے۔ جنگل کے قریب پہنچ کر جب ایک شخص لڑکے پہ کلہاڑی کا وار کرتا ہے تو وہ پناہ لینے کی غرض سے OKONKWO کی طرف بھاگتا ہے۔ پکار کرکہتا ہے کہ بابا یہ لوگ مجھے ماررہے ہیں۔ باپ کی گود میں پناہ کی امید لیے ایکمی فیونا جب OKONKWO کے قریب آتا ہے تووہ کلہاڑی کے وار سے ایکمی فیونا کو مار ڈالتا ہے۔

ارے وہ توموت سے بچنے کے لیے بھاگا بھاگا آیا تھا۔

فیس بک پر کسی نے کمنٹ کیا تھا کہ ’’ انشاء االلہ ایک دن پاکستان میں تعلیم عام ہوگی۔ معیار زندگی بلند ہوگا۔ غربت ختم ہوجائے گی تو پھر جھوٹے پیروں کے خوفناک کاروبار بھی ختم ہو جائیں گے‘‘۔ اس کمنٹ کے جواب میں بے شمار لوگوں نے لکھا تھا۔ ’’ آمین‘‘۔

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 76 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti