دس اپریل 1986۔۔۔۔ وہ دن کہ جس کا وعدہ تھا (2)


بے نظیر آئے گی، انقلاب لائے گی۔ یہ نعرہ بار بار میرے کانوں میں گونجتا رہا۔ انقلاب، عوامی انقلاب ۔ آمریت سے نجات کے لمحات قریب آ رہے ہیں۔ فیض صاحب نے کہا تھا نا ہم دیکھیں گے، وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے۔ جو لوحِ ازل پر لکھا ہے، ہم دیکھیں گے۔ اور شاکر میں سوچ رہا تھا کہ فیض صاحب نے جس دن کا ذکر کیا شاید وہ 10 اپریل ہی ہو۔ 10 اپریل کا سورج جو چند ہی گھنٹوں میں طلوع ہونے والا تھا، ایک نئی امید، ایک نئی آرزو، وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے وہ دن اب چند گھنٹوں کی مسافت پر تھا۔ پھر تخت گرائے جائیں گے اور تاج اچھالے جائیں گے۔ اور جنرل ضیاء کے سر اوپر بجلی کڑ کڑ کڑکے گی۔

وقت گزر ہی نہیں رہا تھا۔ میں نے ٹرانسسٹر آن کیا۔ بی بی سی کی انگریزی سروس کی خبروں میں بتایا گیا کہ بے نظیر بھٹو چند گھنٹوں میں پاکستان پہنچنے والی ہیں اور اس وقت وہ طیارے میں ہیں۔ بی بی سی کا رپورٹر لاہور سے بتا رہا تھا کہ لاکھوں افراد لاہور میں جمع ہو چکے ہیں کسی بھی شخصیت کے استقبال کے لیے برصغیر کی تاریخ میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ کبھی جمع نہیں ہوئے۔ میں صبح 5 بجے پھر کمرے سے نکل آیا۔ وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے میں اس دن کو طلوع ہوتے دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ دن کچھ زیادہ اجلا اور شفاف دکھائی دے رہا تھا۔ سید پور کی گلیوں سے نکلتا ہوا میں ملتان روڈ پر آگیا۔ شاہ نور سٹوڈیو کے گیٹ کے ساتھ ایک دکان سے ناشتہ کیا۔ سڑکوں پر ویسی ہی رونق تھی جیسی میں رات دو بجے کے قریب چھوڑ کر گیا تھا۔ رات کو لاہور روشنیوں میں نہایا ہوا تھا اور اب جب دن نکلا تو منظر اور بھی خوبصورت ہو گیا۔ لگتا تھا پورے لاہور کو 3 رنگوں میں رنگ دیا گیا ہے۔ سرخ، سیاہ اور سبز۔ ہر طرف یہی تین رنگ دکھائی دے رہے تھے۔ سرخ لہو کا رنگ ہے، سیاہ ماتمی لباس کا رنگ اور سبز؟ ۔۔۔ سبز شاید گنبد کا رنگ ہو یا شاید قبروں پر ڈالی جانے والی چادروں کا رنگ ہو۔ بھٹو صاحب نے اپنی پارٹی کے لیے پرچم کے رنگوں کا جب انتخاب کیا تو ان کے ذہن میں ان رنگوں کی یہ تقسیم یقیناً نہیں تھی مگر پارٹی کا پرچم اب آزادی کی علامت بن چکا ہے اور خون دینے کی روایت بن چکا ہے۔ بھٹو صاحب کے ساتھ پارٹی کے کتنے ہی کارکنوں نے جانوں کے نذرانے دیئے۔

رات ایک چوراہے میں کوئی عوامی شاعر پنجابی کی ایک نظم سنا رہا تھا۔ تین مصرعے تو ذہن میں نقش ہو کر رہے گئے۔ سِر دِتا سی / سِر لینے نے/ ہُن انج نیوندرے پینے نے ۔ شاکر دیکھ اس مصرعے میں ’’نیوندرے‘‘ کتنا خوبصورت استعمال ہوا۔ واقعی بہت خوبصورت زبان ہے پنجابی ۔ اب یہ مضمون کسی اور زبان میں اتنی خوبصورتی کے ساتھ کبھی بھی نہیں باندھا جا سکتا۔ اور ’’نیوندرا‘‘ ۔ اس لفظ کا بھی ترجمہ ممکن نہیں۔ سو ملک بھر سے پیپلز پارٹی کے کارکن ’’نیوندرے‘‘ ڈالنے کے لیے جمع ہو چکے تھے۔

صبح چھ بجے جہاز کی آمد کا وقت تھا۔ میں ایئرپورٹ سے کئی کلومیٹر دور تھا۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ جہاز ابھی لینڈ کیا ہے یا نہیں۔ لیکن چھ بجے لاہور کی سڑکوں میں جو جہاں تھا اس نے زور دار نعرے کے ساتھ گویا بے نظیر کی آمد کا اعلان کر دیا۔ ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے، بھٹو کی تصویر بے نظیر، بے نظیر‘‘ کے نعرے گونجنے لگے۔ اور رات تک ’’بے نظیر آئے گی، انقلاب لائے گی‘‘ کا جو نعرہ لگ رہا تھا وہ ’’بے نظیر آئی ہے، انقلاب لائی ہے‘‘ کے نعرے میں تبدیل ہو گیا۔ ایک ہی لمحے میں منظر بدل گیا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے ہمارے خوابوں کو تعبیر مل گئی ہے۔ خواب تعبیر پاتے ہیں یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر اس وقت اس لمحے کی کیفیت یہی تھی کہ جیسے ہمیں سب کچھ مل گیا۔ جیسے ہماری جدوجہد رنگ لے آئی ہے۔ میں ایئرپورٹ کی جانب بڑھنے لگا۔ اور ائیرپورٹ جانا آج کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ عام دنوں میں ایئرپورٹ جانے کے لئے خاص روٹ کی ویگن یا بس کا انتظار کرنا پڑتا ہے لیکن 10 اپریل کی صبح لاہور کی تمام سڑکیں ایئرپورٹ کی طرف جا رہی تھیں۔ تمام راستے ایئرپورٹ پر ختم ہوتے تھے۔ ہر بس اور ہر ویگن ایئرپورٹ کی طرف جا رہی تھی۔ میں دبئی چوک (اقبال ٹاؤن) سے پیپلز پارٹی کے پرچموں سے سجی ہوئی ایک بس میں سوار ہو گیا۔ بس کی چھت پر نوجوان سوار تھے ڈھول بج رہا تھا۔ شاکر ان دو دنوں کے دوران لاہور میں جتنا ڈھول بجایا گیا شاید ہی کبھی بجایا گیا ہو۔ ان دو دنوں کے دوران لاہور کی سڑکوں پر خلقت نے جتنا رقص کیا شاید ہی کبھی کیا ہو۔ پورا لاہور ناچتا گاتا دکھائی دے رہا تھا۔ اس لاہور نے بہت برے دن بھی دیکھے۔ آہیں اور سسکیاں بھی دیکھیں۔ اسی لاہور کی سڑکوں پر لوگوں کو کوڑے بھی لگائے گئے، انہیں چوراہوں میں سرعام پھانسیاں بھی دی گئیں تاکہ باقی لوگ عبرت حاصل کریں۔ اسی لاہور کی سڑکوں پر خون کی ہولی بھی کھیلی گئی، فائرنگ ہوئی، لاٹھیاں چلیں، آنسو گیس پھینکی گئی اگرچہ اس عہد سیاہ میں لوگوں کو رُلانے کے لیے آنسو گیس کے تردد کی ضرورت بھی نہیں کہ آنسو تو اظہار کا سب سے بڑا وسیلہ بن چکے تھے مگر اس کے باوجود بے تحاشا آنسو گیس استعمال ہوئی اسی لاہور کی سڑکوں پر لوگوں نے تیرگی کے خاتمے کے لیے اپنے جسموں کو چوارہوں میں آگ لگائی۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).