یہ تصویر ہمارا منہ کیوں نوچ رہی ہے؟


زیر نظر تصویر آٹھ اپریل 2017 کی ہے جب بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد نے دورہ بھارت کے دوران بھارتی وزیر نریندر مودی سے ملاقات کی- اس تصویر میں دونوں وزرائے اعظم بیٹھے ہیں اور ان کے عقب میں جو پورٹریٹ آویزاں ہے اس میں پاکستانی فوجی کمان کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کی یادداشت پر دستخط ہو رہے ہیں ، فیس بک پر بہت زیادہ شئیر کی جا رہی ہے اور اس پر ہر شخص اپنے اپنے ذوق اور نظریاتی رجحان کے تحت کمنٹ کر رہا ہے۔ مگر چند ہی لوگ ایسے ہیں جو اس 8 اپریل کی تاریخ اور بنگلہ دیشی وزیر اعظم کے موجودہ دورہ بھارت کو تاریخی تناظر میں دیکھ سکتے ہیں۔

آج کے دن یعنی دس اپریل 1971ء کو پہلی جلا وطن بنگلہ دیشی حکومت بھارتی ریاست “اگرتلہ” میں جلا وطن بنگلہ دیشی ممبران پارلیمنٹ نے منتخب کی تھی، اس نو منتخب حکومت میں مجیب الرحمن صدر اور تاج الدین وزیراعظم تھے۔ یوں اسے آج 46 برس بیت چکے ہیں اور بنگلہ دیش میں اس دن کو خاص طور پر منایا جا رہا ہے جبکہ اس دن کے تناظر میں ہی بھارت نے بھی “اگرتلہ” میں خصوصی تقریبات اور جشن کا اہتمام کیا ہے۔

چلتے چلتے ذرا اگرتلہ کا تعارف بھی ہو جائے جو ایک بھارتی ریاست تری پورا (Tripura) کا دارالحکومت ہے- یہاں بنگالی گوریلا جنگجو مکتی جداس (آزادی کے سپاہی) کے چھ سے سات تربیتی کیمپ تھے۔ بھارتی و بنگلہ دیشی مؤرخین کا دعویٰ ہے کہ دس ملین یعنی ایک کروڑ کے لگ بھگ لوگ بنگلہ دیش سے ہجرت کر کے بھارت میں پناہ گزین ہوئے تھے جن میں تقریباً 1۔6 ملین بنگالی مہاجر اگرتلہ میں مقیم تھے۔ 9 ماہ جاری اس گوریلا لڑائی کا نتیجہ پہ نکلا تھا کہ ہمارے 93,000 فوجی سپاہیوں نے 16 دسمبر 1971ء کو ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ یوں مشرقی پاکستان کی موجودہ پاکستان سے علیحدگی کے بعد، 10 اپریل 1971ء کو وجود میں آنے والی جلا وطن حکومت نے ہی دسمبر 1971 میں ملک کا اقتدار سنبھالا تھا۔ یوں اس دن کے جشن کے بغیر بنگالی قوم پرستی کی تسکین ممکن نہیں ۔

ہمارا المیہ ہے کہ چونکہ ہم اپنی تاریخ سے ہی واقف نہیں اس لئے اس سے سبق حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ جب ہمیں کوئی تاریخی واقعات اور ان سے رونما ہونے والے نتائج کی خبر دیتا ہے، فورا وہ ہمیں سازشی اور ملک دشمن لگنے لگتا ہے۔

ضروری ہے کہ بجائے اس کے کہ مل بیٹھ کر یا فیس بک پوسٹس پر بھارتی و بنگالی وزیر اعظم پر لعنت و ملامت کریں، ذرا اپنے گریبان میں جھانکنے کے لئے تاریخ کی ورق گردانی تو کر لیں کہ آخر مشرقی پاکستان میں ایسی کیا بیتی تھی جس کا یہ نتیجہ برآمد ہوا؟ کس کی کیا کارستانی تھی؟ کن اسباب سے یہ ملک ٹوٹا اور کس طرح ہم اپنے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے اپنے حال اور مستقبل کو بہتر بنا سکتے ہیں؟ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے، کیا ہمیں یہ منظور ہے کہ تاریخی وراثتیں اور دور حاضر کے چیلنجز ہمارا منہ نوچتے رہیں یا ہم واقعی میں آئینہ دیکھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan