مولانا طارق جمیل اور جاوید غامدی پڑھے لکھے طبقے میں کیوں مقبول ہیں؟


جاوید احمد غامدی صاحب کو جدید تعلیم سے آراستہ ذہنوں میں پذیرائی حاصل ہے۔ یہی حال مولانا طارق جمیل صاحب کا ہے۔ ان دونوں علما کے اندازِ بیان اور تبلیغ کے فوکس میں بعد المشرقین ہے۔ پھر ایسی کیا وجہ ہے کہ میڈیا بھی ان حضرات کو ترجیح دیتا ہے، اور مختلف تعلیمی اور پروفیشنل ادارے بھی ان حضرات کے لیکچرز کا اہتمام کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ ہمارا میڈیا کمرشل ہے اور ہر وہ چیز دکھاتا ہے جسے دیکھنے میں عوام کی دلچسپی ہو اس لئے میڈیا پر جاوید غامدی صاحب اور مولانا طارق جمیل صاحب کی مقبولیت دراصل دیکھنے والوں میں ان کی مقبولیت کی شاہد ہے۔

اس مضمون میں ہم کسی مذہبی بحث میں پڑتے ہوئے یہ حکم لگانے کی کوشش نہیں کریں گے کہ کس عالم کا کیا درجہ ہے یا اس کی تعلیمات میں کیا کیا نقائص ہیں۔ ہم صرف اس پہلو پر بات کریں گے کہ ان کی مقبولیت کی کیا وجہ ہے۔

مولانا طارق جمیل صاحب کا انداز بیان دلنشین ہے۔ ہمیں روایتی علما کے خطبات سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے مگر مولانا کا بیان سنتے ہیں۔ ان کے مختلف سبق آموز قصے اور زندگی کے واقعات سنانے کا انداز دل کھینچتا ہے۔ انسانوں سے محبت کرنے کا ان کا درس ہماری سمجھ میں آتا ہے۔ بعض افراد مولانا کے حوروں کے بیان وغیرہ کا خاص طور پر مضحکہ اڑاتے ہیں مگر آپ یہ دیکھیں کہ وہ حضرات بھی دیگر کتنے علما کا ذکر کرتے ہیں۔ یعنی خواہ مولانا سے عقیدت ہو یا ان سے مخاصمت، ان کو سنا ضرور جاتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف بات نہ کرنے پر بھی ان پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ مگر ان سب اعتراضات کے باوجود یہ بات تو ان کے حامی اور مخالفین دونوں ہی تسلیم کریں گے کہ مولانا کی بات لوگوں پر اثر کرتی ہے اور وہ ان کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔

خواہ جنید جمشید ہوں یا انضمام الحق، یوسف یوحنا ہوں یا عامر خان، وینا ملک ہوں یا نرگس، ان سب کو کوئی دوسرا عالم کیوں متوجہ نہیں کر پاتا ہے؟ مولانا اپنی ہندوستانی فلم سٹار عامر خان سے ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ راز کھولتے ہیں۔ وہ عامر خان سے ایسے ملے جیسے دو ہم عمر ملتے ہیں۔ عامر خان سے فلموں پر بات ہوئی۔ نشست لمبی ہوتی گئی اور موضوعات پھیلتے گئے۔ بات فلم سے شروع ہوئی اور دین کی باتوں تک جا پہنچی۔ ایسا ہی رویہ ان کا دوسرے مشہور افراد کے بارے میں ہوتا ہے۔ وہ مخاطب کی ذہنی سطح پر آ کر اس کی دلچسپی کے معاملات پر بات کرتے ہیں اور اونچی مسند پر بیٹھ کر اس کی گنہگاری کو حقارت سے نہیں دیکھتے ہیں۔

دوسری طرف جاوید احمد غامدی صاحب ہیں۔ ان کی فکر پر خواہ آپ لاکھ اعتراضات اٹھائیں مگر حقیقت یہی ہے کہ کمرشل ٹی وی پر ان کی مقبولیت کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ دیکھنے والوں کو کھینچتے ہیں۔ ان کے پروگرام کو دیکھا جاتا ہے۔ غامدی صاحب کی جو سب سے بڑی خوبی ہمیں دکھائی دیتی ہے کہ وہ اپنی رائے کی حتمیت پر اصرار نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ ’یہ معاملہ ہم نے ایسے سمجھا ہے، دوسرے لوگوں کی فہم اس سے مختلف ہو سکتی ہے، جو آپ کو بہتر لگے اسے اپنائیں‘۔ ان کی دوسری بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ گستاخانہ ترین سوال کرنے والے کی ذات کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اس کی تکفیر نہیں کرتے بلکہ ان کی اپروچ یہ ہوتی ہے کہ سوال کا جواب دے کر سوالی کے ذہن سے تشکیک کو ختم کیا جائے۔ ان سے بات کرنے والوں سے ان کا رویہ ایسا ہوتا ہے گویا وہ محفل میں موجود حضرات سے برتر نہیں ہیں بلکہ چند دوست آپس میں بیٹھے بات کر رہے ہیں۔

ان دونوں علما میں ایک اور قدرِ مشترک بھی ہے۔ یہ دونوں کسی مدرسے کے نہیں بلکہ گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم رہے ہیں۔ مولانا طارق جمیل صاحب نے گورنمنٹ کالج لاہور سے پری میڈیکل کرنے کے بعد کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ پایا مگر پھر دینی تعلیم کی طرف رجحان غالب ہوا تو کنگ ایڈورڈ سے تعلیم مکمل کیے بغیر ہی اسے چھوڑ دیا۔

جاوید احمد غامدی صاحب نے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی اور فلسفے میں بی اے آنرز کیا۔ وہیں سے فلسفے میں ماسٹرز کیا۔ مولانا امین احسن اصلاحی سے علوم دین کی تحصیل کی۔

یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں علما ایک جدید تعلیم سے آراستہ ذہن کو سمجھتے ہیں۔ انہوں نے آزاد فضا میں تعلیم پائی ہے۔ ان طبقات کی سنگت میں جوانی گزاری ہے جن کو آج وہ اپنی تبلیغ سے اپنا مرید بنائے ہوئے ہیں۔ یہ ان جیسی زبان میں بات کرتے ہیں۔ ان کی سوچ کو سمجھتے ہیں۔ ان کے شکوک و شبہات سے آگاہ ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ان طبقات کی سوچ کو کیسے متاثر کیا جا سکتا ہے۔ ان کی توجہ کیسے حاصل کی جا سکتی ہے۔

یہی ہمارے گزشتہ مضمون کا شکوہ تھا کہ علما کی اکثریت اس خصوصیت سے محروم ہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب جو اصرار کرتے ہیں کہ میٹرک تک سب طلبا ایک جیسی تعلیم پائیں اور ایف اے کے لیول پر جا کر اپنے اپنے رجحان کے مطابق میڈیکل، انجینئرنگ اور علوم دین میں مہارت حاصل کریں، وہ بات ہماری سمجھ میں آتی ہے۔ ملا اور مسٹر کی تقسیم ختم کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ ایک دوسرے کے متعلق شبہات ایسے ہی ختم ہو سکتے ہیں اور ایک دوسرے کو ایسے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔

آپ کو یقین نہیں آتا ہے تو مولانا طارق جمیل اور جاوید احمد غامدی صاحبان سے پوچھ لیں۔


نوجوان نسل میں بڑھتا ہوا الحاد اور علما کی ذمہ داری

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar