سول سوسائٹی سے کیا مراد ہے ؟


سول سوسائٹی ایسے سماجی گروہوں، جماعتوں، تنظیموں اور اداروں کو کہتے ہیں جو معاشرے میں رضاکارانہ طور پر باہمی میل جول یا اشتراک عمل سے وجود میں آتے ہیں۔ جیسے خاندان، مسجد و مدرسہ اور سکول، کھیلوں کی ٹیمیں، میوزک کلب، خیراتی ادارے، سیاسی جماعتیں، نظریاتی گروہ، صحافی انجمنیں، ٹریڈ یونین وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب گروہ رضاکارانہ بنیادوں پر یعنی اپنے ممبران کی آزاد شمولیت سے وجود میں آتے ہیں ۔

ایک معاشرہ تین بنیادی اجزا پر مشتمل ہوتا ہے۔
1۔ فرد : اس کی فطرت میں انفرادیت پسندی اور آزادی ہے ۔
2 ۔ ریاست : اس کی فطرت تحکم مزاجی اور کنٹرول پسندی پر قائم ہے۔ یہ جبر پسند ہوتی ہے۔
3۔ سول سوسائٹی: یہ سوسائٹی کے ان تمام غیر ریاستی اداروں کی نمائندگی کرتی ہے جو ایک سماج میں رضاکارانہ اشتراک عمل اور تعاون باہمی کے اصول پر موجود ہوتے ہیں۔ یہ فرد اور ریاست کے درمیان کی چیز ہے اور عموماً ثقافت و سماجی اخلاق کی نمائندہ ہوتی ہے۔

اسی طرح سول سوسائٹی کے قیام میں تین اجزا کا کردار انتہائی اہم ہے۔
1۔ انسانی ضروریات و خواہشات: جیسے کمرشل ادارے، سکول، کھیلوں کی ٹیمیں، میوزک کلب وغیرہ
2۔ انسانی جذبات و تعلقات : خاندان، دوستوں کے گروہ کلب ، مذہبی ادارے وغیرہ۔
3۔ انسانی حقوق کی جدوجہد: نظریاتی تنظیمیں، سیاسی جماعتیں ، ٹریڈ یونینز وغیرہ۔

سول سوسائٹی تہذیب و تمدن کی نمائندہ ہوتی ہے۔ صنعتی تہذیب و تمدن اور قومی ریاست کے قیام کے ساتھ سول سوسائٹی کا تصور تیزی سے ابھر کر سامنے آیا ہے اور اسے شخصی آزادیوں، سماجی انصاف اور مساوات کے تحفظ میں بنیادی اہمیت ملی ہے۔ جوں جوں مختلف طبقات کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے اور نئے طبقات جدید صنعتی تمدن کے پھیلاو¿ کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں ، سول سوسائٹی کے نمائندہ اداروں کی تعداد اور دائرہ کار بھی وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ یہ نمائندہ ادارے انسانی حقوق کی جدوجہد میں پیش پیش ہوتے ہیں اور امن و خوشحالی ان کا مقصود ہوتا ہے۔ ہر مطلق العنان اقتدار (Totalitarianism) نے شخصی آزادیوں پر شب خون مارنے کی ابتدا ہمیشہ سول سوسائٹی کے نمائندہ اداروں کو بند کرنے یا سنسر کرنے سے کی۔

یاد رہے کہ فرد کی فطرت انفرادیت پسند (Individualistic) ہوتی ہے جبکہ سول سوسائٹی کی فطرت اشتراکی یعنی Associational ہوتی ہے۔ سول سوسائٹی ریاستی جبر کے خلاف ڈھال یعنی buffer کا کردار ادا کرتی ہے- کسی بھی سماج کی ترقی کا اندازہ اس سماج میں سول سوسائٹی کے نمائندہ اداروں کی حالت کے بغور مشاہدہ سے کیا جا سکتا ہے۔

سول سوسائٹی کا آئیڈیا عہد جدید میں فرانسیسی مفکر بینجمن کانسٹنٹ سے ماخوذ ہے جس کے خیال میں یہ تصور محض صنعتی عہد میں ہی کارگر ہے- کانسٹنٹ اس آئیڈیا کا جواز ’ آزادی برائے اشتراک عمل یا تعاون باہمی‘ (Freedom to associate) سے جوڑتا ہے اس کے خیال میں تمام انسانوں کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ پر امن رہتے ہوئے دیگر انسانوں سے نظریاتی لسانی صنفی یا دیگر بنیادوں پر اشتراک کرنا چاہیں تو یہ ان کا بنیادی انسانی حق ہے۔ ریاست کا اس سے کوئی سرو کار نہیں سوائے اس کے کہ تشدد پسند گروہوں کو اس عمل سے دور رکھے۔ کانسٹنٹ ایک اور دلچسپ دعوی بھی کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ جدید متمدن دنیا کے قیام کا سبب محض سیاسی عمل میں شرکت کی آزادی (Freedom to participate in Government) نہیں بلکہ نجی بنیادوں پر اشتراک عمل و تعاون باہمی کی آزادی (Freedom to associate) اس کی بنیادی وجہ ہے۔ اسے مشہور مفکر Alexis de Tocqueville اس طرح بیان کرتے ہیں۔

’معاشرے میں ترقی انسانی کو آپریشن (cooperation) کا نتیجہ ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں کہ جب تک سوسائٹی آزاد نہ ہو ، اور اس پر چند مراعات یافتہ انسانوں کی نہیں بلکہ سب کے لئے یکساں قانون کی حکمرانی ہو‘۔

وطن عزیز میں سول سوسائٹی انتہائی کمزور ہے۔ سول سوسائٹی کے اس تصور سے بھی شہریوں میں عدم واقفیت پائی جاتی ہے۔ وہ لوگ جو سول سوسائٹی کا نام لیتے ہیں انہیں تحقیر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ریاستی جبر سول سوسائٹی کے تمام اداروں پر حاوی ہے۔ نادیدہ ہاتھ اس اس ملک میں کسی کو بھی کسی بھی بنیاد پر اٹھا سکتے ہیں ، آگے ان کی مرضی کہ تشدد کے بعد بوری بند لاش کی صورت کسی ویرانے میں پھینک دیں یا ساری زندگی کی زبان بندی کے عوض رہا کر دیں۔ یہاں عملاً قانون کی نہیں بلکہ ہیئت مقتدرہ کے نمائندہ اداروں کے چند کرتا دھرتا افراد کی حکمرانی ہے جو قانون و اخلاقیات کی باز پرس سے ماورا ہیں۔ اس گھمبیر تر صورتحال کا حل سول سوسائٹی کی مضبوطی اور استحکام میں ہے۔ ہمیں سول سوسائٹی کے نمائندہ اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا اور اپنی آواز کو مو¿ثر بنانا ہو گا۔سول سوسائٹی میں بہت طاقت ہوتی ہے اگر وہ منظم، ہوشیار اور با بصیرت ہو ، وگرنہ ریاست کی اندھا دھند اور بے مہار طاقت سے شہری آزادیوں کا تحفظ محال ہے۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan