دس اپریل 1986۔۔۔ وہ دن کہ جس کا وعدہ تھا (4)


لو میاں کل جو خط تمہیں لکھنا شروع کیا تھا آج اسے مکمل کرتا ہوں۔ تم نے اپنے خط میں اصرار کیا تھا کہ میں 10 اپریل کے جلسے کی روداد تفصیل سے لکھوں کہ تم وہاں بدوؤں کے ملک میں خبروں سے محروم ہو۔ پرانے اور سنسر شدہ اخبارات پڑھتے ہو۔ اب آگے کا احوال سنو۔

اب تمہیں ریگل چوک لیے چلتا ہوں۔ 10 اپریل سہ پہر تین بجے میں ریگل چوک میں موجود تھا اور سامنے ٹرک پر بے نظیر بھٹو ہاتھ لہرا کر میرے نعروں کا جواب دے رہی تھیں۔ تم میرے اس جملے پر مسکرا رہے ہو ناں کہ لاکھوں کے ہجوم میں بے نظیر میرے نعرے کا ہی جواب کیوں دے رہی تھیں۔ شاکر یقیناً وہ میرے نعرے کا نہیں وہ سب کے نعروں کا جواب دے رہی تھیں لیکن میرے محسوسات یہی تھے کہ جیسے وہ صرف میرے نعرے کا جواب دے رہی ہیں۔ میں نے نعرہ ہی اتنی قوت سے لگایا تھا کہ لاکھوں آوازوں میں بھی مجھے یقین ہو گیا تھا کہ میری آواز ہی ان تک پہنچی ہو گی۔ اور صرف میری ہی انہیں اس ہجوم میں موجود ہر شخص کی یہی کیفیت تھی۔ میں بے نظیر بھٹو کو اپنے سامنے دیکھ رہا تھا۔ ایک خواب حقیقت بن چکا تھا۔ لیڈر ہمارے سامنے تھی۔ بے نظیر ہمارے سامنے تھے۔ بھٹو کی تصویر ہمارے سامنے تھی۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں بے نظیر بھٹو کی جھلک دیکھنے میں کامیاب ہو گیا ہوں۔

میں نے پہلی بار بے نظیر صاحبہ کو دیکھا تھا اور مجھے یاد آرہا تھا وہ لمحہ جب میں نے پہلی اور آخری مرتبہ بھٹو صاحب کو دیکھا تھا۔ کینٹ میں ہمارے گھر کے پاس مال روڈ سے بھٹو صاحب کی سواری گزری تھی۔ 1977ء کے الیکشن سے کچھ پہلے کے دن ہوں گے۔ سردیاں تھیں۔ سامنے سڑک پر جب پولیس والے تعینات ہو جاتے تھے تو ہمیں معلوم ہو جاتا تھا کہ بھٹو صاحب یہاں سے گزرنے والے ہیں۔ وہ مال روڈ اور چوک عزیز ہوٹل کے راستے نواب صادق حسین قریشی کے گھر جایا کرتے تھے۔ تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ بھٹو صاحب کی کابینہ میں جو بہت سے میر جعفر اور میر صادق شامل تھے نواب صادق حسین قریشی بھی انہی میں سے ایک تھا۔ تو ایک روز جب پولیس سکواڈ کے سائرن کی آواز سنائی دی تو میں بھاگتا ہوا ننگے پاؤں گھر سے باہر نکل آیا اور سڑک پر جا پہنچا۔ بس ایک لمحے میں بھٹو صاحب کی جیپ میرے سامنے سے گزر گئی۔ انہوں نے ماؤ کیپ پہن رکھی تھی اور وہ کھلی جیپ میں کھڑے تھے۔ بہت سے لوگ سڑک کے کنارے جمع تھے۔ سب نے تالیاں بجائیں میں نے بھی تالیاں بجائیں۔ اورجب بھٹوصاحب نے ہاتھ ہلایا تو مجھے محسوس ہواکہ جیسے انہوں نے مسکرا کر میری ہی تالیوں کا جواب دیا ہے۔ اور 10 اپریل کو بھی میں یہ سمجھ رہا تھا کہ بے نظیر بھٹو نے صرف میرے ہی نعرے کا جواب دیا ہے۔

بہت جذباتی لمحہ تھا شاکر۔ ایک آنسو میری آنکھوں سے نکلا اور میرے ساتھ کھڑے شخص کے دامن میں جذب ہو گیا کہ اس ہجوم میں وہ آنسو سڑک پر گر ہی نہیں سکتا تھا اسے جذب کرنے کے لیے بہت سے کندھے اور بہت سے دامن موجود تھے۔ مجھے تو امید ہی نہیں تھی کہ میں ٹرک کے قریب پہنچ سکوں گا میں صفانوالہ چوک سے گھسٹنا شروع ہوا تھا۔ تا حدِ نظر سر ہی سر تھے۔ ریگل چوک بہت دور تھا۔ ایک بار تو یوں لگا کہ میں کبھی چوک تک نہ پہنچ سکوں گا۔ پھر ایک ریلا آیا اور مجھے اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ میں خود تو نہیں چل رہا تھا بس لوگ چل رہے تھے۔ ایک سیلاب تھا انسانوں کا جس کے ساتھ میں بہہ رہا تھا۔ یہ سیلاب مجھے چوک کے قریب لے آیا اور پھر میں لوگوں کو چیرتا ہوا چوک میں لگے لوہے کے پائپوں تک پہنچ گیا۔ میں نے مسجد شہداء کے سامنے سڑک کنارے فٹ پاتھ کے ساتھ لگے لوہے کے پائپوں کو تھام لیا اور یہی پائپ میرا سہارا بن گئے ۔ اب ہجوم مجھے سڑک سے دور نہیں کر سکتا تھا کہ جب کوئی ریلا آتا اور مجھے دھکیلنے کی کوشش کرتا تو میں ان پائپوں کو مضبوطی سے تھام لیتا تھا۔ وہ پائپ مجھے دوسری جانب نہیں جانے دیتے تھے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے اس سے مناسب جگہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ تاحدِ نظر ہجوم، سجے ہوئے ٹرک اور گاڑیاں۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بے نظیر والا ٹرک یہاں سے گزر چکا ہے یا ابھی آنے والا ہے۔ ہر طرف ایک جیسا جوش و خروش، ایک سے نعرے، لہراتے پرچم اور ڈھول تاشے، کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ کسی سے پوچھنا بھی چاہا تو معلوم نہ ہو سکا کہ بے نظیر صاحبہ نے ریگل چوک کراس کر لیا ہے یا نہیں۔ لیکن مختلف مکانوں، درختوں اور ٹریفک سگنلز والے کھمبوں پر شست لگا کر بیٹھے ہوئے فوٹو گرافروں کو دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ ٹرک ابھی تک یہاں نہیں پہنچا۔

ایک مزے کے بات سنو۔ ٹریفک سگنل کا ایک پائپ جو دوہرا ہو کر سڑک کے کم و بیش درمیان تک آتا ہے اس پائپ پر فوٹو گرافر فاضل بھٹی ٹانگیں پھنسا کر بڑی مہارت سے بیٹھا تھا۔ فاضل بھٹی تو تمہیں اچھی طرح یاد ہو گا۔ نوائے وقت ملتان کے لیے فوٹو گرافی کرتا تھا۔ آج کل وہ لاہور ہی میں ہے۔ اس خطرناک پوزیشن میں بیٹھا کیمرے کے نہیں اپنی عینک کے شیشے صاف کر رہا تھا۔ میں دو بجے سے یہاں کھڑا تھا۔ اور پھر رفتہ رفتہ ٹرک کے آثار دکھائی دیئے۔ ٹرک آہستہ آہستہ رینگتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اور اس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور ہو رہی تھیں۔ سرخ گلاب کے پھول بھٹو کی تصویر بے نظیر پر نچھاور کئے جا رہے تھے۔ چھتوں سے عورتیں دوپٹے پھینک رہی تھیں اور بے نظیر وہ دوپٹے اپنے سر پر اوڑھ رہی تھیں۔ خوشی سے تمتماتا چہرہ۔ سر پر چلچلاتا سورج، صبح چھ بجے سے وہ ٹرک میں کھڑی تھیں اور اب 3 بج چکے تھے۔ سامنے ایک مکان کی چھت پر ایک عورت آئس کریم کھا رہی تھی۔ بے نظیر نے اس کی طرف اشارہ کیا کہ آئس کریم مجھے بھی کھلاؤ۔ عورت نے آئس کریم ٹرک کی طرف اچھال دی۔ آئس کریم کا کچھ حصہ ہجوم پر بھی گرا مگر وہ آئس کریم بے نظیر تک پہنچ ہی گئی۔ انہوں نے اس عورت کا شکریہ ادا کر کے وہ آئس کریم کھانا شروع کر دی۔ فضا ’’نعرہ نعرہ نعرۂ بھٹو، جیوے جیوے جیوے بھٹو‘‘ سے گونج اُٹھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments