حقیقی سیکولرزم کا عملی مظاہرہ


کسی بھی سوسائٹی میں طبائع انسانی کو ایک خط کھینچ کر ظاہر کیا جائے تو اس کی ایک انتہا پہ مذہبی جنونی اور دوسری پرلبرل فاشسٹ نظر آئیں گے-اس خط کے وسط میں عدم تشدد کے پرچارک وہ عام لوگ ہوں گے جو امن و آشتی کے متلاشی ہوا کرتے ہیں- مختلف العقائد انسانوں کا پرامن بقائے باہمی پر مبنی رویہ سیکولرزم کہلاتا ہے-علمائے ہند کے مطابق، یہی اسلام کی منشا ہے بلکہ اس رویہ کا اولیں داعی ہی اسلام ہے-

پچھلے دنوں جمعیت علماء اسلام نے پشاور میں اپنا صد سالہ یوم تاسیس مناکر اس حقیقی رواداری کی عملی تصویر پیش کی جو اسلام کا خاصہ ہے اورعلمائے دیوبند کا طرہ امتیاز رہا ہے- ہم جیسے سیکولرلوگ، ہرایسے ایونٹ کی پذیرائی کرتے ہیں جس سے امن مطلوب ہو- تاہم کٹھ ملاؤں اور لبرل فاشسٹوں کو ایسی ہر کوشش زہر لگتی ہے – ایسوں کے باطنی بغض کا اظہار، اس اجتماع پر ان کے بونگے اعتراضات سے بخوبی عیاں ہوا- کٹھ ملاؤں کو “صد سالہ ” منانے کی “بدعت” کھٹکنے لگی تو لبرل فاشسٹوں کو “امام کعبہ” کا “پروٹوکول” کاٹنے لگا-

مولانا فضل الرحمان کا یہ عظیم الشان اجتماع، سیکولرزم کی حقیقی تصویر تھا جہاں کمیونسٹ چینی اور سرمایہ دارعرب، امام حرم اور بشپ آف پاکستان،سپاہ صحابہ اوراہل تشیع حضرات، پاکستان کی خالص سیکولر قیادت اور خانقاہی بزرگان، ایک ساتھ جلوہ گر ہوئے تھے-

میں اس اجتماع کو امت اسلامیہ کی دینی لیڈرشپ کی سوچ میں ایک ٹرننگ پواینٹ سمجھتا ہوں- ایک زمانہ تھا کہ وہ دنیا کو اپنی زیرخلافت لانا چاہتے تھے مگر آج جبکہ  وہ اپنا پانی ناپ چکے ہیں ،اب وہ دنیا سے امن و معیشت کی بنیاد پہ ڈائیلاگ کرنے کو تیار ہیں-یہی بات جمیعت علمائے ہند کے علما، گذشتہ ایک صدی  سے کہتے آئے تھے اور جسے، ٹھوکریں کھانے کے بعد، عرب و عجم کی دینی قیادت نے پشاور حاضری دیکر عملاً قبول کیا ہے-

جمیعت علمائے ہند کی تشکیل 1919 میں ہوئ تھی- اسی زمانے میں یعنی 1923 میں آل سعود کی وہابی تحریک بھی سعودی عرب میں برسر اقتدار آئی- عین ان دنوں جب سعودی عرب کی تھیوکریٹک حکومت، بعض مسلمانوں پر شرک وبدعت فتوے لگا کرمقدس مزارات زمیں بوس کر رہی تھی، یہاں ہندوستان میں علمائے دیوبند، گاندھی، نہرو اور ڈاکٹر اشرف (صدر کمیونسٹ پارٹی) کو اپنے سٹیج پر ساتھ بٹھا کر عالمی استعمار کے خلاف عوامی جدو جہد کررہے تھے-

آج جب جمعیت کے صد سالہ اجتماع پرمسلمانوں کے روحانی ہیڈ کوارٹر کا نمائندہ یہ اعلان کرتا ہے کہ فرقہ واریت پھیلانے والے اسلام کے دشمن ہیں تو بے اختیار مولانا فضل الرحمان کی بصیرت کو داد دینا پڑتی ہے-ایک وہ زمانہ تھا کہ سعودی حکومت، علامہ شبیر عثمانی کی تفسیر کو شرکیہ قرار دیکر سمندر برد کر رہی تھی اورآج ان کا وزارتی وفد، جمیعت کے سٹیج پر اہل تشیع علماء کے ہمراہ موجود تھا-اسی رواداری کا نام سیکولرزم ہے-(بعض کٹھ ملا سیکولرزم کو کفریہ عقیدہ سمجھتے ہیں-ایسے لوگوں کو چاہیئے کہ جمعیت علمائےہند کے زعماء کو دوبارہ کلمہ پڑھوائیں)-

کبھی یہ سوچ کر دکھ ہوتا تھا کہ وہ جمعیت علماء جو کسی زمانے میں ، بلاتفریق مذہب و نسل، کل انسانیت کی فلاح کی خاطر وقت کے استعمار سے نبرد آزما تھی، اسے پاکستان کے چند کٹھ ملاؤں نے فقط دیوبندی مکتب فکر کی مذہبی تشریحات کی تنگنائے میں پابند کرنے کی کوشش کی– وہ جماعت جو ایک صدی قبل اپنے ایلچی، اسٹالن اور انور پاشا سے عالمی معاملات طے کرنے بھیجا کرتی تھی، اسےبعض ملاؤں نے مسلکی جتھے کا روپ دینے کی کوشش کی –

مولانا فضل الرحمان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے حالیہ صد سالہ اجتماع کے ذریعے، اپنی جماعت کو واپس اس عالمی حیثیت تک لادکھایا ہے-

اس اجمتاع کا بیانیہ کیا تھا؟ اس پہ بات کرنے سے پہلے ذرا اجتماع کے پروگرام پر نظر ڈال لیں-

 اس اجتماع کا پہلا دن، مذہبی یکجہتی کا دن تھا تو دوسرا دن جمہوری جماعتوں کی سیاسی وحدت  کا-آخری دن اقوام عالم کیلئے امت اسلامیہ کی طرف سے پالیسی بیان دیا گیا-

پہلے دن کے پروگرام میں  نہ صرف خود دیوبندیوں کے مختلف گروپوں کی یکجائ کا مظاہرہ کیا گیا بلکہ بین المذاہب ہم آہنگی کا عملی نمونہ بھی پیش کیا گیا- تھانوی گروپ(مفتی تقی عثمانی) وفاق المدارس ( ڈاکٹر عبدالزاق اسکندر)، خانقاہی سلاسل(پیر ذوالفقار نقشبندی)، دیوبندی مماتی گروپ (مولانا اشرف) غرض دیوبند کا ہرشعبہ یکجا کیا گیا-اسکے ساتھ ہی، بشپ آف پاکستان اور ہندو مذہبی قیادت کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی آف چاینہ کا وفد بھی پہلے دن کی تقریب میں رکھا گیا- (تھانوی گروپ کی شمولیت گویا انکا سیاسی رجوع تھا)- نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ سخت گیر اورتفرقہ پرست ملاؤں کو پروگرام سے دور رکھا گیا- طالبان کے نام نہاد گاڈ فادر یعنی مولانا سمیع الحق صاحب کو نوشہرہ میں ہوتے ہوئے بھی دعوت نہیں دی گئ- “ضرب مومن” کے ایجنسی ہولڈر بھی موجود نہیں تھے- حتی کے مفتی زرولی صاحب جو کہ مولانا کے خاص موید ہیں مگر ایدھی مرحوم وغیرہ کے ضمن میں شدت پسندانہ رویہ رکھتے ہیں، وہ بھی موجود نہیں تھے-

اجتماع کے پہلے دن کی تقریب میں مولانا فضل الرحمان کا بیان یہ تھا کہ ہم سیکولرزم کے خلاف نبرد آزما ہیں- دوسرے دن (جبکہ ساری سیکولر قیادت جمعیت علماء کے سٹیج پر موجود تھی) مولانا کا بیان یہ تھا کہ مجھے کسی مکتب فکر کا نہیں بلکہ پوری امت کا نمائندہ سمجھا جائے-

ان  دونوں بظاہرمخلتف بیانات کو اورپھر سٹیج کی صورتحال کو دیکھیں جہاں رضا ربانی، محمود اچکزئ، بشپ نذیر عالم کے علاوہ، خود سیکولرزم کے داعی جمعیت علمائے ہند کے اکابرین  بلکہ اپنے ملک میں مساجد بلڈوز کرنے والی چینی قیادت بھی سٹیج پر شانہ بشانہ موجود تھی- مجھے تو اسکی تطبیق کی یہی صورت نظر آئی کہ مولانا خودکو  بیک وقت ، مذہبی دنیا اور مشرقی تہذیب کا نماندہ قرار دیکر، جدید تہذیب کو چیلنج کررہے ہیں- (مولانا دو عشرے قبل بھی” نیو ورلڈ آرڈر” کے ضمن میں تہذیبوں کی جنگ کی اصطلاح استعمال کرچکے ہیں)- مولانا نے اس اجمتاع کی پہلی تقریب میں یہ بھی کہا تھا کہ دنیا کو دو بڑے  مسائل درپیش ہیں-ایک الہی تعلیمات سے دوری اور دوسرے خاندانی نظام کا خاتمہ- سوال یہ ہے کہ خاندانی نظام سے مولانا کی کیا مراد ہے؟ کیا برصغیر کا خاندانی نظام جہاں ایک ساس،اپنی بہو کو جہیز نہ لانے پر آگ لگا دیتی ہے یا عربوں کا خاندانی نظام جہاں ایک بہو، بوڑھی ساس کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں ہے؟ ظاہر ہے اس مبہم بیان کی مزید تشریح، ایسے وقتی اجمتاعات میں ممکن نہیں ہوتی- اسی طرح، الہی تعلیمات سے مولانا کی کیا مراد ہے؟ کیا بشپ نذیر اس سے انجیل کی تعلیمات مراد لے گا یا امام کعبہ، قرآنی تعلیمات کو الہی تعلیم سمجھے گا؟ پھر ان الہی تعلیمات کی تشریح، الیاس قادری صاحب کریں گے یا علامہ ساجد نقوی صاحب؟

 کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مولانا کے بیانات کی تشریح اگر انکی اپنی زندگی بھر کی عملی جدوجہد  سے نہ کی جائے تو بڑی علمی پیچیدگیاں پیدا ہونگی-

 صورتحال یہ ہے کہ ہم خود کو اور مولانا کو سیکولر سمجھتے ہیں جبکہ مولانا سیکولر قوتوں سے دشمنی کا اعلان کرتے ہیں- دیکھئے، جمہوری علماء اور داعش والے مولوی، دونوں اپنی اپنی جگہ خود کو حقیقی اسلام کانمائندہ قرار دیتے ہیں- مغربی دنیا جب اسلام کو ایک دہشت گرد مذہب قرار دیتی ہے تو انکی مراد “مسلح اسلام” ہوتی ہے جبکہ ہم دہشت گردوں کو اسلام کا چہرہ سمجھنے پہ تیار نہیں- بعینہ،مولانا جن طبقات کو سیکولر کہتے ہیں ، ہم انہیں سیکولر نہیں سمجھتے-

دراصل، آج کل بعض مذہب بیزار لبرل فاشسٹ گروپ جو مذہبی طبقات کی مقدس شخصیات کی تضحیک کرتے ہیں، عوام میں سیکولرز کے طور پر مشہور ہوگئے ہیں- ایک سیکولر، کسی عقیدے کا مضحکہ نہیں اڑا سکتا- اس اجتماع کے آخری دن امام کعبہ نے مسلمانوں کے ان لوگوں سے خبردار رہنے کا کہا جو ان کا تعلق نبی کی ذات سے کاٹتے ہیں-اس بیان سے واضح ہوگیا یہ علماء کن لوگوں کو سیکولر سمجھتے ہیں- ہم ایسے لوگوں کو لبرل فاشسٹ کہتے ہیں اورخود کو سیکولر کہتے ہیں- ( پاکستان کے بعض علاقوں میں مومن کا لفظ اہل تشیع کیلئے استعمال ہوتا ہے- تو کیا اس عرف عام کی وجہ سے اہلسنت اس لفظ کو ترک کردیں؟)-

واضح ہو کہ سیکولر مزاج کا خاصہ یہ ہے کہ وہ کسی بیان کے الفاظ  ہی کو نہیں بلکہ اسکے مخصوص پس منظر کو بھی ملحوظ خاطر رکھا کرتا ہے- اس لئے مولانا کے سیکولرزم مخالف بیانات سے ہمیں کوئ مسئلہ نہیں کہ ہم بات کا پس منظر سمجھتے ہیں- کچھ عرصہ قبل، وفاقی وزیر پرویز رشید نے مدارس کو جہالت کی فیکٹریاں کہہ دیا تھا- کٹھ ملاؤں نے نہ صرف اسلام آباد میں انکے قادیانی ہونے کے بینر لگا دیئے بلکہ ان کو جسمانی اذیت بھی دی گئی- ان مذہبی انتہا پسندوں کے مقابل، ایک دینی سیکولر جماعت ایسی بھی تھی جس نے مہذب انداز میں انکی وضاحت کو فوراً قبول کیا تھا-یہ جماعت، جمیعت علماء تھی- یہ ہوتا ہے سیکولر رویہ- فرق تو رویے کا ہی ہے ورنہ عقیدہ میں لال مسجد اور جمیعت علماء والوں کا ایک ہی برانڈ ہے-

اجمتاع کے آخری دن، مولانا فضل الرحمان نے اقوام عالم کو امن، معیشت اور باہمی احترام پر مبنی سہ نکاتی ایجنڈے پر تعاون کی پیشکش کی- یہی اجتماع کا بیانیہ تھا- اگرکوئی کہتا ہے کہ یہ بیانیہ سیکولر نہیں بلکہ دیوبندی بیانیہ ہے تو ہمیں بسر وچشم قبول ہے- (الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا)-

برسبیل تذکرہ، میں گذارش کروں گا کہ جمعیت کے آئین پہ بھی نظر ثانی کرکے اسے نئے زمانے سے ہم آہنگ کیا جائے کہ یہ آسمانی وحی نہیں ہے- منشور یا بیانات کی نہیں بلکہ عمل وکردار کی بنیاد پہ فیصلہ ہوا کرتا ہے اور جمعیت کا کردار حقیقی سیکولر کردار ہے- منشور تو پیپلز پارٹی کا اب بھی روٹی کپڑا اورمکان ہی ہے- منشور کے خالی پلاؤ پہ رقص کناں تحریک انصاٖف کے کارکنان، آج بھی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے لیڈر خود چن رکھے ہیں- جمیعت علمائے اسلام کے منشور میں  یہ بھی درج ہے کہ صدر اور کلیدی عہدے صرف اہلسنت (دیوبندی) کو دئے جائیں- یہ غیرمنطقی  منشور تواسی دن ہوا ہو گیا تھا جس دن شیعہ صدر زرداری کے لئے جمیعت نے ووٹ دیا تھا- اس لئے اس منشور کو بھی اپ ڈیٹ کرنا ضروری ہے-

آخری بات- اگر میں یہ کہوں کہ جمعیت علمائے اسلام کا صد سالہ اجتماع، سیکولر مسلمانوں کا عظیم الشان “شو آف پاور” تھا تو جمعیت کے عام کارکنان ناراض ہوجائیں گے- دراصل لفظ مسلمان کے ساتھ “سیکولر”کا انگریزی لاحقہ ناگوار گذرتا ہے البتہ عربی، فارسی اور دیسی لاحقے( اہلسنت، حنفی اور دیوبندی مسلمان) میں یک گونہ اپنائیت کا احساس ہوتا ہے- خیر، نام کا معاملہ تو ثانوی ہے مگر اپنی پالیسی کووقتاً فوقتاً اپ ڈیٹ کرتے رہنا ضروری ہے کیونکہ دینِ اسلام ، زمانے کی نبض پہ ہاتھ رکھتا ہے اورمیں مولانا فضل الرحمان کو اسلام کی اس آفاقی حیثیت پہ ایک اتھارٹی سمجھتا ہوں-

پس تحریر:در المختار میں “عالم” کی تعریف یوں کی گئ ہے کہ “من لم یعرف اھل زمانہ فھو جاہل ” یعنی جو شخص اپنے دور کے لوگوں کے احوال سے آگاہ نہیں وہ جاہل ہے-


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).