جمعیت علمائے اسلام کا صد سالہ اجتماع۔۔۔۔ اہل پاکستان کو مبارک ہو


جمعیت علمائے اسلام کی بعض پالیسیوں سے ہمیشہ اختلاف رہا جس کا اظہار مختلف مواقع پر کرتا رہا مگر صد سالہ اجتماع کی کامیابی کے لیے دعا گو رہا صرف دعا گو ہی نہیں بلکہ ڈٹ کے دفاع بھی کیا۔ اس دفاع کے پیچھے مذہبی یا مسلکی محبت کارفرما نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے دو بڑی وجوہات تھیں جس کی وجہ سے ہم نے مسلسل اس اجتماع کا دفاع کیا۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ دو وجوہات کیا تھیں؟

 میری پڑھنے والوں سے گزارش ہو گی کہ مولانا فضل الرحمن سے نفرت بعد میں ضرور کر لینا مگر پہلے میری گزارشات پڑھ لیں۔

سب سے پہلی وجہ امن ہے اس ملک کے امن کو جہاں دیگر لوگوں نے تباہ کیا وہیں اسلام کا نام لے کر بھی کچھ لوگوں نے اندھیر نگری مچائے رکھی۔ دہشت گردوں نے نوجوانوں کے ذہن میں یہ بات ڈالی کہ یہ ملک دارلاسلام نہیں، دارالحرب ہے۔ اسکی فوج مرتد اور سیاستدان بکاؤ ہیں۔ یہاں کی عوام بھی مرتد ہے۔ کالج یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلباء کل ہمارے دشمن ہونگے لہذا ان کا قتل جائز ہے۔

اور تو اور معصوم بچوں کو صرف اس وجہ سے مارا گیا کہ یہ ہمارے دشمن کے بچے ہیں۔ کوئی جگہ ایسی نہیں تھی جہاں حملہ نہیں کیا گیا۔ ہمارے فوجی، ہمارے سیاستدان، ہماری پولیس، ہمارے مذہبی رہنماؤں کو چن چن کے نشانہ بنایا گیا۔ مساجد، مزار، چرچ بھی محفوظ نہیں تھے۔ انسانوں میں جو بھی منہ کھولتا، اس کا منہ بند کر دیا جاتا۔

ستم دیکھیں کہ اتنے مظالم کے باوجود بھی دہشت گردوں کو تازہ خون مل رہا تھا۔ نوجوان ان کی طرف جا رہا تھا۔ اس صورت حال میں دو لوگ سامنے آئے جنہوں نے اس ظلم کو روکا ایک فوج، دوسرے علمائے کرام۔

فوج نے دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کیے، انہیں دربدر کیا اور چن چن کے دہشت گردوں کو نشانہ بنایا۔ فوج نے دلیری سے جنگ لڑی۔ مایوس قوم کو زندگی کی امید دی۔ جنرل راحیل نے بڑے پیمانے پر کارروائیاں کیں۔  مگر یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ نظریہ گولی کی وجہ سے ختم نہیں ہوتا۔ جہاں موت کو خوبصورت چیز بنا دیا جائے، وہاں موت سے ڈرنا کیسا؟ لوگوں کو تیار ہی مرنے کے لیے کیا جاتا تھا۔

گولی سے انسان مرتا ہے، نظریہ نہیں۔ نظریہ دلیل سے مرتا ہے۔ نظریے کا رد نظریہ ہی کر سکتا ہے۔ دہشت گردی کے نظریے کے مقابل علماء نے نظریہ دیا کہ مسلح جنگ جائز نہیں۔ خود کش حملے حرام ہیں۔ جمہوری و سیاسی جدوجہد ہی اصل جدوجہد ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے دیوبند کے اکابرین کو ایک جگہ جمع کر کے یہ فتوی لیا اور پھر کوئٹہ اور پشاور کے پینتیس ہزار علمائے کرام سے اس پہ دستخط کروا کے اسپیکر کے حوالے کیا۔

یہی وجہ بنی مولانا فضل الرحمن پہ خود کش حملوں کی۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنے چاہنے والوں کو پیغام دیا کہ جمہوری جدوجہد کریں گے۔ اسلحہ کسی نے نہیں اٹھانا۔ مولانا فضل الرحمن نے دہشت گردوں کی فکری سپلائی لائن کاٹی۔ اگر یہ فکری سپلائی لائن بحال رہتی تو آج پاکستان میں امن نہ ہوتا۔

اس وقت یہ کام محدود پیمانے پہ کیا گیا۔ اب مولانا نے کھل کے یہ کام کیا۔ تین دن اجتماع کر کے دنیا والوں کو پیغام دیا کہ مٹھی بھر لوگ اسلام کے نمائندے نہیں ہیں۔ اسلام امن کی بات کرتا ہے اسلام پیار کا درس دیتا ہے۔ اصل طاقت عدم تشدد کی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے دنیا بھر کی مذہبی جماعتوں کو حضرت شیخ الہند اور حضرت باچا خان کا فلسفہ عدم تشدد یاد دلایا۔

مذہبی اسٹیج سے فلسفہ عدم تشدد کے احیاء کا فائدہ صرف جمعیت علمائے اسلام کو نہیں بلکہ پورے ملک کو ہو گا۔ ہمیں اختلافات سائیڈ پہ رکھتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کو مبارک باد دینی چاہیے۔ مولانا نے ہمارے حصے کا بھی کام کیا ہے۔

اس اجتماع کا ساتھ دینے کی دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ اس اسٹیج سے اتحاد کا پیغام دیا گیا۔ اس اسٹیج سے ہندو اور مسیحی برادری کے رہنماؤں نے خطاب کیا ۔ اس اسٹیج پہ کیمونسٹ چائنیز موجود تھے۔ اس اسٹیج پہ ملک کی تمام جمہوری پارٹیوں کے نمائندے موجود تھے۔ کیا سیکولر اور کیا لبرل، سبھی موجود تھے۔ سب کو ایک چھتری تلے جگہ جمع کرنا آسان کام ہے؟ تنگ نظری کے طعنے والوں کو اعلی ظرفی کے تمغے بھی دینے چاہیں۔

ایک دلچسپ کام یہ ہوا کہ مولانا کے اسٹیج پہ جہاں اہل تشیع کی قیادت موجود تھی وہیں سپاہ صحابہ کی قیادت بھی موجود تھی۔ اسی کی دہائی کے بعد شیعہ سنی جنگ چھیڑی گئی۔ شیعہ سنی لڑائی کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کا خون بھی بہا۔ لفظ شیعہ گالی بنا دیا گیا تھا شیعہ کے ساتھ اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا حرام قرار دیا گیا۔  مگر مولانا فضل الرحمن نے آگ و پانی کو ایک جگہ جمع کر دیا مولانا نے مذہبی سیاسی و مسلکی نفرت کو محبت میں بدلا ہے۔ جو لوگ یہ کام چھوٹے پیمانے پر کر رہے تھے۔ ان کی آسانی کے لیے مولانا نے یہ کام بڑے پیمانے پر کر دیا ہے۔

ان کاموں کے دو فائدے ہوں گے۔ ایک فائدہ یہ ہوگا کہ دنیا کے سامنے اسلام کا خوبصورت چہرہ جائے گا۔ اور دوسرا اس کام کی وجہ سے بدامنی نہیں ہوگی اور جہاں بدامنی نہیں ہوتی، وہاں تجارت ہوتی ہے، لوگ سرمایہ لگاتے ہیں۔ ملک میں سی پیک کے منصوبے پہ کام جاری ہے۔

اس اجتماع سے ملک کو فائدہ ہو گا، اس لیے میں اہل پاکستان کو جمعیت علمائے اسلام کے صد سالہ اجتماع کی کامیابی مبارک باد دوں گا۔ آپ ایمانداری سے بتائیے کہ کیا یہ مبارک کام نہیں تھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).