غریب کی ماں کو مر جانا چاہیے


” ہائے غریب اچھا تھا تجھے تیری ماں جنم دینے سے پہلے ہی مرگئی ہوتی “ ۔

گزشتہ دنوں میں نے یہ فقرہ (نوحہ) سوشل میڈیا پر اپلوڈ کیا ۔ سوشل میڈیا پر میرے بہت سے ساتھیوں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ غریب بیچارہ پہلے ہی ہر پل سسک رہا ہے ۔ آپ نے مزید اس کی ماں کے مرنے کی بددعا دے دی ۔ دراصل یہ نوحہ اس سادہ لوح بوڑھی عورت کا ہے جو اپنے اکلوتے یتیم بیٹے کو تعلیم دلانے کےلئے لوگوں کے گھروں میں کام کرنے پر مجبور ہے ۔ اس غربت کی ماری بوڑھی عورت سے میری ملاقات اپنے ایک عزیز کے گھر اس وقت ہوئی جب وہ اپنی مالکن سے دو ماہ کی ایڈوانس تنخواہ کا مطالبہ کر رہی تھی کیونکہ اسے اپنے بیٹے کی فیس ادا کرنے کے لئے پیسوں کی ضرورت تھی ۔ میرے حال پوچھنے پر اس بزرگ عورت نے بہتے آنسوﺅں کو صاف کرتے ہوئے پنجابی میں یہ نوحہ کہا ۔ بعد ازاں میں نے اس کا اردو میں ترجمہ کیا اور سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دیا ۔ دراصل اصطلاحیں اور الفاظ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے معانی بدل لیتے ہیں ۔ اصطلاحیں حالات و واقعات سے بھی اپنے معانی بدل لیتی ہیں ۔ اس لئے یہاں ” غریب کی ماں کے مرنے“ سے مراد غربت پیدا کرنے والے نظام اور عناصر کا خاتمہ ہے ۔ یہ نوحہ صرف ایک بیوہ عورت کا نہیں بلکہ یہ پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی کا نوحہ بن چکا ہے ۔ غربت نے جن کے چہروں سے مسکراہٹوں کو چھین لیا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نصف سے زیادہ آبادی ان افراد پر مشتمل ہے جو دو وقت کی روٹی کے لئے ترس رہے ہیں ۔ 2.3 لاکھ افراد خوراک افورڈ ہی نہیں کر سکتے ۔ پاکستان میں 13% آبادی کے پاس رہنے کے لئے اپنا گھر ہی نہیں ۔ 48% لوگوں کو پینے کے لئے صاف پانی بھی میسر نہیں ۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ۔

” وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے پاکستان میں امیر غریب کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے ۔ عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانے والے 186 ممالک میں پاکستان کا 146 واں نمبر ہے “ ۔

بنیادی ضروریات کو ترسنے والی پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لئے حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا فرق مٹانے پر مجبور ہے ۔ غربت تشدد کی بدترین قسم ہے ۔

حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ فرماتے ہیں۔

پنج رکن اسلام دے ، تے چھیواں فریدا ٹُک

جے نہ لبھے چھیواں ، تے پنجے ای جاندے مُک

اسلام کے پانچ رکن بیان کئے جاتے ہیں ۔ لیکن اے فرید ! ایک چھٹا رکن بھی ہے اور وہ ہے ” روٹی “ ۔

اگر یہ چھٹا نہ ملے ، تو باقی پانچوں بھی جاتے رہتے ہیں ۔ دو وقت کی روٹی کے لئے لوگ اپنے جسم کے اعضا بیچنے اور قتل و غارت گری پر مجبور ہیں ۔ سود ، ملاوٹ ، استحصال ، زناکاری ، ڈاکہ زنی ، رشوت اور چوری یہ وہ تمام برائیاں ہیں جن کی بنیادی وجہ غربت و افلاس ہے ۔ غربت کی وجہ سے معاشرے سے اسلام کے تمام ارکان اٹھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں ۔ معاشرہ بے حسی ، لاقانونیت کی وجہ سے تباہی کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔

پاکستان میں غربت کی بنیادی وجہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے ۔ دولت کے ذرائع پر مالدار بااثر ، سرمایہ دار اور مقتدر خاندانوں کی اجارہ داری ہے ۔ جو ملکی دولت کو ناجائز ذرائع سے بیرون ممالک میں منتقل کر رہے ہیں ۔ غیر منصفانہ ، غریب دشمن اقتصادی اور معاشی پالیسیوں کی وجہ سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے ۔ حکمران جماعتوں کی ترجیحات میں صرف اپنے اقتدار کو طوالت دینا اور دولت کو بڑھانا ہے ۔ ایک عام آدمی کا معیار زندگی بہتر بنانا ان کی ترجیحات میں شامل رہا ہی نہیں ۔

پاکستان میں نہ دولت کی کمی ہے ، نہ وسائل کی ، ملکی خزانے میں سے ہر سال کم از کم 80 کروڑ روپے سرکاری محلات کی حفاظت ، مرمت اور تزئین و آرائش کے لئے خرچ کئے جاتے ہیں ۔ ایک منسٹر پر غریب عوام کا سالانہ خرچ 3 کروڑ 20 لاکھ روپے ہے ۔ جس ملک کی نصف سے زیادہ آبادی غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اس ملک کے ارکان اسمبلی پر اٹھنے والے مجموعی اخراجات اربوں سے تجاوز کر جاتے ہیں ۔ ایوان صدر کا سالانہ خرچ پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں کے مجموعی خرچ سے بھی زیادہ ہے ۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سے اگر ہم امریکہ کی مثال لیں تو وہاں کا صدارتی محل پنجاب کے گورنر ہاﺅس سے بھی چھوٹا ہے ۔ امیر ترین ملکوں کے وزیر اور تمام سرکاری افسران عام فلیٹوں میں رہتے نظر آئیں گے ۔ جبکہ پاکستان میں بے جا پروٹوکول اور آسائشوں نے ملکی معیشت کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اپنے مفاد کی خاطر آئین اور قانون کی باتیں کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ آئین پاکستان کے پہلے 38 آرٹیکل عوام کے بنیادی حقوق کی فراہمی سے عام آدمی کا معیار زندگی بہتر بنانے کی بات کرتے ہیں ۔ غریب عوام کے حقوق کی بات کرنے والے آئین پاکستان کا مسلسل احتساب کیا جا رہا ہے ۔ حکمران جماعتوں کے منشور میں غربت کا خاتمہ شامل ہی نہیں ۔

بے جا پروٹوکول اور آسائشوں پر ملکی خزانے سے خرچ ہونے والی کثیر رقم غریب عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کافی ہے ۔ غربت کے خاتمے کےلئے ملکی سالمیت کے اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا ۔ حکمران جماعتوں کو اپنا فرعونی طرز ِ حیات بدلنا ہوگا ۔ ایسی پالیسیاں مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس سے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا خاتمہ ممکن ہو سکے ۔

غربت کے خاتمے کے بغیر ملکی ترقی ناممکن ہے ۔ عام آبادی کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے پاکستان کی مخصوص اشرفیہ کو فرعون کے محلوں سے نکل کر موسیٰ کے خاک ساروں میں شامل ہونا ہوگا ۔ قلعوں ، ایوانوں اور محلوں سے نکل کر مکانوں ، گھروں اور فلیٹوں میں رہنا ہوگا ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).