ساقی کی پاپ بیتی (حصہ دوم)


انھیں پیسے نہ دینے کا ایک سبب اور بھی ہے جو بعد میں بتاؤں گا۔ محفوظ تو کام کرنے کے لیے صبح ہی صبح اپنے پاسپورٹ آفس چلے جایا کرتے تھے۔ میں نہا دھو کر نچلی منزل میں “نئی قدریں ” کے دفتر میں چلا جاتا اور استاد اختر انصاری کے ساتھ ان کے دفتر میں ہی ناشتہ کرتا۔ مجھے ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ابھی تیسرا دن ہو گا کہ ایک نہایت خوب صورت سولہ سترہ سالہ میٹرک کی طالبہ ‘استاد’ کا آٹو گراف لینے کے لیے آئی۔ وہ برقع پہنے ہوئے تھی۔ اس کا الٹا ہوا نقاب، پر کترے بال اور کرنجی آنکھیں دل میں آج بھی گڑی ہوئی ہیں۔ خدا کرے کہ اسے کوئی اچھا شوہر مل گیا ہو اور اس خوش بخت نے ان چیزوں کو اسی طرح دیکھا ہو جس طرح میں نے دیکھا تھا (کیا جانیے تو نے اسے کس آن میں دیکھا…سودا)۔

دوسرے دن وہ لڑکی اپنی دو سہیلیوں کے ہمراہ میرا آٹو گراف لینے کے لیے آئی۔ پھر تو خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہر روز ہی ان میں سے کوئی نہ کوئی لڑکی “آٹو گراف” لینے کے لیے پہنچ جاتی۔ خیر، محفوظ کو تو ہر روز ہی میں سب کچھ بتادیتا مگر مجھے کیا خبر تھی کہ ہوٹل والوں نے استاد سے میری شکایت کر رکھی ہے۔ ایک دن ان کے دفتر میں چائے پی رہا تھا تو استاد کہنے لگے، “منیجر کہہ رہا تھا کہ پچھلے دروازے سے کچھ لڑکیاں تمھارے کمرے میں آتی جاتی رہتی ہیں جس سے ہوٹل کی ریپوٹیشن خرا ب ہو رہی ہے۔ ” میں نے محفوظ سے ذکر کیا، وہ خود ہی کسی کرائے کے فلیٹ کی تلاش میں تھے۔ اس سے پہلے کہ ہم منتقل ہوتے، ایک دن میں اپنے کمرے میں “آٹو گراف” دے رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ بے چاری لڑکی نے سراسیمگی کے عالم میں جلدی جلدی اپنی شلوار پہنی۔ میں جیسے تیسے پتلون چڑھائی۔ اس ساری کاروائی میں دو تین منٹ سے زیادہ نہیں لگے ہوں گے۔ دروازہ کھولا تو اختر انصاری اکبر آبادی اور حمایت علی شاعر مسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔ اس تازہ گرفتار فاختہ نے نہایت سعادت مندی سے کہا، “حمایت چچا سلام”۔ حمایت نے بھی نہایت شفقت سے سلام کا جواب دیا، “خوش رہو بیٹی”۔ ایک دو منٹ کے بعد یہ غنچہ نو شگفتہ اپنے رنگ اوڑھ کے اور اپنی خوشبو چھوڑکے چلا گیا۔ حمایت نے بتایا کہ یہ ان کے ہمسایوں کی لڑکی تھی اور انھیں کے محلے میں رہتی ہے۔

استاد نے قہقہہ لگاتے ہوئے فرمایا کہ ہم دونوں کنجی والے سوراخ سے سارا تماشا دیکھ رہے تھے۔ غرض کہ ان دونوں سخن وروں کے باعث میں نے حیدرآباد میں “آٹو گراف” دینے بند کیے اور دو چار دن بعد ہی کراچی لوٹ آیا۔ استاد کا تو کچھ بگاڑنہیں سکا مگر حمایت کے پانچ روپے آج تک نہیں دیے ..

آخر آخر میں یہ کہ میں سلیم احمد کی شخصیت کے ایک ایسے گوشے سے نقاب اٹھا رہا ہوں جس سے اردو والے بالکل یا بڑی حد تک آگاہ نہیں۔ چونکہ اس روداد میں میری اپنی افتاد پوشیدہ ہے، اس لیے جلتے ہوئے انگاروں پر قدم قدم سنبھال سنبھال کے رکھتا ہوا گذروں گا۔ اس لیے بھی کہ چپل اتاردی ہے اور ننگے پاو ¿ں چل رہا ہوں۔

ہوا یوں کہ شمیم احمد، میں اور اطہر نفیس یکے بعد دیگرے ایک ہی زلف کے اسیر ہوئے (شکریہ میر جی)۔ یہ “زلف” عطیہ بیگم فیضی کی طرح، علم و فراست والے موباف تو نہیں لگاتی تھی مگر ذہانت، جنسی، تشنگی اور لگاوٹ والے بیلے اور چنبیلی کے ہار ضرور پہنتی تھی۔ ہم تینوں انھی ہاروں کے خوشبو سے ہارے۔

دے پیچ ادھر زلف اڑا لے گئی دل کو (مصحفی)

(مجھے شاعر کا نام یا د نہیں تھا۔ مشفق کو فون کیا۔ اس نے جھٹ سے نام بتایا تو میں نے پٹ سے شکریہ ادا کیا۔ خدا اسے اور شمس الرحمن کو سلامت رکھے۔ صبح سویرے اٹھتے ہی، کلّی اور استنجا کر کے ان کی درازءعمر کی دعا مانگتا ہوں۔ وہ اس لیے کہ مجھ سے پہلے یہ کمبخت مرمرا گئے تو مجھے شاعروں کے نام، ان کی تاریخ پیدائش وغیرہ کون بتائے گا۔ ان کو اسی طرح کی چوتیا پنتی کے کاموں کے لیے زندہ رکھنا چاہتا ہوں۔ آہ کہ ان بدمعاشوں کو معلوم نہیں کہ وہ کس کی دعاو ¿ں کے سبب اب تک زندہ ہیں۔ )

اس مثلث میں اطہر بعد میں شامل ہوا۔ جب شمیم نے ایک نیا معاشقہ شروع کر لیا ور میں لندن چلا آیا۔ چنانچہ اس واقعے کے دو ہی مدعی اور دفاعی ہیں ؛ شمیم اور میں۔ چونکہ وہ خاتون ہمارے ایک نہایت عزیز دوست کی بیوی بھی تھیں (بلکہ اب تک ہیں ) اس لیے معاملہ مزید الجھتا چلا گیا۔ (خوف فساد خلق کے باعث ان کا نام بدل رہا ہوں کہ مشرقی ہوں )۔ ایک دن تو غضب ہو گیا۔ دو پہر چڑھی ہوئی تھی۔ میں اس سایہ دار سہاگن کے بستر استراحت اور غلط آسن میں علم الابدان کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف تھا۔ ناگہاں باہر والے دروازے کے کھلنے کی آواز سنائی دی (دور اترا کسی تالے کے جگر میں خنجر۔ فیض) میں نے نہایت پھرتی سے قمیص اور پتلون پہنی اور جوتوں میں پیر ڈالے۔ مجھے پچھلے دروازے سے باہر نکال کے اس زودفہم نے کنڈی لگادی۔ ابھی دس بیس ڈگ بھی نہیں بھرے تھے کہ ہر چیز دھندلی دھندلی دکھائی دی۔ ملٹن کی طرح میری دنیا بھی تاریک ہوتی نظر آئی۔ یاد آیا کہ اپنا چشمہ تو تکیے کے نیچے چھوڑآیا ہوں۔ اب کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ بقیہ دن “حافظ جی” کی طرح گذارنا میرے بس میں نہ تھا۔ پورے بلاک کا چکر کاٹتا، جل تو جلال تو، کا ورد کرتا اس گھر کے سامنے والے دروازے تک پہنچا۔ (اک گھر کے درو بام کو تکتے رہے تا دیر۔ سلیم احمد) ایک دو منٹ کے توقف کے بعد دستک دی۔ دروازہ کھلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ شوہر نامدار ہی نہیں بلکہ شمیم احمد بھی براجمان ہیں۔ دونوں ساتھ ہی آئے تھے۔

علیک سلیک کے بعد لونگ روم سے سیدھا بیڈ روم میں چلا گیا۔ تکیے کے نیچے سے عینک اٹھائی۔ واپس لونگ روم میں پہنچا۔ اعلان کیا کہ چشمہ بھو ل گیا تھا (ہائے چشمہ وائے چشمہ، بھاڑمیں جائے چشمہ) اور باہر والے دروازے کی طرف روانہ ہوا۔ مسئلے کی نزاکت کو دیکھ کر اس خاتون نے اپنے شوہر زید آفریدی کو مخاطب کر کے واویلا کیا، “تم نہیں ہوتے ہو تو ساقی مجھے تنگ کرنے کے لیے آ جاتے ہیں۔ ان سے کہہ دو کہ تمھاری غیر موجودگی میں ہرگز نہ آیا کریں۔ ” میں گھر سے تو نکل آیا مگر اس عزیز ہ کی آواز تعاقب کرتی رہی۔ جی ہی جی میں تریا چرتر بلکہ تریا چال کی داد دیتا رہا (تریا چرتر نہ جانے کوئے، کھسم مار کے ستی ہوئے۔ ایک پوربی کہاوت)۔ بس پکڑی، گھڑی دیکھی، دو یا ڈھائی بجے تھے۔ سیدھا اطہر کے پاس پہنچا۔ وہ مصروف تھا مگر میری حالت دیکھ کر موٹر رکشا لیا اور مجھے محمود ہاشمی کی دکان میں یہ کہہ کر چھوڑگیا کہ پانچ بجے تک یہیں انتظار کرو…

اطہر نے مجھے محمود کے حوالے کیا، کھسر پھسر کی اور چلا گیا۔ محمود اپنی دکان کے اوپر والے کمرے میں لے گیا اور کہا، “پہلے الحمد اللہ پڑھو، پھر قل ھو اللہ پڑھو، پھر انا اعطینے پڑھو۔ اس کے بعد آیت الکرسی پڑھ کے سو جاو ¿۔ اطہر شام کو آئیں گے پھر ساری باتیں ہوں گی۔ ” چنانچہ ایسا ہی کیا۔ خاک نیند آتی۔ ایک کنگن کے چھناکے کی وجہ سے دل میں بچھوا بجتا رہا۔

اطہر آیا، محمود نے دکان بند کی اور ہمیں کسی قریبی ریستوران میں لے گیا۔ شامی اور سیخ کبابوں اور پراٹھوں کے درمیان میں نے پورا واقعہ سنایا۔ یہ بھی بتایا کہ “یہ سلسلہ تقریباً چھ مہینے سے چل رہا ہے اوراس میں حاشا وکلا میرا کوئی قصور نہیں، میں تو ایک معمولی اناڑی کنوارا تھا اور عضو شرم کو صرف قارورے اور خود وصلی کے لیے استعمال کرتا تھا مگر اس “عفیفہ” نے پہلی بار دوسرے مصارف بھی بتائے :”

من فدائے بت شوخے کہ بہ ہنگام وصال

بہ من آموخت خود آئین ہم آغوشی را (شبلی)

محمود ہاشمی نے اپنی جگمگاتی آنکھوں کی دھنک (boomerang) چلائی اور اپنے ٹھیٹ کرخنداری لہجے میں بولا، “ابے دبڑو گھسڑو، یوں ہی تربیت ہوتی ہے۔ ” (دبڑو گھسڑو، اس نے نہیں کہا تھا، اس کے جملے کے پینترے اور اس کے مقاصد کو اجا گر کرنے کے لیے میں نے یہ الفاظ اختیار کیے ہیں )۔ اطہر نے گلے لگایا اور کہا تو یہ کہا، “جس طرح نقلی دانت لگانے والے دانتوں کا دوسرا سیٹ (Set)، حفظ ما تکلم کے طور پر اپنے پاس رکھتے ہیں ، تمھیں بھی اپنے پاس چشمے کا ایک اور جوڑا رکھنا چاہیے تھا۔ “

غرض کہ ا ن دونوں نے فوراً میرے ہاتھ پر بیعت کر لی اور ایمان لے آئے۔ دوسرے یا تیسرے دن میں نے اور اطہر نے جمال کو بھی صورت حال سے آگاہ کر دیا مگر…مگر اس روز میرے اندر بڑا طوفان تھا۔ کالی آندھی آئی ہوئی تھی، جھکڑچل رہے تھے۔ یہ احساس جرم کہ میں نے ایک نہایت نفیس اور دردگسار دوست کا آبگینے بلکہ خوابگینے جیسا دل توڑا اور اس کا اعتبار کھویا، شب خون مارتا رہا۔ دھیان کی سطح پر ایک اور جل کنبھی تیر رہی تھی جس میں ناگ پھنی ایسے کانٹے ا ±گے ہوئے تھے۔ یہ خیال کہ مسز آفریدی نے، اپنے بچاو ¿ کی کوشش میں جھوٹ بو ل کر ایسا کھیل کھیلا ہے کہ احباب تو احباب، خود اپنی نظر میں بھی بحالی مشکل سے ہو گی۔ پندار کی شکست نے حواس باختہ کر رکھا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ یہ کوئی عظیم عشق یا گہری محبت قسم کی چیز نہ سہی مگر ایک طرح کا جنسی سمجھوتہ one night stand) یا (infatuation ضرور تھا مگر اس میں بھی احساسات شامل ہوتے ہیں۔

غرض کہ رہ و رسم آشنائی پر میری مجروح انا غالب آئی اور روح میں منتقمانہ جذبات کی، پہلے ہلکی گلابی پھر گہری سرخ کونپلیں پھوٹنے لگیں۔

(جاری ہے)

http://www.humsub.com.pk/59252/saqi-farooqi-4/


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).