یہ وہ بچے ہیں جو ماں باپ سے پالے نہ گئے


بات جبر کی نہیں، مجبور کی ہے۔ بات ظالم کی نہیں، مظلوم کی ہے۔ حافظے میں مناظر دو ہیں۔ دُکھ مگر ایک ہے۔

پہلا منظر یونیورسٹی کے ایام کا ہے۔ گرمیوں کی سہ پہر ہاسٹل گیٹ سے باہر نکلا تو بائیں طرف کی گلی سے آتے دو بچے نظر آئے۔ عمریں دس سے بارہ برس کے درمیان۔ رنگت دونوں کی سانولی۔ نین نقش ایک کے مناسب، ایک کے قدرے بہتر۔ ایک کے پہنے ہوئے قمیض شلوار کا رنگ کلیجی، دوسرے کا آسمانی۔ دونوں کے سر پر سفید گول ٹوپیاں۔ ایک کی نائیلون کی چپل ٹوٹی ہوئی تھی، بایاں پاؤں بار بار چپل سے آزادی چاہ رہا تھا۔ دوسرے کے سینڈل تھے جو کم از کم دیکھنے میں سلامت ضرور تھے۔ دونوں کی ٹوپیاں اور لباس دھلائی کے متقاضی لیکن چہرے روشن، اجلے، دھلے ہوئے۔ ایک نظر میں ہی ادراک ہو گیا کہ بچے قریبی مدرسے کے طالب علم ہیں۔ بچوں کے پاس چینی والے تھیلے میں تربوز تھے۔ وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے دونوں اٹھانے سے قاصر ۔ گلی کی نکڑ سے ہاسٹل گیٹ تک بمشکل 15 گز کا فاصلہ انہوں نے تین وقفوں سے سر کیا۔ پاس آنے پر میں نے مدد کی پیشکش کی جو تھوڑے توقف سے قبول ہو گئی۔ میں نے تھیلا سر پہ اٹھایا تو وزن 20 سے 25 کلو کے درمیان محسوس ہوا، دیہاتی آدمی کے لیے یہ عام بات تھی۔ بچوں سے گپ شپ شروع ہو گئی۔ پوچھنے پر معلوم پڑا کہ دونوں بہاولپور سے آئے ہوئے ہیں۔ رشتے میں دونوں چچاذاد ہیں۔ والدین اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتے ہیں۔ ایک کے سات بہن بھائی مزید ہیں اور دوسرے کے گیارہ۔ جی۔۔۔ گیارہ بہن بھائی۔ ایک کا نام عبدالرحمٰن تھا، دوسرے کا اب یاد نہیں۔ اتنے میں مدرسہ قریب آ گیا، عبدالرحمٰن سے پوچھا، اگر میں یہ تربوز لے کے بھاگ جاؤں تو وہ کیا کر لے گا؟ بچے کا جواب برجستہ تھا، “ویسے بھی تو باجی (غالبا مہتمم مدرسہ، مولانا صاحب کی اہلیہ) سے روزانہ مار پڑتی ہے، آج زیادہ پڑ جائے گی۔” واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، “جس کے بعد سوال پیدا نہ ہو، وہ بات لاجواب ہوتی ہے۔” عبدالرحمٰن مجھے لاجواب کر چکا تھا۔

دوسرا منظر فیکٹری ایریا کے اس ڈھابے کا ہے جہاں لوہے کی بھٹیوں میں کام کرنے والے مزدور پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں۔ یونیورسٹی کے دو مسافر طالب علم بھی بوجوہ اسی علاقے میں رہتے تھے اور اسی نعمت خانے سے کھانے پر مجبور تھے۔ ہر شام وہاں ایک مدرسہ کے بچےتندور سے روٹیاں لینے آتے تھے۔ بچوں کی آنے کی باری مقرر تھی تو روٹیوں کی تعداد بھی متعین: 83۔ ہفتے میں ایک دن آٹھ، نو برس کا بچہ اپنے ساتھی کے ہمراہ آتا تھا۔ لفظوں میں اس بچے کی معصومیت شاید بیان نہ کر پاؤں لیکن میرا دل کہتا ہے کہ وہ بچہ پہلے فرشتہ تخلیق ہوا ہو گا، پھر شاید دُنیا دیکھنے کی ضِد کی ہو تو خالقِ کون و مکاں نے باجوڑ کے ابراہیم خان کے ہاں مع دس بہن بھائیوں کے اتار دیا۔ اس ننھے فرشتے سے مزید استفسار پر معلوم پڑا کہ پانچ روٹیاں دو اساتذہ کرام کے رات کے کھانے کے لیے ہیں اور باقی اٹھتر، انتالیس بچوں کا رات اور صبح کا رزق ہیں۔ محترم اساتذہ ناشتے میں اسی ڈھابے سے تازہ پراٹھے منگوا کے تناول فرماتے تھے۔

بات مدرسوں کے وجود کی نہیں، ان کے نظام کی ہے۔

میرا مدعا یہ نہیں کہ یہ پنتیس ہزار سے زائد مدرسے دہشت گردوں کی نرسریاں ہیں۔ شاید کچھ ہوں، لیکن اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری، ابوبکر البغدادی، سانحہ صفورا کا ماسٹر مائینڈ سعد عزیز، مشرف حملہ کیس کا مرکزی ملزم ڈاکٹر عثمان، سمیت بے شمار دہشت گرد اعلی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہیں۔

میری دلیل یہ بھی نہیں کہ ان اقامتی مدرسوں میں بچوں کا جنسی استحصال ہوتا ہے۔ قصور میں سینکڑوں معصوموں کا بچپن مسلنے والے کون سا درسِ نظامی کی سند لیے بیٹھے تھے۔ یہ معاشرتی سرطان ہے۔ کہیں کم، کہں زیادہ۔ بلا شُبہ ناقص انتظامات کے حامل اقامتی اداروں میں اس برائی کے امکانات زیادہ ہیں۔

میرا اعتراض یہ بھی نہیں کہ مدرسوں میں بچوں پر سفاکانہ تشدد روا رکھا جاتا ہے۔ غریب کا بچہ مار کھانے کے لیے ہی پیدا ہوا ہے۔ وحشیانہ تشدد برداشت کرنا تو شاید امام عالی مقام حسینؑ ابنِ علیؑ کی بیٹی سکینؑہ بنت الحسینؑ کی سنت ہے۔ اب یہ ہر اس بدنصیب بچے کا مقدر کہ اس کے حصے کی کربلا مدرسہ ہے، سرکاری اسکول، کسی سول جج کا گھر یا کسی متمول تاجر کا بنگلہ۔

میری تشویش یہ بھی نہیں کہ یہ بچے مدرسہ میں حیاتِ مختصر کا آٹھ، دس برس طویل عرصہ گزار کے عملی زندگی میں کچھ کر نہ پائیں گے۔ سندھ کے میٹرک کے امتحانات میں تھوک کے حساب سے نقل کرنے والے کون سا ڈپٹی کمشنر لگ جائیں گے!

میرا دُکھ اور ہے۔ آٹو ورکشاپ کے چھوٹے، کسی صاحبِ ثروت کے ہاں کام کے ساتھ مار سہنے والے والے بد قسمت، اور سرکاری اسکول کے کسی متشدد استاد کے ہاتھوں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے قتل کروانے والے بچے سے ایک اضافی دُکھ جو مجھے بہاولپور کے عبدالرحمٰن اور باجوڑ کے اس ننھے فرشتے کی آنکھوں میں نظر آیا، وہ ان کی خودی اور عزتِ نفس کا قتل تھا۔

جس بچے کو احساس ہو کہ اس کے والدین زیادہ بہن بھائیوں کی وجہ سے اس کی پرورش نہیں کر سکتے اور مدرسے میں وہ عُشر، زکوٰۃ، خمس اور خیرات کے پیسوں سے پرورش پا رہا ہے۔ کیا وہ کبھی پورے قد سے کھڑا ہو پائے گا؟ وہ مسجد کا پیش نماز بنے یا سرکاری خطیب، کیا زندگی میں کبھی معاشرے کی اشرافیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بات کر سکے گا؟ وہ باغی بنے گا، نفرتیں بیچے گا۔ وہ منبر و محراب میں کھڑے ہو کے فرقہ واریت پھیلائے گا۔ وہ لوگوں کو حلالے کے مسئلے میں الجھا کر اپنی تذلیل کا بدلہ لے گا۔ یقین جانیں، معصوم بچے کو اس نہج تک لانے کا ذمہ دار صرف شدت پسند ملاں ہی نہیں، ہم سب بھی شریکِ جرم ہیں۔

مسئلے کا حل یہ نہیں کہ مدرسے بند ہو جائیں (جو کہ ویسے بھی نا قابلِ عمل ہے)۔ جو حکومتیں مدرسوں اور اسکولوں سے باہر بچوں کو اسکول نہیں بھیج پا رہیں، وہ مزید لاکھوں بچوں کا بوجھ کہاں اٹھائیں گی؟ پاک فوج نے ڈیڑھ برس پہلے دشمن تک کے بچوں کو پڑھانے کا عہد کیا تھا۔ یہ تو میرے وطن کے بچے ہیں، کاش ان کو ہی پڑھا دیا جائے۔ اگلے روز لندن میں پاک فوج کے ترجمان سے مدرسہ اصلاحات کا سوال ہوا۔ جواب ملا، “کام ہو رہا ہے۔” خدا کرے واقعی ایسا ہو۔

صد شکر کہ اب حکومتی سطح پر پسماندہ علاقوں کے لوگوں میں خاندانی منصوبہ بندی کی آگہی کے حوالے سے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ بچے کم ہوں گے تو والدین سینکڑوں کلومیٹر دور مدرسوں میں بھیجنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچیں گے۔

سوال، لیکن، پینتیس ہزار سے زائد مدرسوں میں بتیس لاکھ حالیہ زیرِ تعلیم بچوں کا ہے۔ ان میں سے بیش تر کا تعلق کسی دہشت گردی سے نہیں۔ فرقہ واریت میں ملوث ضرور ہو سکتے ہیں لیکن یہ بیماری نصاب میں معمولی ردوبدل، تعلیم یافتہ اور متوازن سوچ کے حامل اساتذہ کی تعیناتی اور اداروں کے عمومی ماحول میں تھوڑی بہت تبدیلی سے ختم کی جا سکتی ہے۔ توجہ طلب بات ان اداروں کی فنڈنگ کا طریقہ کار ہے۔

دائیں بازو والوں سے پوچھا نہیں جا سکتا کہ اس قبیلے میں سوال جرم ہے، اختلافِ رائے کفر کا فتویٰ مانگنے کے مترادف ہے۔ انہیں یہ کیسے پوچھوں کہ ان مدرسوں کو چلانے کے لیے فنڈ پر زکوٰۃ و خیرات کا لیبل اتار کر اسکالرشپ کا نام کیوں نہیں دیا جا سکتا؟ وہ مخیر حضرات اور غیر ملکی حکومتیں جو ان اداروں کی مالی مدد کرتی ہیں، وہ اپنی حکومت یا اپنے نام کا وظیفہ مقرر کیوں نہیں کر دیتیں؟ جیسے یونیورسٹیوں کے طلباء اسکالرشپ پر اندرون اور بیرون مللک تعلیم حاصل کرنا اعزاز سمجھتے، ویسے ہی مدرسوں کے بچے بھی سر اٹھا کر یہ رقم وصول کریں۔ کیا یہ لازم ہے کہ ان بچوں کا بوجھ اٹھانے کے بدلے، ان سے اپنی نیک نامی، پرہیزگاری کی گواہیاں لی جائیں؟ ان کی مدد کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں دیکھا جائے؟

بائیں بازو والوں سے تو مگر بات کر سکتا ہوں۔ آپ تو انسانی حقوق والے ہیں، آپ تو مارکسسٹ ہیں۔ آپ تو سب کو برابر مواقع دینے کی بات کرتے۔ آپ کے لیے اے-پی-ایس میں دہشت گردی سے اور ڈمہ ڈولہ کے مدرسے میں ڈرون حملوں سے جان سے بازی ہارنے والے بچے کیوں برابر نہیں؟ کیا جبر صرف وہ ہوتا ہے جو ریاستی ادارے یا مذہبی جنونی ترقی پسندوں پر کریں؟ کیا یہ ظلم نہیں جو معاشرہ مل کے ان معصوموں پر کر رہا ہے؟ آپ مسنگ پرسنز کے لیے آواز اٹھائیں۔ لیکن جو موتی ہاتھوں سے رفتہ رفتہ “مسنگ” ہوتے جا رہے، ان کی آواز کب بنیں گے؟ آپ، صرف آپ لوگ یہ آواز اٹھا سکتے ہیں کہ متوقع ‘مدرسہ اصلاحات’ میں یہ بھی شامل ہو کہ صدقہ، خیرات، اور قربانی کی کھالیں ان بچوں کا رزق نہیں بنیں گی۔ ان بچوں کا بوجھ ریاست اٹھائے گی۔ کوشش کی جائے کہ اقامتی تعلیم بالکل نہ ہو، بالخصوص ان اداروں میں جہاں مناسب سہولیات، فنڈز کی وافر دستیابی اور نگرانی کے موثر انتظامات نہ ہوں۔ یہ بچے ہمارے ہیں، ہمیں ہر صورت ان کی سوچ اور خودی کا تحفظ کرنا ہے۔

بات جبر کی نہیں، مجبور کی ہے۔ بات ظالم کی نہیں، مظلوم کی ہے۔ حافظے میں محفوظ مناظر دو ہیں۔ دُکھ مگر ایک ہے۔ میر انیسؔ یاد آتے ہیں۔

اشکِ غم دیدہ پر نم سے سنبھالے نہ گئے

یہ وہ بچے ہیں جو ماں باپ سے پالے نہ گئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).