استاد، موٹیویشنل سپیکر اور گیندے کے پھول


یارو! مجھے معاف کرو، میں نشے میں ہوں۔ پر یہ نشہ کسی انگور کی دختر نیک اختر یا گنے کے صاحب زادے کا نہیں۔ یہ کسی اور ہی ٹائپ کا نشہ ہے جس کی وضاحت میں فی الحال نہیں کروں گا۔

نہ تو میں خدا ہوں اور نہ ہی اس کا بھیجا ہوا کہ جس کی بات غلط نہیں ہو سکتی۔ تو صاحبان، قدردان، مہربان۔۔۔بڑے ہی ٹھنڈے دل سے میری رائے پر نظر ڈالئے گا۔ گرم ہو کر آپ اپنے بیوی، بچوں اور ماتحتوں کا ہی نقصان کریں گے۔ میرا تو مجھ میں کچھ بھی باقی نہ ہے۔

ایک پیر یا استاد کو کیسا ہونا چاہیے؟

یہ ایک ملین ڈالر کا سوال ہے۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے میں مارکیٹ میں برساتی کھمبیوں کی طرح اُگ آنے والی مخلوق موٹیویشنل ٹرینرز یا سپیکرزکا ذکرِ بد کرنا چاہوں گا۔

ابراہم ماسلو ایک مشہور امریکی سائیکولوجسٹ گزرا ہے جس نے ایک تھیوری پیش کی تھی جسے “تھیوری آف نیڈ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس تھیوری کے پانچ لیول ہیں۔ جو فزیالوجیکل نیڈز، سیفٹی نیڈز، لَو یا بلانگنگ(Love/Belonging)نیڈز،اور اسٹیم نیڈز(Esteem)ہیں۔

اورپانچواں سب سے اوپر سیلف ایکچو لائیزیشن کا لیول ہے۔

فزیالوجیکل نیڈز میں بدنی ضروریات جیسا کہ کھانا ، پینا، سونا، جاگنا اور سیکس وغیرہ شامل ہیں۔اور پانچویں لیول پر اگر کوئی شخص پہنچ جائے تو وہ بڑا ٹھنڈا میٹھا انسان ہوتا ہے جو” میں” اور پچھلی تمام ضروریات سے آزاد ہو چکا ہوتا ہے۔ اس کے پیشِ نظر اپنی ذات نہیں بلکہ انسانیت ہوتی ہے اور وہ اِنر سیٹیسفیکشن (Inner Satisfaction) کے لئے کام کرتا ہے۔ ایسے شخص کے چہرے پر آپ کو سکون، اطمینان ، نرمی اور ٹھہراؤ نظر آئے گا۔

اب واپس آتے ہیں موٹیویشنل سپیکرز کی طرف۔ میرے مشاہدے میں پاکستان کے جتنے مشہور موٹیویشنل سپیکرزآئے ہیں، میں نے ان کا بغور جائزہ لیا ہے۔ کسی کے چہرے کو کرختگی کی مار ہے، کسی کے گیسُو اور کسی کی رنگت اُڑی اُڑی سی ہے۔ کسی کو دیکھتے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف کو خود بھی کسی سائیکاٹرسٹ کی ضرورت ہے۔ کوئی فزیالوجیکل اور سیفٹی نیڈز کا مارا لگتا ہے اور بعض تو پورے کے پورے حریص بلیک ہول دکھائی دیتے ہیں۔ اور ماشاء اللہ بھاشن سارے سیلف ایکچولائیزیشن کے لیول کا دیتے ہیں۔

ایک اور بات جو مجھے سمجھ نہیں آتی وہ یہ ہے کہ پیسے لے کے کاہے کی تبلیغ؟ اپنے بھاشن ،سوری موٹیویشنل سپیچ ، دینے کے لئے اچھی خاصی بھاری رقموں کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ لوگ ابھی سیلف ایکچولائیزیشن سے بہت نیچے اور پیچھے ہیں۔ ہو سکتا ہے مستقبل میں یہ دھندہ میں بھی شروع کر دوں تو بھائیو، میں ایڈوانس میں خود پر تبرا بھیجتا ہوں اور آپ کے بھیجے ہوئے گیندے کے پھولوں کی مالا کے چڑھاوے بھی بخوشی قبول کروں گا۔

اب اپنے پرانے سوال استاد کو کیسا ہونا چاہئے کا جواب کھوجنے کی کوشش کرتا ہوں۔میری نظر میں سب سے پہلی بات تو یہ کہ ایک استاد، پیر یا مرشد کو صرف”بھاشن باز” نہیں ہونا چاہئے۔ تقریر جھاڑنا تو دنیا کا آسان ترین کام ہے۔ استاد یا مرشد کا کا کام گرے ہوئے ہوئے لوگوں کو اُٹھانا اور تھامنا ہونا چاہئے۔ اور تھامنے کے بعد جب تک گرا ہوا چلنے کے قابل نہ ہو جائے، اس کے ساتھ چلنا ہونا چاہئے۔

ایک صحیح استاد صرف مبلغ نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے تجربات اور مشاہدات سے سے نہ صرف عملی طور پر اپنے شاگردوں یا سالکوں کو گزارتا ہے بلکہ قدم قدم پر ان کا حوصلہ بلند کرنے اور رہنمائی کے لئے بھی موجود ہوتا ہے۔ ایک صحیح پیر کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہوتا۔ وہ پسند نا پسند اور مفادات کے حصول کے لئے لوگوں کی مدد نہیں کرتا۔ وہ شاگرد چننے کے لئے اپنے سامنے کوئی آزمائشی پیمانہ نہیں رکھتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایک اچھا شاگرد ایک اچھے استاد سے زیادہ سے زیادہ فیض حاصل کرلیتا ہے۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں مکار، رنگے سیار، ڈھونگی اور لفظوں کے مداری تو ٹڈی دل کی طرح اپنے اپنے شکار کی تلاش میں اپنے ہتھیاروں سمیت سرگرداں نظر آتے ہیں پر کوئی انسان کا بچہ نہیں۔ اور اگر آپ کسی انسان کی تلاش میں نکلتے ہیں تو خاطر جمع رکھئے۔ زندگی کم پڑ سکتی ہے۔ رہے نام اللہ کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).