اورنج لائن ترقی کا آخری زینہ ہے


آنکھ کھلی تو رات بھر لگاتار اے سی چلنے کی وجہ سے بدن اکڑ چکا تھا۔ ٹی وی لگایا، کوئی اہم خبر نہیں تھی، ساری خبریں نیلے یا سبز رنگ کی پٹیوں کے ساتھ چل رہی تھیں، دور دور تک لال ٹِکر کا نام و نشان نہیں تھا۔ ایک جمائی لی اور اخبار اٹھانے کا ارادہ کیا۔ دروازے پر جا کے پروگرام بدل چکا تھا۔ اسے وہیں کھلا چھوڑ کر واک کے لیے نکلنے کا خیال آیا۔ باہر چار طرف سبزہ ہی سبزہ تھا۔ سڑک کے دونوں جانب اتنے زیادہ اور ایسے گھنے درخت تھے کہ کوئی بھی حصہ درختوں سے خالی نظر نہیں آتا تھا۔ چلتے چلتے اچانک دور سے ایک گاڑی آتی دکھائی تھی۔ تھوڑا آگے ٹریفک سگنل تھا اور لال بتی جل رہی تھی۔ گاڑی خود بخود رک گئی، حالانکہ سڑک پر اس وقت وہ اکیلی گاڑی تھی۔ دو کلومیٹر لمبا چکر لگانے کے بعد بھی کوئی فقیر دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ چند بچے تھے جو خوشی خوشی ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے، آئی پیڈ ہاتھ میں اٹھائے سکول جا رہے تھے۔

مرکزی شاہراہ کے آس پاس بڑے بڑے اشتہاری بورڈ لگے ہوئے تھے جن پر بسنت میلے کا اعلان درج تھا۔ آج سے ٹھیک ایک ماہ بعد تین دن کے لیے بسنت ہونا تھی جس میں کونسلروں نے اپنے علاقے میں تمام افراد کو سرکاری خرچ پر پتنگیں اور ڈور مہیا کرنا تھے۔ پچھلے برس اسی تہوار پر کم از کم ستر ملکوں کے لاکھوں سیاح وطن عزیز آئے تھے اور حکومت نے عام لوگوں سے بھی مدد لی تھی کہ جو بندہ سیاحوں کو پےانگ گیسٹ رکھنا چاہے وہ آن لائن فارم بھر دے۔

واپس آ کر اخبار اٹھایا۔ اہم سرخیاں دیکھیں۔ ہر طرف مختلف وزرا سے ترقیاتی معاہدوں کی تفصیل کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا۔ شدید گرمی کے موسم میں انسانی ہمدردی کے ناطے پڑوسی ملک کو سستی بجلی دینا تھی تو اس کے وزیر مملکت آئے ہوئے تھے۔ ایک اور برادر ملک کو چند ارب روپے ترقیاتی قرض کی مد میں درکار تھے، فنانس منسٹر کا بیان اس قرضے کی پالیسی پر نظر آیا۔ گیس جس علاقے سے نکلتی ہے، وہاں پورے صوبے میں پہنچانے کے بعد بھی اتنے ذخیرے نکل آئے تھے کہ حکومت نے اگلے پانچ برس تک گیس مفت فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ چند سابق سوشلسٹ ملکوں کے یہاں ٹرینوں کا حساب کتاب دیکھنا تھا تو یہاں کے انجینئیر وہاں جا رہے تھے۔ سرکار تین نئی لائبریریاں اور دو پلے گراؤنڈ بنوانا چاہ رہی تھی۔ شہر کی تین بڑی یونیورسٹیوں میں ملک کی ایک سو پچاس سالہ تاریخ پر لیکچر دینے کے لیے سارے صوبوں کے اہم تعلیمی اداروں سے پروفیسر آ رہے تھے۔

ایک دوست کے والد سرکاری ہسپتال میں داخل تھے۔ ادھر جانے کا ارادہ کیا۔ ساری رات بہت تیز بارش ہوتی رہی تھی اور ہسپتال اسٹیشن سے آگے جا کر آنا تھا لیکن ابھی پچھلے برس پورا ہفتہ ہونے والی بارشوں میں کہیں پانی کھڑا نہیں ہوا تو اب کیوں ہوتا، بے خیر کار نکال لی۔ سڑک پر تمام گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں نہایت اطمینان سے چل رہے تھے۔ چوک آیا تو ٹریفک سارجنٹ دکھائی دیا، بت بنا اپنی جگہ پر کھڑا تھا، اس کے واسطے کرنے کو بچا ہی کچھ نہیں تھا۔ سگنل کھلا تو تھوڑا آگے دو بچیاں سکرٹ اور ٹی شرٹ پہنے زیبرا کراسنگ پر سڑک کراس کر رہی تھیں۔ ساری گاڑیاں دوبارہ خود بخود آہستہ ہو گئیں، موٹر سائیکل والے بھی احتراماً رک گئے۔ کوئی ان کا حلیہ نہیں دیکھ رہا تھا، بس اس چیز کا انتظار تھا کہ وہ اطمینان سے پار چلی جائیں۔

ہسپتال پہنچ کر بیسمنٹ میں گاڑی کھڑی کی۔ چھ لفٹیں مسلسل اسی کام پر موجود تھیں کہ مریضوں اور ان کے ساتھ آنے والوں کو متعلقہ وارڈ کی منزل پر پہنچا دیں۔ ایک لفٹ روکی، اس کے اندر جا کر دیکھا تو بڑے بڑے سے بٹن تھے جن پر گنتی یا منزل نمبر کے ساتھ ساتھ جسم کے اعضاء بنے تھے۔ جس نے دل کے وارڈ جانا ہوتا وہ دل پر انگلی رکھ دیتا، گردے والے اپنی مطلوبہ تصویر دیکھ کر بٹن دبا دیتے باقی تفصیل اردو اور انگریزی میں بٹنوں کے نیچے لکھی ہوئی تھی۔ مطلوبہ منزل پر جا کر لفٹ کھلی تو سامنے لیموں کی ریفریشنگ خوشبو سے مہکتا ہوا وارڈ تھا۔ چمک دار ٹائلیں لیکن ایسی کہ پاؤں سلپ نہ ہوں، چاروں طرف ایک عجیب سی طمانیت پھیلی ہوئی تھی۔ چہروں پر اپنی باری کا انتظار لیکن کامل سکون لیے مریض آرام دہ صوفوں پر بیٹھے تھے اور سامنے موجود سکرین پر اپنے نام اور پہلے سے دی گئی سلپ پر موجود نمبر کا انتظار کر رہے تھے۔ دوست کے والد کو دیکھنے کے لیے وارڈ میں جانے کا ایک گھنٹہ مخصوص تھا، دوست بھی وہیں لابی میں انتظار کر رہا تھا۔ باقی وقت نرسیں اور ڈاکٹر مکمل ذمہ داری سے تمام مریضوں کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ عملہ اتنا زیادہ اور ایسی اچھی تنخواہ پر تھا کہ نہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ وقت شروع ہونے کے بعد ان کی مزاج پرسی کی۔ صاف ستھرے اجلے سفید بستر پر ڈسپوزیبل کمبل ٹانگوں تک اوڑھے وہ ابھی ناشتے سے فارغ ہوئے تھے۔ ساتھ لگی سکرین پر انگلی رکھ کر ان کا پیشنٹ چارٹ نکالا۔ سب کچھ نارمل تھا۔ دو روز بعد انہیں ڈسچارج ہونا تھا۔ اگلے تین ماہ کی پیٹنٹ مالیکیول اصلی دوا وہیں سے ہسپتال والوں نے دے کر رخصت کرنا تھا۔ ایک گھنٹہ ختم ہوا تو ان سے اجازت لی۔

دفتر کے راستے میں ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ ہونا تھا۔ احتجاج اس بات پر تھا کہ معمولی پڑھی لکھی خواتین کو دی جانے والی ٹیکسیوں کا رنگ پنک کیوں ہے، یہ تو صنفی مساوات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ وہاں سے گذر ہوا تو دیکھا کہ تمام لوگ سڑک کا ایک چوتھائی حصہ احتجاج کے لیے گھیرے کھڑے ہیں باقی ٹریفک حسب معمول رواں دواں تھا۔ ان لوگوں نے ہاتھوں میں بڑے بڑے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے اور سب خاموشی سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہے تھے۔ ڈیڑھ کلومیٹر طویل اس مظاہرے کی حفاظت پر صرف دس سیکیورٹی اہلکار موجود تھے اور وہ بھی اطمینان سے اپنی جگہ کھڑے ہوئے تھے۔ بس اب تھوڑا ہی راستہ رہ گیا تھا۔ دائیں ہاتھ چند مشہور مغربی ممالک کی ایمبیسیاں تھیں اور اس سے آگے دو کلومیٹر بعد دفتر کے لیے ٹرانسپورٹ مل جانا تھی۔ ایمبیسیوں والا سٹاف حسب معمول باہر بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا۔ ہفتوں میں کوئی ایک آدھ درخواست ان کے پاس آتی تھی وہ بھی کوئی ایسا کیس جس نے وہاں جا کر ان کے یہاں ہونے والی دہشت گردی کا جائزہ لینا ہو ورنہ کسی کو ایویں کیا ضرورت جو اپنا وقت کھوٹا کرے۔

سرکاری ٹرانسپورٹ کی پارکنگ آ چکی تھی۔ یہ پارکنگ خود کار طریقے سے بہت سی گاڑیوں کو اوپر نیچے متحرک پلیٹ فارمز پر کھڑا کرتی تھی۔ اسے بنانے کی ضرورت بھی یوں پیش آئی کہ شہر کا ہر شخص کامیاب گورنمنٹ پالیسیوں کی وجہ سے اب اپنے ذاتی مکان کا مالک تھا، چاہے وہ ایک کمرے کا فلیٹ ہی کیوں نہ ہو تو وسیع و عریض پارکنگ کے لیے جگہ ملنا ممکن نہیں تھا، بس اتنی جگہ میں یہی انتظام ہو سکتا تھا اور یہ بہترین تھا۔ آٹو میٹڈ پارکنگ میں گاڑی لگائی اور ٹوکن لے کر باہر کا رخ کیا۔ سامنے چمچماتی ہوئی اورنج لائن ٹرین موجود تھی۔ بیس منٹ بعد وہ میٹرو سٹیشن پہنچا گئی۔ جہاں اس کا آخری سٹاپ تھا، وہیں دفتر تھا۔ میٹرو بس نے منزل تک پہنچایا، رکی اور اترتے ہوئے ایک سیڑھی سے پاؤں پھسلا تو آنکھ کھل گئی۔

آنکھ کھلی تو احساس ہوا کہ میٹرو یا اورنج لائن اس لمبے خواب کا آخری حصہ تھا، جو ہم پہلے حاصل کر گئے۔ ابھی پوری رات باقی ہے، ابھی پورا خواب باقی ہے۔ ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain