جمعیت علما کا اجتماع اور پشتون افغان ملت کا اتنڑ


پاکستانی معا شرہ وہ معاشرہ ہے جہاں  ایک طرف عورت گناہگاراور ناقص العقل سمجھی جاتی رہی ہے۔ عورت اپنے مضبوط، کمزور اور کبھی کبھی ناتواں کندھوں پر اپنے خاندان ، قبیلے اور کبھی کبھی پورے معاشرے کی عزت لیے پھرتی ہے۔ اُس کے لیے معاشرے نے ایک چوکھٹا یا فریم بنا رکھا ہے کہ اگر اُس فریم سے زرا ادھر اُدھر ہوئی تو خراب عورت اور زرا جو اور کھسکی تو بےغیرت اور پھر اُس کے غیرت مند گھرانے اور غیرت مند معشرے کے مرد اُس کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کا بھی پورا حق رکھتے ہیں۔ دوسری طرف اُس کو انسان سمجھ کر اُس کو تمام حقوق دئیے جاتے ہیں اور اُس کا پرچار بھی کیا جاتا ہے۔  سوچ کی اس تفریق کو سمجھنا ضروری ہے۔

کل خیبر پختونخوا میں دو بڑے پروگرام ایک ساتھ منعقد ہوے۔ ایک طرف پاکستان کی بڑی مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے صد سالہ تقریب اور دوسری طرف پشتون افغان ملت کا ایک بہت بڑا اتنڑ کا ثقافتی تقریب جو کہ پشاور کے باغ ناران میں منعقد ہوا۔ جمعیت کی تقریب میں خواتین کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ جمعیت علما اسلام کے صوبائی رہنما کے مطابق عورتوں کو اس لئے ان کی تقریب صد سالہ میں نمائندگی نہیں دی گئی تھی کہ جمعیت عورتوں کےلئے ایک علیحدہ تقریب منعقد کرے گی۔

دوسری طرف بھلا ہو اس ثقافتی اتنڑ تقریب کے منتظمین کا جنہوں نے اپنے اس تقریب کو خواتین کی شرکت کے لئے بھی موزوں سمجھا۔ اور مختلف طبقہ ہائے فکر سے نمائندگی کرنے والی خواتین کو شرکت کی دعوت دی تھی۔ چونکہ اتنڑ کی تاریخ یہ رہی ہے کہ یہ گھریلو خوشیوں اور میلوں میں مشترکہ طور پر کیا جاتا ہے۔ جس میں مرد اور عورتیں اکھٹے حصہ لیتے ہیں۔ مگر اس تقریب میں عورتوں نے صرف بحیثیت تماشائی شمولیت کی تھی۔

مردوں کے اس ہجوم اور پدرسری نظام کے اندر ان چند بہادر خواتین نے روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان اتنڑ کرنے والے مردوں کو داد دی، تالیاں بجائیں اور اپنی حیثیت کے مطابق ڈھول بجانے والوں کو نقدی کی صورت میں بخشش دیتے ہوئے سراہا۔      اتنڑ کرنے والے نوجوان مرد و حضرات نے روایتی پگڑیاں پہن رکھی تھیں جن کو آج کل لوگ  ثقافتی تقریبات کے علاوہ پہنتے ہوئے بہت کم نظر آتے ہیں۔ اور اس تقریب کے اختتام پر چند خواتین نے خواہش ظاہر کی کہ وہ بھی یہ روایتی پگڑیاں صرف تصویر لینے کےلئے پہننا چاہتی ہیں۔ تو وہاں موجود نوجوانوں نے ان کو اپنی پگڑیاں پیش کردیں۔  چند لمحے پگڑیاں چادروں کے اوپر باندھ کر تصویریں لیں۔ اور پگڑیاں اتنڑ کرنے والوں کو واپس کر دیں۔

پگڑی چونکہ گندھارا تہذیب کی نشانی سمجھی جاتی ہے جو کہ ہزاروں سال پرانی ہے اور اس کو اپنی قدیم ثقافت سمجھ کر آج تک ہمارے بڑے بزرگ پہنتے ہیں۔ جو کہ ایک شان سمجھی جاتی ہے اور پگڑی والے لوگ بیشتر تو ہوشیار اور رہنمائی کرنے والوں میں گنے جاتے ہیں۔ اور اکثر پشتو ٹپے بھی اس کی عکاسی کرتے ہیں۔ “زہ چی زو کابل تہ او بہ کو سیالے۔۔۔۔ زان لہ بہ پیزوان واخلم تا لہ شملہ گے” جہاں محبوبہ اپنے محبوب سے یوں مخاطب ہےکہ: چلو کابل چلتے ہیں اور برابری کی بنیاد پر میں اپنے لئے نتھنی اور تمھارے لئے پگڑی لوں گی۔

لیکن ہم بات کر رہے تھے خواتین کی  تو پھر قصہ کچھ یوں ہوا کہ ایک خاتون نے اپنی پگڑی والی تصویر سوشل میڈیا پر ڈال دی۔ اور یہی وہ وقت تھا جب ہماری غیرت بریگیڈ کی غیرت جاگی۔ اور انہوں نے اس پوسٹ کے سکرین شاٹس لے کر اور جگہ جگہ پوسٹ کر کے عورتوں کے اس اقدام کو ثقافت اور غیرت کے منافی اور پگڑی کے احترام کے منافی جان کر بہت سی الزام تراشیاں کیں اور بحث مباحثہ چھیڑ دیا۔

اب یہاں بات یہ سمجھ میں آتی ہے۔ کہ اس معصومانہ خواہش پر جن لوگوں نے پگڑیاں پیش کیں وہ بھی مرد تھے اور جو ان پگڑیوں والی تصاویر کو دیکھ کر بنیاد پرستی کا مظاہرہ کرتے رہے وہ بھی مرد تھے۔ فرق صرف سوچ کا ہے۔ ایک طرف تو عورت کو انسان اور اپنے برابر سمجھ کر ان کوتصاویرکے لیے پگڑیاں دینا ایک عام عمل سمجھا گیا۔ اور دوسری طرف اس ناقص العقل مخلوق کو اشرف المخلوقات کی نشانی یعنی پگڑی پہنے دیکھ کر منفی لاوا ابلا۔

ایک سوچ میں عورت کا مقدر صرف مرد کو تسکین دینا اور بچے پیدا کر کے گھر کی زینت بننا ہے۔ اور ایک سوچ میں عورت بحیثیت انسان اپنے تمام سیاسی، سماجی، معاشی حقوق حاصل کرنے کی حقدار ہے۔ تو یہ نہ سمجھا جائے کہ بنیاد پرست سوچ صرف اتنڑ کے اس پروگرام میں عورتوں کے سروں پر پگڑیاں دیکھ کر آگ بگولہ ہو گئی بلکہ وہ عورت کی ذات سے ڈرتے ہوئے اپنے آپ کو یا تو مذہب  یا روایات کے نام پر منفی سوچ اپنا کر ایسے وار کرتے ہیں۔

عورت معاشرے کی نصف آبادی سے زیادہ ہے۔ ان کی شمولیت کے بغیر دنیا کی کوئی تحریک ممکن نہیں۔ امن کےلئے کردار ہو، سیاست ہو یا سماجی ترقی اور معاشی ترقی کے خواب ہوں سب کے سب ادھورے ہی رہ جائیں گے۔ لہذا عورتوں کو زندگی کے تمام شعبوں میں اپنا فعال کردار ادا کرنے کے ضرورت ہے۔ اور چونکہ یہ پروگرام امن کے حوالے سے اتنڑ کا ثقافتی رقص تھا۔ تو اس میں عورت کا خاندان سے لیکر سماج کے تمام اداروں میں فعال کردار تسلیم کر کے ہی ہم اپنے وطن کی ترقی، امن اور خوشحالی کا مقدر روشن دیکھ سکتے ہیں۔ منفی سوچ والوں کو اپنے رویوں پر نظر ثانی کرکے امن اور ترقی میں کردار ادا کرنے والی خواتین سے ڈرنے کی بجائے ان کو اپنے برابر سمجھ کر اپنی قوم کی خوشحالی کے لئے کا م کرنا چاہیے۔

ثنا اعجاز

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ثنا اعجاز

ثنا اعجاز پشاور سے تعلق رکھنے والی انسانی اور صنفی حقوق پر کام کرنے والی آزاد صحافی ہے۔

sanna-ejaz has 4 posts and counting.See all posts by sanna-ejaz