میرا جی کی مابعد نوآبادیاتی تفہیم اور ڈاکٹر ناصر عباس نیّر


 جناب ڈاکٹر ناصر عباس نیّر صاحب کے نام اور کام سے میراتعارف اُن کی ایک اہم ترین کتاب ” مابعد نوآبادیات: اردو کے تناظر میں“ کے حوالے سے تھا۔ میں نوآبادیاتی نظام اوراس کے نفسیاتی اثرات کو پاکستانی معاشرے کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وطن میں نہ ہونے اوراپنی عمومی کم علمی کے سبب میراخیال تھا کہ اس موضوع پر اردو میں انتہائی کم کام ہوا ہے ۔ ایسے میں ایک پوری کتاب کا سامنے آ جانا میرے لیے باعثِ حیرت بھی تھا اورباعثِ خوشی بھی۔

میری طالب علمانہ رائے کے مطابق ہمارے علمی حلقوں نے مابعد نوآبادیاتی تفہیم کو نظرانداز کر کے معاملات کو سمجھنے کے اہم حوالے سے پہلوتہی کی ہے۔ ہماری موجودہ سماجی ، علمی ، سیاسی اورنفسیاتی صورتِ حال کو سمجھنا ما بعد نوآبادیاتی نظام کی گہری واقفیت کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے مرض کی وجہ کو جانے بغیر علامات پر گفتگو کی جائے۔ لیکن معاملہ کچھ ایسے ہی ہے ۔ ہم میں ہرایک معاملات کو سطحی انداز میں دیکھتا ہے۔ ہماری ذہنی کیفیات اوررویے کن اسباب و واقعات کے زیر اثر وقوع پذیر ہوتے ہیں ، ان اسباب اورواقعات کو بالعموم درخواعتنا نہیں سمجھاجاتا۔ ایسے میں ڈاکٹر ناصر عباس نیّر کا مابعد نوآبادیاتی تفہیم کی جانب توجہ مبذول کروانا اور مختلف حوالوں سے اس تفہیم کی مختلف تشریحات پیش کرنا، پاکستان کے علمی حلقوں پر ایک احسان سمجھنا چاہیے۔ اس تحریر میں اُن کی کتاب ” اُس کوایک شخص سمجھنا تو مناسب نہیں؛ میرا جی کی نظم اورنثرکے مطالعات“ زیر گفتگو ہے جس میں انہوں نے میراجی کی نظم اورنثر کا مابعد نوآبادیاتی مطالعہ فرمایا ہے ۔

آگے بڑھنے سے پہلے چند گزارشات قابل غورہیں ۔

یہ سمجھنا کہ نوآبادیاتی نظام اور اس کے اثرات 1947ء کے بعد ختم ہوگئے تھے اوراب یہ نظام اپنے اثرات کے حوالے سے اپنا وجود نہیں رکھتا، ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے ۔ ماہرین کی ایک بڑی تعداد نے نہ صرف اس سے اختلاف کیا ہے بلکہ اس نظام کی بقا اور اس کے محکوم قوموں  (Colonised)کے موجودہ حالات پر مرتب ہونے والے اثرات کے ثبوت فراہم کیے ہیں اور ان اثرات کو بہتر طورپر بیان کرنے کے لیے نئی اصطلاحات بھی وضع کی ہیں ۔ مثال کے طور پر کوامی کروما کی اصطلاح (NEO-COLONIALISM)، مارک بورگ اور مرزا اطہر بیگ کی اصطلاح (HYPER-COLONIALISM)۔ اسی طرح ہومی ۔کے ۔بھابھا(HOMI.K.BHAHBA)نے موجودہ صورتِ حال میں محکوم معاشروں کی اختیارکردہ ان میکانیتوں MECHAMISMSکی نشاندہی کی ہے جو براہ راست نوآبادیاتی تسلط کا ردّعمل ہیں۔

دوسری گزارش یہ ہے کہ یہ نئی اصطلاحات اورمحکوم معاشروں کے ردّعمل کے نئے اسلوب جہاں مابعد نوآبادیاتی نظام کی حیات کا ثبوت ہیں وہیں اس بات کا ثبوت بھی ہیں کہ نوآبادیاتی تسلط کس طرح مسلسل اپنی تشکیلِ نو کے عمل سے گزرتا ہے اورہر آن اور ہر لحظہ یہ تسلط کس طرح نئی صورتیں اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔

تیسری گزارش یہ ہے کہ جدید نیولبرل نظام میں حالات و واقعات ایک غیر محسوس انداز میں وقوع پذیر ہوتے ہیں ،اس لیے وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کے پس منظر میں کارفرما قوتیں اپنی شناخت کو سطح پر ظاہر نہیں ہونے دیتیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ پاکستان جیسے معاشروں میں مابعد نوآبادیاتی مطالعوں کا چلن عام نہیں ہو سکا۔

ڈاکٹر ناصرعباس نیّر نے مابعد نوآبادیاتی مطالعے کے لیے جس شخصیت کا انتخاب کیا ہے وہ میراجی ہیں ۔ مجھے یہ اعتراف کرنے دیجیے کہ میں نے ادب کے ایک عام قاری کے طور پر میراجی کو پڑھا ہے ۔ اس مطالعے کے ساتھ ڈاکٹر ناصر عباس نیّر کی کتاب کو پڑھنے کے بعد مجھے شدّت سے یہ احساس ہوا ہے کہ مابعد نوآبادیاتی مطالعے کو شروع کرنے کے لیے شاید میراجی سے زیادہ موزوں شخصیت کوئی اور ہو بھی نہیں سکتی تھی۔ اور اس احساس کی دو وجوہات ہیں:

پہلی وجہ تویہ ہے کہ نوآبادیاتی نظام محکوم قوموں میں چیزوں کے جس سطحی مطالعے کو فروغ دیتا ہے میراجی کی شخصیت اور کام اس مطالعے کے واضح شکار نظر آتے ہیں ۔ ڈاکٹر ناصر عباس نے چند انتہائی اہم لوگوں کو آرا درج کی ہیں جن سے ظاہر ہوتاہے کہ کس طرح ان اہم لوگوں کی نظر میراجی کے لباس، ان کی وضع قطع اور ظاہری حلیے میں الجھ کر رہ گئی اور لوگ اُن کے کام کے گہرے مطالعے سے محروم رہے۔ لوگوں نے میراجی کو ذہنی مریض، اخلاقی پستی کا شکار اورایک چلتی پھرتی لاش قراردیا۔ سعادت حسن منٹو جیسے نابغے نے میراجی کے اپنے بیان کو نظراندازکیا اور تین گولوں کی دورافتادہ تشریحات کیں ۔ میراجی نے ان تین گولوں کو BALLS OF WISDOM کہا تھا۔ یہ لوہے کے گولے تھے جو میراجی ہمہ وقت اپنے پاس رکھتے تھے۔ لوہا مردانہ سختی کی علامت ہے ۔ جنگ میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں میں کام آتا ہے۔ اس لوہے کو حکمت اوردانائی سے جوڑنا معافی کے کتنے نئے دروازے کھولتا ہے، اس پر نظر نہ جا سکی۔ وجہ ظاہر ہے۔ نوآبادیاتی نظام ہمیں مجبورکرتا ہے کہ اشیا اورمظاہر کا مطالعہ اس کے وضع کردہ فریم ورک میں رہ کر کریں۔

آر۔ڈی ۔ لینگ R.D. LANGنے یہ بات ذہنی مریضوں خصوصاً شیزوفرینیاSCHIZO PHRENIA  کے حوالے سے کہی تھی۔ اس نے بیان کیا تھا کہ کس طرح مریض کے اپنے بیان کو نظرانداز کر کے معالج اپنے ذہن اور علم کے گھوڑے دوڑا کر مریض کے بارے میں فتاویٰ جاری کرتا ہے۔ بالکل یہی سلوک نقادوں نے میراجی کے ساتھ کیا۔ یہاں لینگ کی ایک اور بات کا تذکرہ بھی شاید برمحل ہو۔ اس نے کہا تھا کہ شیزوفرینیا ایک مرض نہیں ہے بلکہ محکوم کی ایک حکمت عملی ہے جو وہ ایک ناقابلِ رہائش دُنیا میں رہنے کے لیے اختیار کرتا ہے۔

میراجی کے نوآبادیاتی مطالعے کی دوسری وجہ شاید یہ بھی ہو کہ نوآبادیاتی تسلط کو دیکھنے کا جو اسلوب میرا جی نے اختیار کیاہے وہ بہت ہی ہمہ جہت ہے۔ اپنی ایک مشہورنظم ”اجنتا کے غار“ میں جو تصور انہوں نے پیش کیا ہے وہ اپنے وقت سے بہت آگے کا تصورتھا۔ شاید یہی سبب ہو کہ اس جیسی شاعری اس دادو تحسین اورتفہیم سے محروم رہی جس کی وہ مستحق تھی۔

اس نظم کی چند سطور ملاحظہ فرمائیں:

                تین منظرنامے تھے فقط۔ ایک ۔دو۔تین

                نوع انساں کے نصیب کو بدلنے والے

نوع انساں تو ہے جاہل کا دماغ

جس نے بھی گیان کی اک بات کہی

دار یہ اس کو چڑھا کر مارا

ایک کہتا تھا زمین گول ہے اورگھومتی ہے

نوع انساں نے اسے صفحہ ہستی سے مٹا کر چھوڑا

                نظم کے تسلسل سے نکل کر مندرجہ بالا سطور سے پہلے کی ان سطروں کو دیکھیں:

                ایک ہی وقت سے ۔ ایک دور سے ۔ رغبت کیوں ہے۔

                ایک ہی نورمرے ذہن پہ کیوں چھایا ہے

                نور کے رنگ کئی ہیں کون آئے ۔ آئے

نور کا رنگ ہے صرف ایک، بدل دیتا ہے اس کو ماحول

وجہ تحریک ہیں پژمردہ نقوش

                علم ہی سینہ ماضی میں لے جاتا ہے

                ورنہ فردا بھی مجھے دوش کی مانند نظر آجاتا

                جیسے اب دوش نظرآتاہے دیوار کی تصویروں میں

                اور دیوار کی تصویریں بتاتی ہیں مجھے وقت کی رفتارکے ساتھ

                ایک انسان لڑکپن سے جوانی میں گیا

                اورجوانی کے گزرنے پر بڑھاپاآیا

                ہاں وہی راج کمار۔۔باغ میں جس کے نہ تھی کوئی بھی پژمردہ کلی

                دوش وفردا کی مصیبت ہی سے آزاد ہوا۔

اجنتا کے غاروں میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ غاربدھ مت کے ابتدائی دورکے حوالے سے ایک اہم ترین مقام کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔ اس میں موجود تصویریں اورمجسمے اپنے اظہار کی شدت اورقوت کی نسبت سے اہمیت کے حامل ہیں۔ ان غاروں پر ایک طویل نظم کے کئی پہلو قابل غور ہیں ۔ پہلی بات جس کی جانب ڈاکٹر ناصر عباس نے توجہ دلائی ہے وہ میراجی کے ہندوستان کا تصور ہے ۔ ان کا ہندوستان مذہب کے بجائے انسانی ارتقا کی غمازی کرتا ہے ۔ یہ غار کسی مذہبی پیشوا کی نہیں ایک گیانی کی یادگار ہیں ۔ جو اہم بات اس ذیل میں ڈاکٹر صاحب نے بیان کی ہے وہ ماضی کا ایک وسیع تصور ہے جو میراجی اس نظم میں بیان کر رہے ہیں ۔ دوسرے یہ ماضی کی طرف لوٹنے یا اسے تکریم اورتقدیس دینے کا تصور نہیں ہے بلکہ اسے صرف ایک لازمے کے طورپر قبول کرنے کا تصور ہے۔ اوراہم ترین بات یہ ہے کہ یہ تصور نہ تناقص (CONTRADICTION)پر استوار ہوا ہے اورنہ جدلیّات پر ۔

یہ وہ اہم ترین نکتہ ہے جس کے بارے میں یہ گزارش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ اپنے وقت سے آگے کی بات تھی۔

پورا نوآبادیاتی نظام اوراس کے مطالعات تناقص اورجدلیات سے نہیں نکل سکے۔ آج تک کے مطالعات یا نوآبادیاتی نظام کے حامیوں کو تحریروں پر مشتمل ہیں یا ان کے مخالفین کی۔

اس حمایت اورمخالفت کی بنیادیں یا نسل میں پوشیدہ ہیں یا مذہب میں۔ نوآبادیاتی نظام کے حامیوں کے ایک گروپ (جان سٹوارٹ مل اورنائل فرگوسن ) نے اسے تہذیب یافتہ اقوام کی ذمہ داری قراردیا کہ وہ کم تہذیب یافتہ اقوام کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر اُن کی تربیت کریں جبکہ دوسرے گروپ (کارل مارکس) نے اسے کم ترقی یافتہ اقوام کی ترقی کے لیے ضروری قراردیا۔ جبکہ مخالفین نے اسے ایک غیر انسانی اورغیر اخلاقی استحصالی نظام قراردیا۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے اسے خالصتاً مذہبی حوالوں سے دیکھا کیونکہ یہ نظام مسلمان بادشاہوں کی حکومتوں کے خاتمے کا سبب بنا تھا۔  1857 کی جنگ آزادی کو بھی مسلمانوں کے ردّعمل کے طورپر دیکھا گیا۔ نتیجہ ظاہر ہے تناقض کے سوا کیا نکلنا تھا۔

ایسی فضا میں جو شخص اپنے ماضی کے کسی ایک پہلو پر مرتکز نہ ہو اپنے ماضی کو صرف ایک محدود جہت میں دیکھنے کے بجائے اس ہر جہت کو نظر میں رکھنے اور اجاگر کرنے کی سعی کرے ۔ ماضی کو اپنے سفر کے ایک پڑاﺅ کے طور پر دیکھے ۔ اورکسی سے بھی الجھے بغیر آگے بڑھنے اورمسلسل سفر پر غورکرے۔ ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ جس فضا اورماحول میں ہم زندہ ہیں اگر میراجی اس ماحول میں شاعری کررہے ہوتے تو ان کی قبولیت کا عالم کیا ہوتا۔

کسی کتاب کا مطالعہ نہیں صرف آج رات ٹی وی کے ٹاک شوز دیکھیے، جواب مل جائے گا۔

اردو پڑھنے والوں پر یہ ڈاکٹر ناصر عباس نیّر کا احسان ہے کہ انہوں نے میراجی کی شاعری کے ایسے پہلوﺅں کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے کہ جو ساٹھ ، سترسال پہلے تو کیا آج بھی اجنبی ہیں ۔

اس کتاب کی ابتدا میں میراسین اورمیراجی کے تعلق کے حوالے سے ایک اہم اورمعنی خیز نفسیاتی تجزیہ کیا گیا ہے ۔ ہمارے ادبی حلقوں میں نفسیاتی تنقید بالعموم نفسیات کے ایک مکتبہ فکر (سگمنڈ فرائڈ) کے تحلیلِ نفسی یا کارل ژنگ کے نظریات تک محدود رہی ہے ۔ جنہوں نے ڈاکٹر ناصر عباس کے وہ مضمون بھی دیکھے ہیں جو انہوں نے لاکانLACANجیسے جدید نفسیات دانوں کے نظریات پر لکھے ہیں۔ میری طرح وہ بھی یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ڈاکٹر صاحب نے میراجی کے نفسیاتی تجزیے کو تحلیل نفسی تک محدود کرکے صرف ایک خاص نتیجہ اخذ کیا ہے۔ اگر وہ برطانوی نفسیات دان جان بولبی JOHN BOWLBYاور پاکستانی ماہر نفسیات اختر احسن کے نظریات کے حوالے سے میراجی کے میراسین اوراپنی والدہ کے ساتھ تعلق کو دیکھتے توشاید وہ تجزیے کی کئی اورجہتیں بھی دریافت کرتے۔

اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف میراجی کے کام کے کئی نامعلوم گوشوں کی طرف رہنمائی کی ہے بلکہ مابعد نوآبادیاتی مطالعے کی اہمیت ، افادیت اورضرورت کو بھی ثابت کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).