ساقی کی پاپ بیتی (حصہ سوم)


ہم تینوں فریئر روڈ سے ہوتے ہوئے صدر تک پہنچے۔ طے پایا کہ میں شمیم سے مل کر پہلے یہ معلوم کروں کہ میرے چلے جانے کے بعد اس گھر میں ہو ا کیا؟ زید آفریدی کس عذاب سے گذرا؟ قیامت آئی کہ نہیں ؟ ظاہر ہے اس وقت تک ہم میں سے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ عرصہ دو سال سے، مجھ سے کہیں پہلے شمیم بھی اسی آستانے کی ارادت کے سزاوار تھے جس کا میں [مجھے کیا پتہ تھا کہ دو تین سال بعد اطہر نفیس بھی (معصوم بن مظلوم) اسی زرخیز زمین پر سجدہ گذار ہوں گے۔ غرض کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا تھا۔ شاید یوں کہنا چاہیے کہ مسز آفریدی نے ہماری مٹی پلید کر دی تھی۔ ]

صدر پہنچ کر محمود اور اطہر اپنے اپنے گھروں کی طرف اپنے اپنے موٹر رکشاؤں میں روانہ ہوئے۔ میں نے بس پکڑی اور جہانگیر روڈ پہنچا۔ دیکھا کہ سلیم اور شمیم اپنے اپنے کمروں میں (باہر والے دو کمرے ) اپنی اپنی بتیاں جلائے ، اپنے اپنے بستروں میں لیٹے اپنی اپنی کتابیں پڑھ رہے تھے۔ میں نے سلیم احمد کا دروازہ کھٹکھٹایا تو آواز آئی، “ساقی دروازہ کھلا ہوا ہے، آ جاؤ۔ میں تمھارا ہی انتظار کر رہا تھا۔ ” میں نے اندر داخل ہوتے ہوئے پوچھا، “یہ ولایت کی کون سی منزل ہے، آپ کو کیسے پتہ چلا کہ رات کے گیارہ بارہ بجے آنے والا ساقی ہے؟” سلیم خاں نے کتاب رکھی، ہاتھ ملایا اور چارپائی کے بیچوں بیچ آلتی پالتی مار کے بیٹھ گئے۔

کہنے لگے، “شمیم نے دو تین گھنٹے پہلے دوپہر والا سارا واقعہ بتادیا ہے۔ ” مجھے سخت صدمہ ہوا۔ میں نے کہا، “اس نے زیادتی کی، وہ آپ کا بھائی سہی مگر میرا دوست بھی ہے، اسے پہلے مجھ سے Clearance لینی چاہیے تھی کہ آپ تو ہم سب کے آخری مرجع ہیں، آپ سے گفتگو کل پرسوں ہو گی تاکہ تصویر کا دوسرا رخ بھی آپ کی نظر میں آ جائے ، آج کی رات میں شمیم کے ساتھ گذارنا چاہتا ہوں۔ “

یہ کہہ کر میں شمیم کے کمرے میں چلا گیا۔ وہ کرتہ پاجامہ لایا اور میں کپڑے بدل کر بتی بجھا کر اس کے ساتھ لیٹ گیا۔ شمیم نے بتایا کہ میرے جانے کے بعد سچ مچ قیامت آ گئی تھی۔ اس خاتون نے رو رو کے سارا گھر سر پر اٹھا لیا تھا۔ یہ بھی کہ شمیم نے مداخلت کی ورنہ زید آفریدی تو تمھارے ابا سے شکایت کرنے جا رہے تھے۔ غرض کہ شمیم ساری رات مجھ پر لعن طعن کرتا رہا اور گفتگو کی تان اس پر ٹوٹی کہ میں ہرگز ہرگز مسٹر اور مسز آفریدی کے گھر میں قدم نہ رکھوں ورنہ دوستوں میں اور خاندانوں میں بلکہ پورے شہر میں بڑی تھئی تھئی ہو گی۔ مگر بیچ بیچ میں وہ کرید کرید کر یہ بھی پوچھتا جاتا کہ فلانی رات کو کچن میں کیا ہوا تھا، فلانی دوپہر کو سنیما میں کیا گل کھلے تھے، فلانے دن کلفٹن میں تم دونوں نے کیوں گل چھرے اڑائے تھے، فلانے ویک اینڈ پر ہاکس بے کی کاٹیج میں ان کی ساڑھی، انگیا اور جانگیا الگنی پر کس لیے سکھائیں وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ مگر کیا مجال کہ اس ظالم نے جھوٹوں بھی یہ بتایا ہو کہ اس عزیزہ کے کانٹے میں یہ مچھلا بھی (مچھلی کا نر) پھنسا ہوا ہے۔ یہ تو ہم سب کو دو تین ہفتوں کے بعد پتہ چلا کہ اس کے جارحانہ رویے کے پیچھے رقابت (jealousy) اور مسترد (rejection)ہونے کا دکھ تھا۔ [پچھلی بار کراچی گیا تو مشفق خواجہ نے بتایا کہ ایک روز شمیم ان کے پاس آئے تھے اور انھوں نے دل کے داغ اور زخم انھیں بھی دکھائے تھے اور بتایا تھا کہ ہم دونوں (شمیم اور میں ) ایک زمانے میں رقیب رہ چکے ہیں۔ ]

قصے کو مختصر کرتا ہوں۔ دوسرے روز وہ خاتون میرے گھر آئیں۔ معافی مانگنے کے لیے۔ میں نے صدق دل سے معاف کر دیا (ادھر سے بھی ہے سوا کچھ ادھر کی مجبوری /کہ میں نے آہ تو کی ان سے آہ بھی نہ ہوئی۔ جگر مراد آبادی)۔ پھر وہ ہر دوسرے تیسرے روز آتی رہیں، جب بھائی بہن اسکول چلے جاتے اور ابا اپنے دفتر اور اماں بدرالنسا خالہ یا منی خالہ یا سلمیٰ خالہ کے ہاں۔ مسز آفریدی ایک طرف تو اپنے شوہر اور شمیم سے اپنی معصومیت کا پرچار کرتی رہیں ، دوسری طرف مجھ سے ہر دوسرے تیسرے روز “وصالیہ” (نیا لفظ ایجاد کیا ہے ) بھی جاری رہا۔ مگر شمیم کی وجہ سے شہر میں میری رپوٹیشن خراب ہوتی جا رہی تھی۔ دس بارہ دن بعد میں نے سلیم احمد کی کنج میں پناہ لی۔ الف سے یے تک سارے واقعات بیان کیے۔ یہ بھی کہ کسی قد آور تاڑ سے ٹوٹ کر شمیم کسی بونے کھجور کی شاخ سے اٹکے ہوئے ہیں۔

سلیم احمد نے کمال کی بات کہی، “ساقی خاں ! میرا خیال ہے، شمیم اپنی rejection سے بوکھلایا ہوا ہے۔ وہ مسز آفریدی کا تو کچھ بگاڑنہیں سکتا، صرف تمھارے بارے میں غلط سلط افواہیں پھیلانے پر قادر ہے۔ اب تمھارا مسئلہ بھی محبت وحبت نہیں رہا بلکہ خود پرستی اور انا ہے اور ہر چند کہ میں تمھارا سلیم بھائی، تمھاری بہی خواہ ہوں، مگر تمھارے دل میں کہیں نہ کہیں یہ بھی ہے کہ میں تم پر شک کرتا رہا ہوں کہ شمیم کا بھائی ہوں۔ اس شک کی بیخ کنی کے لیے ضروری ہے کہ ایک معتبر گواہ پیدا کیا جائے۔ ” (جی چاہتا ہے آج کوئی تیسرا بھی ہو۔ فراق)

جب میں نے اصرار کیا کہ سلیم احمد خود گواہ بنیں تو وہ مان گئے۔ چونکہ مسز آفریدی، منگل، بدھ یا جمعرات کو تاوان دینے کے لیے میرے گھر آتی تھیں کہ انھی دنوں میرا گھر خالی رہتا تھا، چنانچہ طے پایا کہ اگلے بدھ کو سلیم خاں میرے پاس آئیں گے ، یہ دیکھنے کے لیے کہ واقعی وہ خاتون میرے گھر آتی ہیں کہ نہیں۔ ایک وصالیے کے بعد میں نے اس خاتون سے کہا کہ اگلے ہفتے وہ بدھ کو آئیں۔ جیسا کہ کہیں لکھ چکا ہوں ، شمس الرحمن فاروقی کا کزن یونس فاروقی (یعنی افسانہ نگار نجم فضلی) ساتھ والے گھر میں رہتا تھا۔ ہمارے گھروں کے درمیان صرف ایک دیوار حائل تھی۔ اس کے باہر والے کمرے میں ایک نہایت کشادہ کھڑکی تھی جس سے گلی میں آنے جانے والوں کا مطالعہ ہو جاتا۔ اگر کوئی عورت ہوتی تو ہماری آنکھیں معانقہ بھی کر لیتیں۔ یہ وہی کمرہ تھا جس میں ریحان صدیقی، نجم فضلی اور میں ، بلکہ کبھی کبھی کوئی اور ابھاگا بھی ایک پیسہ فی پوائنٹ والی رمی کھیلتے۔ اب یاد نہیں کہ کون، کس کا کتنا مقروض ہے۔

غرض کہ نجم فضلی کو صورت حال سے آگاہ کیا کہ سلیم احمد اگلے بدھ کو نو بجے آئیں گے۔ اس دن اس نے بستر کا رخ اس طرح بدلا کہ کھڑکی کے شیشوں سے اور چہار دیواری کے جھروکوں سے، گلی سے گذرنے والا، ہر آنے جانے والا نظر میں رہے۔ یہی نہیں، اس ظالم نے کمرے کو بھی مہذب کیا۔ ہر چیز سلیقے سے رکھی، بستر کو نئی چادر بخشی اور تکیے کا غلاف تک بدلا۔ ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے مجھے چابی دے کر دفتر چلا گیا۔

اس سے پہلے سلیم احمد میرے گھر دو تین بار ہی آئے ہوں گے کہ دستگیر کالونی ذرا out of the way تھی۔ مجھے ڈر لگا ہوا تھا کہ کہیں رستہ ہی نہ بھول جائیں۔ مگر واہ رے وہ ٹھیک ساڑھے نو بجے موٹر رکشا میں پہنچ گئے۔ بتایا کہ گھر سے یہ کہہ کے نکلا ہوں کہ ریڈیو جا رہا ہوں تاکہ کسی کو شک نہ ہو (یہاں “کسی” سے ان کی مراد شمیم سے تھی۔ آج یہ لکھتے ہوئے آنکھیں نمناک ہیں کہ اس آدمی نے قیامت کی دوستی نبھائی)۔

مجھے معلوم تھا کہ سلیم ناشتہ کیے بغیر آئے ہوں گے۔ اس لیے اماں کے بنائے ہوئے کبابوں ، چانپوں اور روغنی ٹکیوں (روٹیوں کی موٹی موٹی، گدر گدر، چھوٹی چھوٹی بیٹیاں ) کی سینی (ٹرے ) رکھ کر نجم فضلی کے چولھے پر چائے بنا کر پوچھا، “میریا غالب یا اقبال؟” کہنے لگے ، “نہیں آج سودا بازی ہو گی۔ ” چنانچہ سودا کے دیوان کا کمپا لگا کر میں اپنے گھر لوٹ آیا اور ہم دونوں بے چاری فاختہ کا انتظار کرنے لگے۔ گاہے گاہے گلی سے کوئی سوٹ، کوئی کتا، کوئی برقع گذرتا تو چوکنے اور چوکس ہو جاتے (پتیاں کھڑکیں تو سمجھا کہ لو آپ آ ہی گئے۔ مخدوم) مگر آنے والا بجائے دس کے گیارہ بجے آیا۔ داغ کی طرح تمام عمر تو نہیں مگر ایک گھنٹے، قیامت کا انتظار کیا۔ شاید اسی روز مجھ پر یہ ناگوار حقیقت بھی منکشف ہوئی کہ میں اپنی انا کے احیا اور نا انصافی کے تدارک کے لیے اپنی بے رحم محبوبہ کو بھی بخشنے کے قابل نہیں۔ غرض کہ محبوبہ کا زوال محبوب کا زوال بھی ہے …or vice versa۔

ابھی میں مسز آفریدی کو گلنار کر ہی رہا تھا کہ (شاید میرے بوسوں میں رنگوں کے خزانے تھے / وہ صورت افسردہ گلنار نظر آئی۔ دیکھو میری غزل) پہلے پھاٹک کھلنے کی آواز آئی پھر دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے کہا، “سلیم بھائی! دروازہ کھلا ہوا ہے، آ جائیے۔ “وہ اندر آ گئے اور میرے بستر پر بیٹھ گئے۔ اس عرصے میں مسز آفریدی کا رنگ گلابی سے زرد ہو چکا تھا، جیسے کسی نے چہرے پر ہلدی مل دی ہو۔ سلیم خاں انھیں اور وہ سلیم بھائی کو جانتی تھیں۔ آخر کو ہم ایک ہی کنبے کے لوگ تھے نا! پان سات منٹ تک مکمل نہیں، مکمل جیسی خاموشی طاری رہی، ممکن ہے موسم پر کوئی تبادل? خیال ہوا ہو (رستے میں کسی روز اگر مل بھی گئے وہ /ہنستے ہوئے موسم کی کوئی بات کریں گے۔ ڈاکٹر محمد دین تاثیر)۔

ان بے درد ساعتوں میں مسز آفریدی کی شکایتی اور میری ندامتی نگاہیں کئی بار ملیں۔ سلیم بھائی سے رخصتی لے کر وہ میری زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلی گئیں۔ (وہ پلٹ کے جلد نہ آئیں گے یہ عیاں ہے طرز خرام سے …یہ مشہور شاعر اور نیو تھیٹر ز کلکتہ کے نغمہ نگار آرزو لکھنوی کا مصرع ہے۔ میں اپنے قاری سے گذارش کروں گا کہ وہ “جلد” کی جگہ “کبھی ” پڑھے )۔

ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد سلیم خاں اور میں ریڈیو کے لیے نکلے مگر رکشے کا رخ وہ جہانگیر روڈ پر اپنے گھر کی طرف مڑوا کر اتر گئے۔ میں ان کے کمرے میں خاموشی سے بیٹھ گیا۔ انھوں نے اپنی شیروانی اتاری اور شمیم کو آواز دی۔ وہ آیا اور مجھے دیکھ کر ٹھٹکا (کوئی دس دن سے ہماری بول چال بند تھی)۔ اب دونوں بھائیوں کے درمیان ہونے والے ڈائیلاگ کو قلم بند کیے دیتا ہوں :

سلیم: ساقی سے تمھاری شکایت غلط ہے۔ مسز so and so خود اس کے گھر آتی جاتی رہتی ہیں۔

شمیم: ساقی جھوٹ بولتا ہے۔ خود مسزso and so نے بتایا کہ وہ ساقی سے سخت نفرت کرتی ہیں۔

سلیم: بیٹے ! آج میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آیا ہوں کہ وہ ساقی سے ملنے اس کے گھر آتی ہیں۔

شمیم: آپ نے خود اپنی آنکھوں سے …؟

سلیم: ہاں !

شمیم: کب؟

سلیم: ابھی ایک گھنٹے پہلے۔

شمیم: تو کیا صبح کو آپ دست گیر گئے تھے ؟

سلیم: ہاں !اپنے ذہن سے شک کو مٹانے۔

بھائیوں میں گفتگو یہیں تک پہنچی تھی کہ شمیم نے زور زور سے ہچکیاں لے لے کر رونا شروع کیا۔ آپا، “ہائے میرا بیٹا ہائے میرا شمیم” کہتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئیں تو میں بڑا سراسیمہ ہوا۔

(I felt unwanted, and went out – Auden)

 اکادمی بازیافت، کراچی، جنوری 2008] [“آپ بیتی /پاپ بیتی”[


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments