کلبھوشن یادیو کو پھانسی دینا مسئلہ کا حل نہیں


پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق گزشتہ برس مارچ میں بلوچستان سے گرفتار ہونے والے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو پھانسی کی سزا کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ ایک فوجی عدالت نے کیا ہے جہاں بھارتی جاسوس کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا گیا تھا اور انہیں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا۔ آئی ایس پی آر کے اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ کلبھوشن یادیو نے ایک مجسٹریٹ کے سامنے پاکستان میں تخریب کاری اور جاسوسی کا نیٹ ورک قائم کرنے کے بارے میں اعتراف جرم کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کی توثیق کردی ہے۔ اس طرح اب اس سزا پر کسی وقت بھی عمل درآمد ہو سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کلبھوشن یادیو کو پھانسی دینے سے کیا بھارت ، پاکستان کے خلاف جاسوسی اور تخریب کاری کے منصوبوں کو ترک کردے گا۔ یا اس پھانسی سے دونوں ملکوں کے درمیان حلات کو بہتر بنانے کی امید پیدا ہو سکے گی۔

ان دونوں سوالوں کا جواب ایک آسان نہیں میں دیا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان میں سیاست دان ، مبصر اور تجزیہ کار عام طور سے اس فیصلہ کو مناسب، قانون کے مطابق اور قومی مفاد کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ضروری قرار دے رہے ہیں۔ تاہم بعض نحیف آوازیں اس جوش و خروش کے عالم میں بھی یہ کہنے کی کوشش کررہی ہیں کہ کلبھوشن کے جرائم سے قطع نظر، اس سزا پر عمل درآمد کرنے سے پہلے ، اس کے سفارتی اور سیاسی نتائج اور اثرات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈر بھی عام طور سے اس فیصلہ کو مناسب اور ضروری قرار دے رہے ہیں تاہم پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے نانا ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اصولی طور پر موت کی سزا کے خلاف ہیں۔ موت کی سزا کے خلاف دنیا میں سخت رائے پائی جاتی ہے۔ یورپ کے متعدد ممالک میں سزائے موت کو کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ تاہم یہ بحث پاکستان جیسے ملکوں میں ناقابل فہم سمجھی جاتی ہے جہاں جرم کے خاتمہ کے لئے موت کی سزا کو اہم سمجھا جاتا ہے۔

کلبھوشن یادیو پاکستان کی ریاست اور عوام کے خلاف گھناؤنے جرائم میں ملوث رہا ہے۔ اس نے سالہا سال تک بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کا نیٹ ورک منظم کرنے کے لئے بھار ت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ایجنٹ کے طور پر کام کیا تھا۔ وہ ایسے ہی مشن پر پاکستان آیا ہؤا تھا جب اسے 3 مارچ 2016 کو بلوچستان کے علاقے ماشخیل سے پاک فوج نے گرفتار کرلیا تھا۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ کلبھوشن بھارتی نیوی کا حاضر سروس کمانڈر ہے لیکن بھارت کا دعویٰ ہے کہ یادیو بحریہ کا سابقہ افسر ہے اور وہ اس وقت ایران یا پاکستان میں کیا کررہا تھا ، اس سے بھارتی حکومت یا ’را‘ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کلبھوشن یادیو نے البتہ ایک ریکارڈ شدہ انٹرویو میں ان سب الزامات کا اعتراف کیا تھا۔ یہ ویڈیو یادیو کی گرفتاری کے تھوڑے عرصہ بعد گزشتہ سال ریلیز کی گئی تھی۔ بھارت نے اس ویڈیو کے مندرجات کو بھی لغو قرار دیا تھا۔ لیکن یہ ویڈیو ریکارڈنگ دیکھنے کے بعد یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کلبھوشن نے کسی تشدد کے بعد یا کسی دباؤ میں یہ بیان دیا ہے۔

اس کے باوجود دونوں ملک کبھی اس بات پر متفق نہیں ہوں گے کہ اصل سچ کیا ہے۔ ایسے معاملات میں سچ ہمیشہ قومی مفادات کی روشنی میں متعین ہوتا ہے ۔ کوئی ملک کبھی یہ اقرار نہیں کرتا کہ وہ دوسرے کی جاسوسی کرتا ہے لیکن ملکوں کے درمیان اس طرح کے واقعات روز کا معمول ہیں۔ خاص طور سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جس طرح دہائیوں سے دشمنی کا رشتہ استوار کیا گیا ہے، اس کی روشنی میں یہ سمجھنا مبنی بر حقیقت نہیں ہو سکتا کہ دونوں ملک کسی نہ کسی سطح پر ایک دوسرے کے خلاف جاسوسی کا نظام استوار کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ تاہم کلبھوشن یادیو کے معاملہ میں جاسوسی کے علاوہ پاکستان میں دہشت گردی کو منظم کرنے کے الزامات معاملہ کو سنگین اور تشویشناک بناتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی نوعیت اور معروضی حالات کی صورت حال میں یہ تصور کرنا مشکل نہیں ہو نا چاہئے کہ پاکستان نے کلبھوشن یادیو کو گرفتار کرکے بھارت کا جاسوسی اور تخریب کاری کا جو نیٹ ورک توڑا تھا ، اس دوران اسے دوبارہ استوار کرلیا گیا ہوگا۔ اس لئے ایک کلبھوشن یادیو کو پھانسی دینے سے یہ گمان کرلینا محال ہے کہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان مسائل حل ہو جائیں گے یا پاکستان کی سلامتی کا تحفظ کرلیا جائے گا۔ اس مقصد کے لئے دونوں ملکوں کو مذاکرات کرنے ، ایک دوسرے کے ساتھ اعتماد کا تعلق استوار کرنے اور یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تصادم اور دشمنی دونوں ملکوں کے مفادات کے خلاف ہے۔ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ہمسایہ ملک ہیں ۔ انہیں بہر صورت ایک دوسرے کے ساتھ ہی رہنا ہے۔ دونوں ملکوں میں سے جس ملک میں بھی یہ تصور راسخ کیا جاتا ہے کہ دوسرے کو تباہ کرکے یا فوجی طور پر زیر کرکے وہ سرفراز ہو سکتا ہے، اسے ختم کرنے اور اس سچائی کو مان لینے کی ضرورت ہے کہ بر صغیر خواہ کن ہی حالات میں معرض وجود میں آیا تھا مگر اب چار پانچ نسلوں کے بعد پاکستان اور بھارت دونوں ہی اٹل حقیقت کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی خود مختار حیثیت برقرار رہے گی۔ اس سچائی کو قبول کئے بغیر مسائل حل کرنے کے رویہ کو عام نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان نے کلبھوشن یادیو کو گرفتار کرکے بھارت کے پاک دشمن ارادوں کو بے نقاب کیا ہے۔ دنیا کو یہ بتایا جا سکا ہے کہ بھارت ایک طرف پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرتا ہے لیکن دوسری طرف خود اس کے خلاف تشدد اور تخریب کاری منظم کرنے کے گھناؤنے جرائم میں ملوث ہے۔ یادیو ایک نظام اور ایک مملکت کا نمائیندہ ہے۔ اس کی پاکستان یا اس کے شہریوں سے ذاتی دشمنی نہیں ہے۔ اب اسے سزا دے کر یہ واضح کردیا گیا ہے کہ اس نے کون سے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ یہ سارے مقاصد حاصل کئے جا چکے ہیں۔ کلبھوشن کو ہلاک کرکے مزید کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

اس کی بجائے اگر پاکستان مناسب سفارتی طریقہ سے کلبھوشن کو بھارت کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرے تو اس سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی میں مدد مل سکتی ہے اور بھارت کے عوام کو بھی یہ احساس ہوگا کہ ان کی حکومت کے جرم کے باوجود پاکستان نے ان کے جاسوس کو سزائے موت دینے کےبعد واپس کردیا۔ اس طرح خیر سگالی کے جو جذبات پیدا ہوں گے، وہ تعلقات بحال کرنے اور مفاہمت کی طرف قدم بڑھانے کے لئے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali