پیر فرتوت!


پیرکا لفظ فارسی زبان سے اردو میں آیا اور اس کے معنی، بوڑھا یا ضعیف کے لیے جاتے تھے۔ زمانہ الفاظ کو نئے معنی عطا کرتا ہے۔ آج کل پاک و ہند میں پیر کا لفظ بمعنی روحانی پیشوا کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ چونکہ الفاظ کبھی بھی مکمل ابلاغ نہیں کر پاتے اس لیے، نہ تو روحانی پیشوا کا لفظ کبھی مکمل طور پہ سمجھ میں آیا اور نہ ہی پیر کے لفظ کی گتھی ہی سلجھ سکی۔

معاشرہ جس طرح رو بہ زوال ہے، اس میں ہر اچھی شے ماضی میں پائی جاتی ہے، حال خاصا بد حال ہے۔ بڑے لیڈر، بڑے مصنف، گیت کار، فلمساز، اداکار، سائنسدان، سب کے سب ماضی ہی میں پائے جاتے تھے۔ اسی طرح سچے پیر، اچھے مرید بھی ماضی کا قصہ ہو چکے ہیں۔ پچھلے دنوں سرگودھا کے نواحی گاؤں، چک 95 کے ایک پیر نے اپنے 20 مریدوں کو تشدد کر کے قتل کر دیا۔

پیر صاحب موصوف جلالی مانے جاتے ہیں اور شنید ہے کہ اکثر اپنے مریدین پہ ’دستِ شفقت‘ پھیرنے کے عادی تھے۔ گناہ جھاڑنے کے اس عمل کو ان کے مریدین بخوشی قبول کر چکے تھے اور بد ترین تشدد کا یہ سلسلہ دو روز سے جاری تھا۔ دماغی طور پہ صحت مند کوئی بھی شخص 48 گھنٹوں تک 20 سے زائد لوگوں کو ڈنڈوں چھریوں سے نہیں مار سکتا۔ ایسا شخص ظاہر ہے مجرمانہ بلکہ خوفناک حد تک مجرمانہ ذہن کا مالک ہوگا۔

سوال یہ ہے کہ اس مجرمانہ خصوصیات کے شخص کو نہ صرف بہت سے لوگوں نے اپنا پیر مان رکھا تھا بلکہ موصوف، الیکشن کمیشن میں ملازم بھی تھے۔ طرفہ تماشا یہ کہ انھیں اب بھی یقین ہے کہ سورج کی کرنیں نمودار ہونے پر یہ سب لوگ زندہ ہو جائیں گے۔ پولیس کو شک ہے کہ نہ معاملہ اتنا سیدھا ہے اور نہ پیر صاحب اتنے بھولے، یہ سیدھا سیدھا گدی نشینی کا معاملہ ہے۔

برصغیر میں، جہاں عظیم الشان بادشاہ گذرے، وہیں ہر بادشاہ کے عہد میں اس کے تاج وتخت کو للکارتا اور اس کی سلطنت کو ٹھوکروں پہ رکھتا صوفی بھی گذرا ہے۔ پھر بادشاہ تو رخصت ہوئے اور سوا تاش کے پتوں اور تاریخ کی کتابوں کے کہیں نہ رہ گئے۔ مگر صوفیوں کے سلسلے اور خانقاہیں اسی طرح مرجع خلائق رہیں۔

وہ ہی لوگ جو اپنے سامنے کسی کا چراغ نہیں جلنے دیتے، ان مزارات اور خانقاہوں پہ برہنہ پا چلے آتے ہیں۔ اس عقیدت نے جہاں بہت سے بے گھر، بے در، معاشرے کے دھتکارے لوگوں کے لیے مستقل رہائش اور خوراک کا بندوبست کر رکھا ہے وہیں بہت سے نفس کے غلاموں اور بھیڑ کی کھال میں بھیڑیوں کو بھی پناہ دے رکھی ہے۔

اولیا، صوفی، قطب، ابدال، مجذوب، پیر، خلیفہ، یہ سب کے سب انسانیت کی بھلائی کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر گئے۔ حضرت نظام الدین اولیاء سے بادشاہِ وقت نے شکوہ کیا کہ آپ کے اصطبل میں گھوڑے سونے کی میخوں سے بندھے ہوئے ہیں، جناب محبوب الہیٰ نے فرمایا کہ:

کجا اندا ختم دردل
مگرانداختم در گل

(میں نے سونے کی میخیں اپنے دل میں نہیں گاڑیں، مٹی میں گاڑی ہیں جن پہ گھوڑے پیشاب کرتے ہیں)

یہ ہی وہ باریک سا فرق تھا جو شاہوں کی سلطنت اور فقیروں کی درگاہوں کے درمیان حدِ فاصل تھا اور اول الذکر پہ نحوست کے بادل کی طرح تنا رہا۔ بادشاہ تو رخصت ہوئے مگر نیرنگی زمانہ دیکھیے، وہ سونے کی میخیں، مزاروں کے گدی نشینوں اور متولیوں کے دلوں میں گڑ گئیں اور ایسی گڑیں کہ آنکھوں پہ بھی طمع کے کھوپے چڑھ گئے۔ آج حال یہ ہے کہ پیری مریدی سے زیادہ منفعت بخش کاروبار کوئی اور نہیں۔

‘پیر غائب علی شاہ‘ کا قصہ کتنے ہی صحافی دوستوں کو معلوم ہو گا۔ بے شمار جعلی مزار، ڈبہ پیر، ڈھونگی بابے اور نا اہل گدی نشین (مع ان لالچی لوگوں کے جو تصوف کو مغرب کو بیچنے کے داؤ میں خود ساختہ صوفی بنے ہوئے ہیں)، ملکِ عزیز کے طول و عرض میں انجے پنجے پھیلائے پڑے ہیں۔ لمبے بال، چرس کے سوٹے، الجھی الجھی باتیں، موٹی موٹی انگوٹھیاں اور طوطے کی سی آنکھیں بنا کر خود کو صوفی ثابت کرتے یہ لوگ صرف دولت اور اثر و رسوخ کے لیے یہ وضع اختیار کرتے ہیں۔

کون نہیں جانتا کہ آج بڑے بڑے سلسلوں کی گدی نشینی کے لیے کیا کیا تگ و دو نہیں چل رہی؟ باپ اپنی اولاد کو ناجائز کہہ رہے ہیں اور اولاد اپنے باپ کو بد کردار کہہ رہی ہے۔ وقف کی املاک کس طرح ذاتی تصرف میں لا کر اجاڑی جا رہی ہیں، مریدوں کو کس طرح لوٹا جارہا ہے، چراغی کی پیٹی کی چابی ہتھیانے کو کیا کیا نہیں کیا جا رہا؟

ان حالات میں کچھ عجب نہیں کہ پیر صاحب نے گدی حاصل کرنے کی جھلاہٹ میں مریدوں ہی کو جان سے مار ڈالا۔ میری باقی ماندہ پیروں کے مریدوں سے مؤ دبانہ گذارش ہے کہ، بیعت سے پہلے ذرا آنکھیں کھلی رکھیں، بد کاری، بد مزاجی، ظلم اور لالچ، کبھی بھی صوفیوں کا شیوہ نہیں رہی۔ جن پیروں کا اپنا قبلہ درست نہیں وہ آپ کو کہاں لے جائیں گے؟ بہت سے بہت اسی بربادی کے گڑھے میں جہاں سرگودھا کے پیر صاحب نے اپنے مریدوں کو پھینکا؟ یاد رکھیے! ایسا سورج جو مردوں کو زندہ کر دے گا، صرف ایک ہی بار طلوع ہو گا اور وہ صبح ابھی نہیں آئی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).