ہیرو گیلری کی دوسری تصویر: راولپنڈی ایکسپرس


ہیرو کون ہوتا ہے؟ میری عاجز رائے میں ہیرو وہ ہوتا ہے جو ہمیں سکھائے کہ ہمارے رویے او ر ردِعمل سے زیادہ بہتر رویہ بھی ممکن ہے۔ جس مشکل سے ہم گزر ہے ہیں، اس کو زیادہ وضعداری اور تمکنت سے بھگتایا جا سکتا ہے۔ اور ایک امید کہ ہم آخر کار جیت بھی سکتے ہیں۔

میری ہیرو گیلری کا ایک بڑا نام شعیب اختر ہے۔ بڑا نام اس لیے کہ ایک تو شعیب اختر کو میں نے براہ راست کھیلتے دیکھا ہے، ریکارڈنگز کے ذریعے نہیں۔ فرق یہ ہے کہ ہر زمانہ شاید ایک بڑی سی تصویر جیسا ہوتا ہے۔ کسی ہیرو کو اس کے زمانے میں دیکھ کر ہی مکمل تصویر بنتی ہے۔ وسیم، وقار کی موجودگی میں اپنا چراغ جلانا معمولی کارنامہ نہیں۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق باؤلنگ کوچ محمد اکرم نے مزے کی بات کہی تھی کہ میں نے وسیم، وقار سے بہت سیکھا لیکن باہر بینچ پر فارغ بیٹھ کر۔ سو شعیب اختر ان دونوں کے ساتھ نئی گیند پھینکتا رہا ہے۔ اب یہ کتنی بڑی بات ہے، اس کا احساس ان لوگوں کو نہ ہو گا جو اس کے دور کا احوال ریکارڈنگز کے ذریعے جانیں گے۔اس کے علاوہ یہ کہ ریکارڈز اوربڑے بڑے ہندسے آپ کو متاثر کر سکتے ہیں، مختلف درجہ بندیوں میں داخل کر سکتے ہیں، لیکن ہیرو ہونے کا لائسنس نہیں دیتے۔

شعیب اختر راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ شعیب اختر نے اپنے فرسٹ کلاس کیریئر میں۔۔۔ لیکن رکئیے۔ یہاں دو باتیں: ایک تو یہ سب اعداد و شمار کرکٹ کی کسی بھی معیاری سائٹ، جیسے کہ کرک انفو وغیرہ سے مل سکتے ہیں۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ، خود کرک انفو کے مطابق، شاید کسی اور کھلاڑی کے اعداد و شمار اتنے نامکمل نہ ہوں، جتنے شعیب اختر کے ہیں۔ ہندسے اس کے کمال کا احاطہ نہیں کر سکتے۔

شعیب اختر کا سب سے بڑا شخصی کمال اس کی کھری اجلی صاف گوئی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں لیڈر کی خوشامد معمول ہے، وہاں شعیب اختر ایک غیر معمولی انسان ثابت ہوا۔ آپ کوشعیب کہیں کسی کی خوشامد کرتا نظر نہیں آئے گا۔ اس کی بدن بولی بتاتی تھی کہ وہ بالشتیوں اور طفیلیوں سے مرعوب نہیں ہے۔ کشش ثقل نے ایک سیب کے زریعے نیوٹن کو سرگوشی کی تھی ۔ شعیب بھی سرخ سیب پھینک کر اپنا تعارف کرواتا تھا۔ اگر شعیب ایک میڈیم پیس یا سلو باؤلر ہوتا تو اپنے رویے کی بدولت شاید ایک مذاق بن گیا ہوتا۔ لیکن اس کی برق رفتاری بتاتی تھی کہ کلام سے پہلے غیر معمولی کمال ہونا ضروری ہے۔ اور بے شک شعیب غیر معمولی تھا۔

شعیب کا دوسرا کمال اس کی پاکستانیت ہے۔ اس کے انٹرویوز پڑھیں یا سنیں، آپ کو بار بار پاکستان کا لفظ سنائی دے گا۔ وہ اپنی کیپ، جس پر ہمارا جھنڈا بنا ہوتا ہے، کبھی زمین پر نہ رکھتا۔ ہمارا آج بھی ماننا ہے کہ کرکٹ کے عالمی کپ 2011 کے بھارت کے خلاف سیمی فائنل میں شعیب کو نہ کھلا کر ہم نے اپنی ٹیم کمزور کی۔ شعیب اس سیمی فائنل میچ سے قبل ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کے اختتام پر ریٹائرمنٹ کا اعلان کر چکا تھا اور اس کے پاس پاکستان کی خدمت کرنے کا آخری موقع تھا۔ ڈراپ کرنے کی وجہ فٹنس بتائی گئی کہ نیو زی لینڈ کے خلاف لیگ میچ میں آخری اوور اچھے نہیں کرائے۔ اب کیا کہیں، چھوٹا منہ، بڑی بات۔ آپ فاسٹ باولنگ کر رہے ہوں اور آپ کی گیندوں پر مسلسل 2 آسان
کیچ چھوڑ دیے جائیں اور وہی بیٹسمین سنچری بھی کر جائے، تب آپ کی توانائی اور جوش کا کیا عالم ہو؟ چھتیس سالہ شعیب اس سیمی فائنل میں کیا کرسکتا تھا، کہہ نہیں سکتے۔ لیکن عمر بھی تو آخر ایک ہندسہ ہی ہے۔ دل کی گواہی ہے کہ اس نے جان مار دینی تھی۔ شعیب اسی ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میں سری لنکا کے خلاف 159 کلومیٹر کی رفتار سے گیند پھینک چکا تھا جو آج کے جواں سال باؤلر کے لیے بھی محال ہے۔ انڈیا کے خلاف میچ تھا اور ہمیں بڑے نام درکار تھے۔ شعیب ایک ایسا ہی نام تھا۔ خیر، شعیب کو الوداعی میچ نہ ملا او ر اس بات کو شعیب نے بڑی وضعداری سے جھیلا۔ کبھی اس بات پر شعیب اختر کو واویلا مچاتے نہیں سنا۔ ہاں، بعد میں کئی لوگوں کو خود اپنے الوداعی میچ کے لیے خوار ہوتے ضرور دیکھا۔ بے شک دنیا گول ہے۔

آج بھی میرے کمپیوٹر کے وال پیپرز میں میرے سب سے زیادہ فیورٹ شعیب اختر کے وال پیپر ہیں۔ وہ میتھیو ہیڈن کو پویلئین کے راستہ کی جانب دونوں ہاتھوں سے اشارہ کرتا شعیب ہو یا آؤٹ کرنے کے بعد اس کی ٹریڈ مارک اڑان ۔ لیکن ان سب میں بہترین وال پیپر وہ ہے جس میں شعیب خو د نظر نہیں آتا۔ تصویر میں نیو لینڈز کرکٹ سٹیڈیم کا برقی سکور بورڈ ہے۔ یہ سال 2003 کا ورلڈ کپ ٹورنامنٹ ہے اور میچ پاکستان بمقابلہ انگلستان ہے۔ برقی سکور بورڈ پر ابھی ابھی پھینکی گئی گیند کی رفتار لکھی ہے جو کہ سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے کچھ زیادہ ہے ۔ مگر بورڈ پرباؤلر کا نام نہیں لکھا ۔ شاید اس لیے کہ ضرورت ہی نہیں تھی ۔کرک انفو پر سچ ہی تو لکھا ہے کہ محض ہندسے شعیب کی کمال کا احاطہ نہیں کر سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).