کیا ہم شدت پسندی کو شکست دے پائیں گے؟


عبداللہ ملک

نیشنل ایکشن پلان بننے کے بعد دہشت گردی سے متاثرہ مجھ جیسے ہزاروں پاکستانی اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ نیشنل ایکشن پلان کی جادوکی چھڑی سے پاکستانی معاشرہ ایک روشن خیال ، ترقی پسند اور پرامن معاشرہ بن جائیگا مگر اس خوش فہمی کا بھانڈہ اس وقت عیاں ہوا جب وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کالعدم تنظیموں کے سربراہوں کے درمیان انتہائی پرسکون انداز میں نظر آئے۔ پھر بھی کچھ اچھا ہونے کی اُمید باقی تھی مگر کوئٹہ سانحے کے بعد جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رپورٹ منظر عام پر آگئی تو باقی ماندہ اُمیدوں پر بھی پانی پھیر دیا گیا۔
بحیثیت ایک عام پاکستانی ہمیشہ سے اسی رائے پر قائم ہوں کہ پاکستان کو دہشت گردی سے زیادہ خطرہ مذہبی شدت پسندی سے ہے۔ نیشنل ایکشن پلان بننے کے بعد ملک میں انتہاپسندی کا خاتمہ کرنے کے لئے واضح شق اس پلان میں شامل کی گئی تھی مگر توجہ صرف شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن ضرب عضب پر رکھی گئی اور باقی نیشنل ایکشن پلان پر پانی پھیر دیا گیا ۔ پاکستان میںہمارے اکثر تجزیہ کاروں کی رائے یہی تھی کہ وزیرستان میں ضرب عضب کے خاتمے کے بعد ملک امن کا گہوارا بن جائے گا مگر ایسا نہ ہوسکا ۔ ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر نے ہمیں دوبارہ خواب خرگوش سے جگا دیا اور آج دوبارہ ہم نئے سرے سے ملک میں انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے ایک نئے آپریشن کی طرف جارہے ہیں جس کی واضح حکمت عملی ملک میں انتہاپسندی کا خاتمہ ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ انتہاپسندی کے خاتمے کے لئے ہماری سول حکومت مکمل طور پر ناکام نظر آئی۔ پلان کی شق پانچ کے مطابق دہشت گرد تنظیموں کے میڈیا کی اشاعت پر مکمل پابندی لگائی جائے گی مگر آپ ملک میں کسی بھی اخباری سٹال کا دورہ کریں تو آپ کو کالعدم تنظیموں کے رسائل اور اخبارات باآسانی مل جائینگے جو ملک میں نفرتوں کو ہوا دیں رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر ایسے کئی چہروں کی تقریروں کو بہت پذیرائی ملی جو کھلے عام نفرتیں پھیلا رہے ہیں مگر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ پلان کی شق دس کے مطابق ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں مدارس کی رجسٹریشن کی جائے گی مگر حکومت مذہبی جماعتوں کے دباﺅ کو دیکھتے ہوئے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی۔ جب فروری کے مہینے میں ملک میں دہشت گردی کی نئی لہراُٹھنا شروع ہوئی تو وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے ہوش سنبھال کر وفاق میں موجوددینی مدارس کی رجسٹریشن کا حکم دیا ۔ آئی سی ٹی نے ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں مدارس کے حوالے سے سروے شروع کئے، تازہ ترین سروے نے ملک کے باشعور طبقے میں ایک ہلچل مچادی ۔ سروے کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود 374 مدارس میں سے 205 مدارس ملک کے کسی بھی ادارے کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہیں جبکہ اکثر مدارس کی بلڈنگز غیر قانونی طور پر بنا ئی گئی ہیں۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مدارس کی تعداد سکولوں سے زیادہ ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے اور ہمارے اداروں کی غیر سنجیدگی کا واضح ثبوت ہے۔ 2001ء کے بعد ملک کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مدرسوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیامگر حکام شعور رکھتے ہوئے بھی خاموش رہے۔ آج شدت پسندی کے جس بارودی ڈھیر پر ہم کھڑے ہے اُس سے نکلنا ناممکن نہیں تو آسان بھی نہیں۔ مارچ 2016ء میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کا ممتاز قادری کے جنازے کے وقت جم غفیر اور 13 دسمبر 2016ء کو پنجاب کے شہر چکوال میں ہزاروں مسلح لوگوں کا جماعت احمدیہ کی مذہبی عبادت گاہ پر حملہ ، مولانا حق نواز جھنگوی کے بیٹے مسرور نواز جھنگوی کا پنجاب سے الیکشن جیتنا ،پاکستانی معاشرے کی واضح تصویر ہے کہ ہمارے سماجی رویے کتنی تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں اور شدت پسندی کا لاوا کتنی تیزی سے باہر آرہا ہے۔ 31 مارچ 2017ء کو کرم ایجنسی پارہ چنار میں اہل تشیع کی ایک مذہبی عبادت گاہ پر حملہ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں دو درجن سے زیادہ افراد لقمہ اجل بنے۔ پارہ چنار کی اہل تشیع آبادی گزشتہ کئی ماہ سے اپنے تحفظات کا اظہار کررہی تھی کہ پارہ چنار میں ایک مرتبہ پھر کچھ تنظیمیں دوبارہ سرگرم ہورہی ہیں جو اہل تشیع کو نشانہ بنا سکتی ہیں اور اُن کے تحفظات کچھ ہی ہفتوں بعد درست ثابت ہوئے مگر ہمارے اداروں نے اس حوالے سے کوئی لائحہ عمل اختیار نہیں کیا ۔ دہشت گردی سے زیادہ خطرہ ہمارے سماج کو مذہبی شدت پسندی ہے جو تیزی سے ہمارے معاشرے کو تبدیل کررہا ہے جس کو شکست دینا نہایت مشکل دکھائی دے رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).