کرہ ارض پر مسلمانوں کی حیثیت


ایک زمانہ تھا کہ مسلمان اس کرہ ارض کے بڑے رقبے کو فتح کر چکے تھے۔ تب کی معلوم دنیا یورپ، ایشیا اور افریقہ تک محدود تھی۔ پھر1492ء کے بعد نئی دنیا دریافت ہونا شروع ہوئی۔ یورپین مہم جو کئی مہمات کے بعد براعظم شمالی امریکہ دریافت کرچکے تھے۔ سپین کے مہم جوؤں نے وسطی امریکہ اور لاطینی امریکہ بھی معلوم کرلیا۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ تک یورپی لوگ ہی پہنچے۔ اس دور میں سپین سے غرناطہ کی آخری مسلم ریاست بھی ختم ہو گئی۔ لٹے پٹے مسلمان کسمپرسی کی حالت میں شمالی افریقہ واپس آگئے۔ یورپ میں آگے بڑھنے والے عثمانی تھے۔ جو چند صدیوں تک اپنا رعب و دبدبہ برقرار رکھنے کے بعد واپس اپنے ہوم لینڈ ترکی آ گئے۔ گزشتہ چند صدیوں میں مسلمان پیچھے تو ہٹے لیکن کسی نئے علاقے کو فتح نہ کر سکے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب سپین اور پرتگال کے لوگ نئے نئے براعظم دریافت کررہے تھے اور وہاں یورپ کی عیسائی اقوام کو بسارہے تھے۔ مسلمان تب کہاں تھے؟ نئی دنیا کی دریافت کی صدیوں میں عثمانیوں کا رعب ودبدبہ کرہ ارض پر محسوس کیا جاتا تھا۔ ایران اور ہندوستان میں بھی مسلم بادشاہوں کی طاقتور حکومتیں قائم تھیں۔ کرہ ارض پر نئی دنیا کی دریافت کرنے والا بڑا واقعہ ہو رہا تھا۔ لیکن مسلمانوں کی طرف سے ان نئے علاقوں کی طرف کوئی بحری مہم روانہ نہیں کی گئی۔ مسلمان لوگ اپنے ابتدائی فتح کئے ہوئے علاقوں تک محدود رہے۔ اوریہ علاقہ صرف ایشیا اور افریقہ کی پرانی معلوم دنیا تک ہی تھا۔ جب صلیبی جنگیں لڑی جارہی تھیں تب عیسائی دنیا صرف اور صرف یورپ تک محدود تھی۔ مشرق وسطیٰ کے قدیم آباد علاقوں میں بھی عیسائی قوم موجود تھی۔ لیکن آج اگر ہم کرہ ارض پر نظر ڈالیں تو منظر1492ء سے مختلف معلوم ہوتا ہے۔

ایک نقشے میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے علاقوں کو رنگوں سے ظاہر کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے لئے سبز رنگ اور عیسائی اقوام کے لئے سرخ رنگ (پروٹسٹنٹ کے لئے نیلا) رکھا گیا۔ سرخ (اور نیلا) رنگ پورے کرہ ارض پر چھایا ہوا نظر آتا ہے۔ یورپ تو قدیم زمانے سے ہی عیسائی ہے۔ نئی دریافت ہونے والی تمام دنیا براعظم شمالی امریکہ، براعظم جنوبی امریکہ، براعظموں جیسا بڑا علاقہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ اب عیسائی ہے۔ روس جس کے پاس اب بھی کرہ ارض کا بڑا علاقہ ہے یہ شمال مشرق اور مغرب دونوں طرف پھیلا ہو ا ہے۔ اور پھر افریقہ کا صحرائی علاقہ اور جنوب ایشیاء میں فلپائن اور جنوبی سوڈان۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے سرخ رنگ نے پورے کرہ ارض پر قبضہ جما رکھا ہے۔ اگر عیسائیوں اور مسلمانوں کی تعداد پر نظر ڈالیں تو کوئی بہت بڑا فرق نظرنہیں آتا۔ 2010ء کے ایک عالمی سروے کے مطابق عیسائیوں کی تعداد 2.2 بلین جو کل آبادی کا 32 % ہیں۔ اس کے بالمقابل مسلمانوں کی تعداد1.6بلین جو کل آبادی کا 23 % ہیں۔ ہندوایک ارب سے کم اوربدھ مت کو ماننے والوں کی تعداد 50 کروڑ کے قریب ہے۔ بدھ مت اور ہندومت کو ماننے والے صرف ایشیا میں رہتے ہیں۔ تعداد میں تو مسلمان کافی ہیں لیکن اگر نقشے پر سبز رنگ کے علاقے کو دیکھتے ہیں تو وہ سرخ رنگ کے مقابلے میں بہت ہی چھوٹا ہے۔

نقشے کو دیکھنے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کرہ ارض سرخ یعنی عیسائی ہے۔ اور مسلمان عیسائی کرہ ارض کے ایک چھوٹے سے حصے پر زندگی گزار رہے ہیں۔ جو علاقے یا براعظم عیسائی دنیا کے پاس ہیں۔ وہاں کے بے شمار وسائل وہ استعمال کر رہے ہیں۔ زرعی زمین، جنگلات، معدنیات، پانی کے وسائل، انرجی کے لئے ہوا کے بے شمار وسائل سولر وسائل، لاکھو میلوں پر پھیلے سمندری وسائل۔ گزشتہ 5 صدیوں میں یورپ اور امریکہ نے سماجی علوم اور قدرتی علوم میں بے شمار ترقی کی۔ اور انہی علوم نے آگے بڑھ کر نئی سے نئی ٹیکنالوجیز پیدا کیں۔ نئی سے نئی ایجادات کے مراکز بھی یورپ اور امریکہ ہی معلوم ہوتے ہیں۔ کائنات کے نئے نئے گوشے بھی یورپ اور امریکہ والوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہیں۔ چاند کی تسخیر تو اب قصہ یارینہ ہوچکی ہے۔ اب تو مغرب ہماری زمین سے 4 کروڑ 75 لاکھ کلومیٹر دور مریخ پر جانے کی تیاری کررہا ہے۔ مریخ پر اب تک چار گاڑیاں (لیبارٹریز) پہنچائی جاچکی ہیں۔ سورج کے گرد گھومنے والے تمام سیاروں کے بارے مغرب کی تیارکردہ رصد گاہوں اور دوربینوں نے بے شمار معلومات اکٹھی کر لی ہیں۔

مغرب کی طاقت کاایک راز سائنس اور ٹیکنالوجیز کی وجہ سے ہے۔ اور وہ لوگ اب بھی تحقیقی کاموں پر اربوں ڈالر خرچ کرکے نئی سے نئی اشیا بناتے چلے جا رہے ہیں۔ اب مغرب کا دور سروسز کا دور کہلاتا ہے۔ اسے آپ پوسٹ انڈسٹریل دور بھی کہہ سکتے ہیں۔ مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان اب کبھی بھی مغربی دنیا (عیسائی دنیا) کو Catch upنہیں کر سکیں گے۔ رقبے اور سائنس وٹیکنالوجی نے اب بہت بڑا  Gap پیدا کر دیا ہے۔ مغرب جب چاہتا ہے مسلم دنیا کو روند دیتا ہے۔ 9/11 کے بعد جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا وہ ہم سب کو بہت اچھی طرح یاد ہے۔ گزشتہ 20 برس کے دوران عیسائی بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور اندازہ یہ لگایا جارہا ہے کہ اب سے20سالوں کے بعد مسلم بچوں کی مجموعی تعداد سالانہ حساب سے بڑھ جائے گی۔ لیکن یہ تو صرف ایک پہلو آبادی کی خبر ہے۔ کیا ہم رقبے کا فرق کم کرسکتے ہیں؟۔ یہ آج کل کے ماحول میں ناممکن ہے۔ اقوام متحدہ کو بھی آپ عیسائی کلب کہہ سکتے ہیں۔ عیسائیوں کے 157 ممالک کے بالمقابل مسلمانوں کے صرف 50 ممالک۔ ان میں سے بہت سے ایسے جو صرف گنتی کے لئے ہیں۔ آج کل بھی دو بڑی عیسائی طاقتیں روس اور امریکہ شام میں کھلی مداخلت کر رہی ہیں۔ مسلم ممالک کچھ روس کے ساتھ اور کچھ امریکہ کے حامی۔ مسلمانوں کی اجتماعی سوچ مرچکی ہے۔ اسے زندہ کرنا ضروری ہے۔ 40۔ ممالک کا اتحاد۔ امید کی ایک کرن ہے۔ مسلمانوں کے لئے “ایک ہو جانا” ہی بچنے کا طریقہ ہے۔ آخری بات جو مسلمانوں کے لئے ضروری ہے۔ تمام مسلم اقوام سائنس وٹیکنالوجی میں تیزی سے آگے بڑھیں۔ اپنی تحقیقات کو نئی نئی ٹیکنالوجیز میں ڈھالیں۔ اپنے تمام شعبہ جات میں اپنی تخلیق کردہ ٹیکنالوجیز کو استعمال کرنا سیکھیں۔ مغرب اور دوسرے ممالک سے بنی بنائی (تیارشدہ) اشیا نہ منگوائیں بلکہ خود اشیا سازی کریں۔ مسلمان اقوام انڈسٹریل دور میں تیزی سے داخل ہوں اور اشیا و مشینری میں خود کفیل ہوں۔ پھر یہاں سے مشینری ایکسپورٹ کریں۔ اس طرح دولت جو اب مشرق یعنی مسلم ممالک سے مغرب کو جاتی ہے۔ اس کے سفر کا رخ بدل جائے گا۔ مسلم اقوام جمود کا شکار ہیں۔ ذہنی جمود کو توڑ کر آگے کی طرف سفر کرنا شروع کریں۔ مسلمان کرہ ارض پر اپنا وجود بطور ایک “قوت” کے ثابت کر کے ہی وقار سے زندگی گزار سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).