کشور ناہید کی نوٹ بک


’ کشور ناہید کی نوٹ بک‘ کے عنوان سے ان کی خود نوشت سوانح حیات کا تیسرا حصہ مجھ تک پہنچا ہے۔ ان کی کتاب ’شناسائیاں رسوائیاں‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا کہ ’اے کاش اس کتاب میں یوسف کامران کا ذکرذرا زیادہ ہوتا‘۔ اس کتاب میں یوسف کامران کا ذکر ہے اور نسبتاً زیادہ ہے کہ کشور نے گھر کی تصویروں کے ساتھ یوسف اور فرخندہ لودھی کی تصویر تک شامل کر دی ہے حالانکہ اس کا کوئی محل نہ تھا، جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔

میں 1958 میں اورئینٹل کالج میں داخل ہواتو کالج کے کوریڈور میں یوسف کامران سے ملاقات ہوئی ۔ اردو والوں کا خیال تھا یوسف کامران فارسی کا طالب علم ہے ۔ فارسی والوں کو خیال تھا یوسف کامران اردو کا طالب علم ہے حالانکہ وہ اورینٹیل کالج کا طالب علم تھا ہی نہیں مگر اورئینٹیل کالج اس کی زندگی کا حصہ تھا۔ اس کی سائیکل اور یوسف کامران دونوں کالج میں نظر آتے تھے۔ مشاعروں مباحثوں میں بھی وہ آگے آگے نظر آتا تھا۔ لڑکیوں میں بہت مقبول تھا ہر وقت کوئی نہ کوئی لڑکی اس کے ساتھ نظر آتی تھی۔

کشور ناہید کے ساتھ میں نے اسے پہلی بار پنجاب یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں دیکھا۔ میں باسط کے پاس بیٹھا تھا وہی باسط جس کا ذکر کشور نے اس نوٹ بک میں کیا ہے کہ روم میں ’’ باسط ہمارا سفیر تھا میں اس کے پاس گئی اور رات کو ہم نے پورا روم گھو م دیکھا‘‘ ( نوٹ بک صفحہ 64)۔ باسط اس بات پر پریشان بیٹھا تھا کہ ایک لڑکے نے دوسرے کو ماں بہن کی گالی دی تھی۔ کہتا تھا کہ مجھے ایموشنل ڈیپریشن ہو گیا ہے کہ یونیورسٹی کے لڑکے اب ماں بہن کی گالیاں بکا کر یں گے؟ مدتوں بعد میں نے الفلاح میں شریف جنجوعہ کے دفتر میں کشور ناہید کو احمد بشیر کی ڈکشن میں بہشتی زیور والوں پر برستے اور ڈاکٹر نصیر ملہی کی ہم نوائی کرتے سنا تو باسط یاد آیا مگر وہ بچارا تو نیویارک کے ایک قبرستان میں سو رہا ہے۔

ہاں تو احمد بشیر کو بھی میں نے پہلی بار کشور ناہید کے حوالہ سے جانا تھا۔ اس کے مضمون چھپن چھری کا بہت چرچا تھا۔ احمد بشیر کی خود نوشت چھپی تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا کہ احمد بشیر دوستوں کی بیویوں تک کی کردار کشی کرنے میں بہت دلیر ہے مگر کشور ناہید نے شناسیائیاں رسوائیاں میں احمد بشیر کی اس کردار کشی کی بات کو بڑے حوصلہ سے نظر انداز کر دیا تھا۔ اس نوٹ بک میں بھی احمد بشیر کا ذکر ہے اور ایک دوست کی حیثیت سے ذکر ہے۔ ہر مردے و ہرکارے! دوستی اپنی جگہ دشنام اپنی جگہ ! کشور ناہید نے اس کتاب میں ’’ تماشائے اہل کرم دکھایا ہے‘‘ (صفحہ 8) تا کہ آج کی بچیوں اور نوجوان لڑکوں کو یہ حوصلہ دے سکے کہ نوکری کرو، چاکری نہ کرو۔

تماشائے اہل کرم میں ایک تماشا تو حنیف رامے کا ہے۔ایوب کے زمانے میں آپ کنونشن لیگ کے سیکرٹری اطلاعات تھے۔ اس زمانے میں پیر صاحب دیول شریف کا بڑا چرچا تھا۔ ’’ ان کی تصویر بنا کر رامے صاحب نے اپنے ڈیوس روڈ والے دفتر میں لگائی ہوئی تھی جس میں دکھایا گیا تھا کہ پیر صاحب نے ہاتھ اونچے کیے ہوئے ہیں اور صدر ایوب کا نزول ہورہا ہے‘‘۔ (صفحہ 13)۔

دوسرا تماشا کوثر نیازی کا ہے۔ ان کے طبع شدہ کلام کی اصلاح جوش صاحب نے کی۔ اس کی کتابت کشور ناہید کے انتظام میں کروائی گئی۔ ’’ جب کاپیاں جڑ کر آئیں اور مجھے سرکار کے حضور بلایا گیا۔ میں نے کہیں کہیں کاتب کے لیے نشان لگایا ہوا تھا ’’فاصلہ کم کریں‘‘۔ وزیر صاحب نے میرے ہاتھ کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا ’’ فاصلہ کیسے کم کریں جب تم ہی نہ چاہو‘‘ یہ سن کر میں غصہ میں باہر نکل آئی اور اگلے دن مجھے معطل کر دیا گیا‘‘۔ (صفحہ26)۔

تیسرا تماشا جوش صاحب کے سفر خرچ کے بل کا ہے۔ آپ کوثر نیازی کی کتاب کی تقریب اجرا کے لیے تشریف لائے ۔ پرل کانٹی نینٹل میں ٹھہرائے گئے، بل دیا ’’ ٹرین کا ٹکٹ، ٹانگہ کا کرایہ، پاندان کا خرچ ، طعام و دیگر لوازمات‘‘ (صفحہ 26)۔

اور اصل تماشا تو جنرل نیازی کا ہے۔ ’’یوسف کامران اور اس کے ابا کو ملٹری والوں نے گرفتار کرکے کوٹ لکھپت جیل میں ڈالا ہوا تھا۔ ابا کی ضمانت تو ان کے عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے ہو گئی، یوسف کی ضمانت نہ ہو رہی تھی۔ ’’ لاہور کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل نیازی تھے ۔ وہ چاہتے تھے کہ میں ان کے گھر ان کے پاس جاؤں ۔ مقدمہ تو اعجاز بٹالوی لڑ رہے تھے ۔ یہ قصہ میں ان کو کیسے بتاتی؟ آخر کو ایک دن میں جنرل ٹکا کے گھر پہنچ گئی۔۔۔ میں نے انہیں جنرل نیازی کا پیغام سنایا اور کہا میں نے آج چار بجے اس کے گھر پہنچنے کا وعدہ کیا ہے۔ کہنے لگے چار تو بج رہے ہیں چلو میں تمہارے ساتھ تمہاری گاڑی میں چلتا ہوں۔ جب ہم ان کے گھر پہنچے تو جنرل نیازی برآمدے میں ٹہل رہے تھے۔ جنرل ٹکا نے کہا فوراً گاڑی واپس کرو۔ گھر جاتے ہی جنرل نیازی کو حکم دیا کہ یوسف کو فوراً رہا کرو، مقدمہ واپس لو۔۔۔۔ اگلے دن جب ضمانت کے پیپر تیار کروا کر میں جنرل نیازی کے دفتر پہنچی تو انہوں نے خاموشی سے دستخط کر دیئے میر ی طرف دیکھا بھی نہیں ‘‘ (صفحہ 18)۔

میں نے یہ تجزیہ اپنی یادوں کے حوالے سے شروع کیا تھا اب پھر لوٹتا ہوں ۔ کشور نے لکھا ہے ’’ جسٹس کیانی کو ہم نے یونیورسٹی میں بلایا تھا۔ چیف گیسٹ کی جگہ تھیف گیسٹ لکھا گیا کچھ نہ پوچھیں ہماری انہوں نے فقروں فقروں میں کیسی خبر لی‘‘ (صفحہ 88)۔

یہ واقعہ یوں ہے کہ یونیورسٹی یونین کے نئے عہدیداروں کا انتخاب ہوا۔ صدر کا تو یاد نہیں کون بنا، مجاہد ترمذی سیکرٹری بناتھا۔ یونیورسٹی کے بڑے اور وسیع وعریض ہال میں عہدیداروں کی حلف برداری کی پہلی تقریب تھی۔ وائس چانسلر سارے پروفیسرز اور ملحقہ کالجوں کے پرنسپلز اپنے اپنے اکیڈمیک گاؤنز پہنے موجود تھے۔ جسٹس کیانی مہمان خصوصی کے طور پر تشریف لا کر سٹیج پر تشریف فرما ہوئے۔ اس تقریب کی کاروائی کے کارڈ چھپوائے گئے تھے جو مہمانوں میں تقسیم کیے گئے۔ ایک کارڈ جسٹس کیانی کو بھی دیا گیا ۔ کیانی صاحب مسکرائے اور اپنا لکھا ہوا خطبہ ایک طرف رکھ دیا۔ تب ہم نے دیکھا کہ کارڈ پرچھپا ہوا ہے کہ ’’ تھیف گیسٹ مسٹر جسٹس کیانی خطبہ صدارت ارشاد فرمائیں گے‘‘ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔

جسٹس کیانی نے بات ہی یوں شروع کی ’’ میں یونین والوں کو داد دیتا ہوں کہ انہوں نے مجھے چیف گیسٹ کی بجائے تھیف گیسٹ لکھ کر بڑی دوراندیشی کا ثبوت دیا ہے۔ تھیف اور جج کا بڑا قریبی اور روزمرہ کا تعلق ہے ۔ ویسے بھی ہمارے ہاں چیف اور تھیف اور تھیف اور چیف میں کوئی زیادہ فرق باقی نہیں رہا‘‘۔ غرض کیانی صاحب نے ہمارے وہ لتے لیے کہ ہمیں دانتوں پسینہ آ گیا ۔ اور یہ 1958 کے اواخر کا زمانہ تھا۔ جنرل ایوب کے اقتدار کے آغا ز کا زمانہ۔ میرا خیال ہے یہ جسٹس کیانی کی پہلی تقریر تھی جس نے انہیں لوگوں میں مقبول و محترم بنایا اور پھر ’’ کیانیات‘‘ کا سلسلہ چل نکلا۔

ڈاکٹر پرویز پروازی
Latest posts by ڈاکٹر پرویز پروازی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).