کتابوں کی دکانیں بند کیوں ہوتی ہیں؟


آئے روز اعلان ہوتا ہے کہ فلاں شہر میں کتابوں کی ایک اور بڑی دکان بند ہونے جا رہی ہے، کچھ عرصے کے لیے واویلا مچتا ہے اور پھر ایک دن بڑی خبر آتی ہے کہ دکان بند ہو گئی۔ دکانیں بند ہونے کے لیے کھلتی ہیں، کاروبار کبھی اچھے چلتے ہیں, کبھی برے ہو جاتے ہیں، اونچ نیچ بزنس کا حصہ ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ کتابوں کے بزنس ہی کو زوال کیوں ہے۔ کیک، پیسٹری، بسکٹ، پیزا، برگر، دہی بڑے، بریانی بیچنے والے ایک ریڑھی سے بھی شروع کریں تو دس برس بعد سامنے کی دکان خرید لیتے ہیں، کتابوں میں اتنا نقصان کیسے ہو جاتا ہے؟

کتابوں میں اتنا نقصان یوں ہے کہ عمومی طور پر اس کاروبار کو جدید طریقوں سے نہیں چلایا جاتا۔ جو چلاتے ہیں وہ بہترین کماتے ہیں۔ لاہور کا ریڈنگز، لبرٹی بکس، سنگ میل اور اردو بازار کی ڈھیروں دکانیں اس بات کی گواہ ہیں۔ سعید بک بینک، ویلکم بکس یا کتاب سرائے والے بھی کم ہی روتے پائے گئے ہیں۔ ملتان میں READ ہے، بیکن بکس ہے، بک کارنر ہے، کتاب نگر کی مثال دیکھ لیجیے۔ وہ جہلم بک کارنر ابھی دو چار برس میں کیسی ابھر کے سامنے آئی، مثال فیصل آباد والے ہیں اور دیگر بہت سے ایسے کتاب والے ہیں جو خدا کے فضل سے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتے ہیں، وجہ کاروباری حس کا ہونا ہے۔ لکھنے والا پھٹے حالوں گھومتا رہے، وہ بالکل ایک الگ موضوع ہے لیکن چھاپنے یا بیچنے والا اصولی طور پر کبھی نقصان میں نہیں رہ سکتا اگر اسے کتابیں بیچنے کا سلیقہ آتا ہے۔

لوگ نہیں پڑھتے، اردو ڈوب رہی ہے، بچے کمپیوٹر کے ہو کر رہ گئے، پیزا کھائیں گے جوتے خریدیں گے، کتاب خریدتے ہوئے قدم نہیں اٹھتا ۔۔ یہ سب ایویں دل جلانے کی باتیں ہیں، جس نے کتاب لینی ہے بھئی وہ لے گا، اردو کی نہیں بکتی، انگریزی کی بیچ لیجیے، وہ نہیں بکتی تو کورس کی کتابیں رکھیں، اخبار رکھیں، چائنا کے چھوٹے موٹے سٹیشنری آئیٹم رکھیں، دکان چلے گی۔ دکان موقعے کی ہے، بندہ جی دار ہے، آٹھوں گانٹھ کاروباری ہے تو سوال ہی نہیں کہ دکان نہ چلے۔

آج ایک انگریزی اخبار میں خبر چھپی کہ شہر کراچی کا ایک بہت پرانا بک سٹور بند ہونے کو ہے۔ جو تصویر ساتھ تھی اس سے لگتا تھا کہ بھوت بنگلہ ہے یا عجائب گھر ہے، وہ تو بند ہونا ہی تھا۔ کتابوں کی دکان کو سجایا بھی تو جا سکتا ہے، رنگ روغن ہو، اندر کوئی کیفے بن جائے، کوئی آرٹ گیلری ہو جو کمرشل طریقے سے چلے اور دکان کے خرچے نکال لے۔ سر جھاڑ منہ پھاڑ دکان ہو گی تو کون آئے گا وہاں۔ ناسٹیلجیا کی قیمت پر دکان کو چونا بھی نہ کیا جائے تو یہ افسوس ناک ہے!

اس بک ہاؤس کی عمارت سن انیس سو سے بھی پہلے بنی ایک دیدہ زیب بلڈنگ ہے۔ وہاں کئی دوسری پرانی دکانیں بھی موجود ہیں۔ آرکیالوجی والوں کی طرف سے قومی ورثہ قرار دئیے جانے کے بعد اسے ڈھا دئیے جانے کا خطرہ تک نہیں ہے۔ بی جے پی کے ایک رہنما قیام پاکستان سے پہلے یہاں رہتے رہے ہیں اور بجلی کا بل اب بھی ان کے نام پر آتا ہے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے قانونی کتابیں، ٹیکس سے متعلقہ نگارشات، دوسرے ممالک کے آئین اور ان کے ترجمے، گزٹ اور نہ جانے کیا کیا چھاپنے کا ٹھیکہ ان کے پاس ہوتا تھا، 256 کتابیں اب تک یہاں سے چھپیں لیکن مالکان کے مطابق انٹرنیٹ پائیریسی نے کاروبار ختم کر دیا۔

انیس سو اسی سے اب تک یہ دکان اٹھائیس مرتبہ لوٹی جا چکی ہے۔ یہ ایک ریکارڈ ہے۔ اور زیادہ تر یہاں گاہکوں سے ان کے پرس، موبائل، گھڑیاں اور دیگر قیمتی چیزیں چھینی گئیں۔ اس لوٹ مار سے بچنے کے لیے چھٹی یا ساتویں بار سے ہی کیا اقدامات اٹھائے گئے، خبر وہاں خاموش ہے۔ اس شہرت پر دکان میں کون گھسے گا؟ دکان کے مالک کہتے ہیں کہ اگر کوئی اس دکان کو چلانے میں دلچسپی رکھتا ہے اور خریدنے پر تیار ہے تو وہ ادھر موجود تمام کتابیں مفت میں دے سکتے ہیں کیوں کہ ان کا خریدار ویسے بھی اب کوئی باقی نہیں رہا۔

یہ بہرحال ایک الارمنگ صورت حال ہے کہ کتابوں کی دکانیں اس رفتار سے بند ہوتی جائیں (صبغے اینڈ سنز یاد آ گئی)۔ سرکار اگر کتابوں کی دکان چلانے کے لیے خاص طور پر کسی سکیم یا قرضے کا اعلان کرے تو کئی مفلس کاروباری ذہن والے اس کام میں بے خطر کود سکتے ہیں۔ اپنے پاس موجود کتابوں کو اچھے سے سکین کر کے آن لائن بک سٹورز پر بھی فروخت کے لیے پیش کیا جا سکتا ہے یا کم از کم ان کی مارکیٹنگ سوشل میڈیا پر بہتر طریقے سے ہو سکتی ہے۔

کامیاب ملکوں میں پبلشر ٹیکنالوجی سے ہار نہیں مانے۔ وہ کنڈل Kindle لے آئے، اس کا پیپر وائٹ ٹیبلیٹ تو ایسا ہے جیسے ہاتھ میں کوئی اصلی کتاب تھام رکھی ہے۔ انہوں نے امیزون پر کتابیں بیچیں اور یہ سب چھوڑئیے ہیری پوٹر پر لکھی گئی کتابیں حرام ہے جو کبھی لاکھوں سے کم تعداد میں بکی ہوں۔ اردو نہیں بکتی تو آٹھ دس اچھے ترجمے کرنے والے پکڑئیے، یہی کتابیں انگریزی میں بکیں گی، چینی میں بکیں گی۔ سب بکتا ہے بھئی سب بکتا ہے، مٹی بکتی ہے، پانی بکتا ہے، بیچنے والا ہونا چاہئیے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain