رامش فاطمہ کے نام


\"Tasneef\"تم سے ملا نہیں، کبھی تمہاری آواز نہیں سنی، نہ بات کرتے ہوئے تمہارے تیور دیکھے ہیں، بس تمہارے لفظوں کی زناٹے دار رفتار دیکھی ہے، تمہیں مذہب کی سخت گیریوں پر دانت پیستے، سماجی خوف اور جبر کے سامنے ڈٹے ہوئے دیکھا ہے، بہت کہرا اور بڑی دھند ہے یہاں! تم نظر نہیں آرہی ہو۔ میرے اور تمہارے ملکوں کے درمیان ایک ایسی نفرت ہے، جو میں اور تم مل کر ختم نہیں کرسکتے، پھر بھی کوشش کررہے ہیں کہ ایک دن یا تو لفظوں کی یہ پھوار ہماری زبانوں سے آخری قطرہ بھی لے جائے گی، میں بے دم آسمان کی طرف دیکھتا رہوں گا اور تم یونہی غالب وحشی کی طرح سر پھوڑ کر مر جائو گی۔ دنیا نہ بدلی ہے، نہ بدلے گی۔ بس ہم اپنے باطن کے گہرے گواہ ہیں، چنانچہ سوچتے ہیں کہ اس دنیا کو بدل نہیں سکتے، بس جھنجھلا سکتے ہیں، اپنے آس پاس موجود مردہ لوگوں کو جھنجھوڑ سکتے ہیں۔ ان قوموں کی کہانیاں لکھ سکتے ہیں، جن کی آسمانی کتابیں انہیں زمین کے ہر خطے پر غور کرنا سکھاتی ہیں، خود پر زینتوں کو حرام کرلینا گناہ قرار دیتی ہیں، مگر وہ ہیں کہ مایوسی کے جھولے میں بیٹھے مست پینگیں بھر رہے ہیں۔ میں بھی مایوس ہوں اور یقینی طور پر تم بھی ہوگی، ان سلاخوں کے آر پار دیکھتی ہوئی تمہاری کانچ جیسی آنکھیں پھیل جاتی ہونگی۔ دنیا اس قدر نفرت کی عادی کیوں بن رہی ہے۔ یہ سماجی بحثیں، یہ سائنسی دریافتوں کی اہمیتیں آخر ہمارے اور تمہارے دروازے پر کیوں بال بکھرائے بیٹھی رہتی ہیں۔ کیوں، یہ خدا کی رحمت کا دن رات الاپ لگاتے لوگ، درویشوں کا سوانگ بھرے، عفت آفریں، خواب رنگ عورتیں اپنے کامن سینس کو ایک غضب ناک، حبس زدہ زندگی کا رنگ دے رہے ہیں۔ میں تو سوچتا تھا کہ اس پورے معاشرے میں، خاص طور پر زمین کے ان خطوں میں جہاں سچ بولنے والوں کو آگ کا طوق پہنایا جاتا ہے، تم بھی بہت جلد نثری نظموں کے ذریعے اس خوف کو بہانے کے لیے ایک نالی بنالو گی اور تمہارا سارا دکھ، تمہاری ساری فکر اس بہتے ہوئے مٹ میلے پانی کے ساتھ مل کر تمہاری اگلی پیڑھی تک پہنچ جائے گا۔

\"ramish\"لیکن تم ایک خطرناک لڑکی ہو، ارادے کو بدل نہیں رہی ہو، بلکہ مسلسل آگے بڑھ رہی ہو۔ میں ڈرتا ہوں کہ ایک دن تمہارا یہ رویہ ، کسی پھٹے حال مولوی کی زندگی بدلنے کا بہانہ نہ بن جائے، خدا سے وحشت کھائے ہوئے لوگ تمہارے گھر کا محاصرہ نہ کرلیں۔ تم تو ایک ایسے ملک کی رہنے والی ہو، جہاں مذہب پر کسی بھی قسم کی تنقید کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اور پھر جب یہ تنقید ایک عورت کرے، جس کے ہاتھ آٹا گوندھنے، کپڑے تہہ کرنے اور بچوں کو جھولا جھلانے کے لیے ہی تخلیق کیے گئے ہیں تو پھر اس کے انجام کے تعلق سے تو مجھے کیا ہر ذی شعور کو فکر کرنی چاہیے۔اگر کبھی تمہارا واسطہ کسی جاہل مذہبی گروہ یا فرد تک پہنچ گیا اور اس نے یہ فیصلہ کرلیا کہ تمہارا فیصلہ وہ خود کرے گا، وہ جو اس کے رب نے طے کیا ہے، وہ جو اس کے مذہبی رہنمائوں نے کہا ہے، اسے سکھایا ہے کہ عورت تو ایک کور عقل، سماج میں صرف گناہ کا بیج بونے والی شے ہے توسوچو تو سہی کہ تمہارا کیا حال ہوگا۔ مگر ٹھہرو! تم تک یہ باتیں پہنچانے کے خیال کے ساتھ ساتھ مجھے ایک بات اور دھیان پڑتی ہے۔ میں بھی تو تم سے ہمت کرنا سیکھ رہا ہوں، جب تم اس ظلمت کدے میں چمگاڈروں کو چھیڑنے اور جگانے کی ہمت کررہی ہو تو پھر میں ہی اپنے کانوں کے ضائع ہوجانے کا خوف لیے کیوں لحاف میں دبکا رہوں۔ میں کیا، ایسے بہت سے لوگ ہونگے، خصوصی طور پر بہت سی لڑکیاں ہوں گی جو تمہارے لفظ ، تمہاری باتوں کو سنتی ہوں گی۔ جانتی ہوں گی کہ تم سچی ہو، اس معاشرے کو نہ سہی، مگر ان کے اندرون کے سماج میں اتھل پتھل پیدا کرنے کے لائق ہو، تو شاید وہ زندگی سدھر جائے ، جس کو دھرتی نے بڑی محنت و مشقت سے پیدا کیا تھا اور اس کو سنوارنے میں اسے نہ جانے کتنا عرصہ لگ گیا اور ابھی مزید وقت لگے گا۔

رامش فاطمہ! تم ایک جرات ہو، جو کہ اب اپنا سفر شروع کرچکی ہے، اب اسے اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹانے ہوں گے۔ بس ذاتی طور پر میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ کسی بھی رائٹر کو اپنے معاشرے میں تبدیلی پیدا کرنے کے لیے اپنے ہی لوگوں کے درمیان اپنی فکر کو ظاہر کرتے رہنا بہت ضروری ہے۔ لازمی ہے کہ ہم سمجھیں کہ کوئی مشاعرہ، کوئی سیمینار (جو کہ ہمارے سماج میں خیالات و زبان کے فروغ کی ایک اہم کڑی سمجھے جاتے ہیں)اس جرات اظہار کے آگے کوڑا کرکٹ کی مانند ہیں۔ ہم نے عورت کا تصور بہت عجیب کررکھا ہے، اسے ایک ایسا خطرناک رنگ دے رکھا ہے، جس کے بارے میں کبھی غور کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ عورت کی زمین بہت تنگ ہے، جس کو مزید تنگ کرنے میں عورت کا ہی ہاتھ کچھ کم نہیں۔ وہ کم میں خوش ہوجاتی ہے، اس کی اسی قناعت پسندی کی وجہ سے اسے دنیا و عقبیٰ دونوں جگہ بہت تھوڑا سا حصہ دیا جاتاہے، اور وہ بے وقوف اس میں راضی ہوکر اسے اپنا مقدر سمجھ بیٹھتی ہے، اس پر خدا کا شکر ادا کرتی ہے۔ یہ انسانی اعتبار سے اس صنف کی بڑی تذلیل ہے، کوئی فیمینسٹ مرد یا عورت اس تذلیل کو عورت کے ساتھ برتی جانے والی کسی بھی قسم کی رعایت کے بل بوتے پر بدل نہیں سکتا۔ اسے بدلا جاسکتا ہے تو بس تعلیم کی اس تیسری آنکھ سے، جو انسان کو مرد و عورت کے خانے سے باہر لا کر اسے ایک جیوت پرانی سمجھنے اور سمجھانے پر زور دیتی ہے۔ یہ تیسری آنکھ پتہ نہیں کب کھلے گی۔

مجھے خوشی ہے کہ تم ادب بھی پڑھتی ہو، ادب انسان کو بات کہنے کے سلیقے، اس کے سچ جھوٹ اور تلخیوں کو سمجھنے  اور سماج پر باریک سوالات کی بوچھار کرنے کے ہنر سے آشنا کرتا ہے۔ ابتدائے آفرینش سے اس ادب کا سارا دار و مدار عورت کی اس کجی پر ہے، جس نے زندگی کی کہانی شروع کی تھی۔ یہ بات کتنی ہی ماورائی، بعید از عقل یا پھر غیر ضروری کیوں نہ ہو، مگر عورت کی دریافت خود قدرت کے تخلیقی عمل کا وہ آخری نقطہ ہے، جس کے بعد اس نے قلم توڑ دیا ہے۔ اور تم تو اتنی خوبصورت ہو ہی کہ میری بات کو سمجھ سکو۔میں نے تمہیں خطوط لکھنے کا ایک سلسلہ شروع کرنا چاہا ہے، اب پتہ نہیں یہ سلسلہ کب تک چل سکتا ہے، کیونکہ میں باتوں اور راہوں کو ادھورا چھوڑ کر اکثر کہیں گم ہوجاتا ہوں۔ اس میں میری بدمعاش فطرت کا بڑا دخل ہوسکتا ہے۔ مگر تمہاری تحریریں پڑھتا ہوں، کبھی اتفاق کرتا ہوں، کبھی اختلاف۔ مگر تمہاری جرات کو دیکھ کر سوچتا رہتا ہوں کہ راشد نے غلط نہیں کہا تھا

غریب کندوں کے سامنے بند واپسی کی تمام راہیں

بقائے موہوم کے جو رستے

کھلے ہیں اب تک

ہے ان کے آگے گماں کا ممکن

گماں کا ممکن ، جو تو ہے میں ہوں

جو تو ہے میں ہوں

***


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments